Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1582یہ عذاب زمین سے زلزلے اور اوپر سے سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا، جس سے سب کی موت واقع ہوگئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] اس بدبخت نے اونٹنی کی کونچیں) پاؤں کی رگیں ( تلوار وغیرہ کے حملہ کرکے کاٹ ڈالیں۔ اونٹنی نے ایک زور کی چیخ ماری اور اسی پہاڑ میں جاکر غائب ہوگئی۔ اسی طرح اس کا بچہ بھی اسی پہاڑ میں جاکر غائب ہوگیا۔ اب ان لوگوں کو عذاب کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ جب حالات تشویشناک ہوجائیں تو عموماً انسان کی عقل ماری جاتی ہے۔ اور وہ الٹا سوچنے لگتی ہے۔ چناچہ ان بدبختوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھی ٹھکانے لگانے کے لئے خفیہ مشورے شروع کردیئے۔ ان کی عقل نے یہی کام کیا کہ اگر صالح بھی نہ رہے تو شائد عذاب نہیں آئے گا ان حالات کا صالح (علیہ السلام) کو علم ہوگیا تو آپ نے انھیں بحکم الٰہی تین دن کا الٹی میٹم دے دیا کہ تین دن مزے اڑا لو۔ اعد میں تم پر عذاب آجائے گا۔ (١١: ٦٥) - حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کی کل تعداد ایک سو بیس تھی۔ آپ انھیں ساتھ لے کر۔۔ کی طرف ہجرت کر گئے اور رملہ کے قریب جاکر آباد ہوگئے۔ اسی مقام پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے وفات پائی۔- [٩٨] اس قوم پر زبردست زلزلے کا عذاب آیا۔ جس نے پہاڑوں تک جڑیں ہلا دیں۔ ان میں شگاف پڑگئے اور پتھر پر پتھر گرنے لگے جس سے ان کے بیشتر مکانات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے اس دوران بڑی خوفناک اور کانوں کو پھاڑنے والی آوازیں بھی نکلتی تھیں۔ چناچہ اس دوہرے عذاب سے یہ بدبخت قوم صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردی گئی۔- قوم ثمود کی تباہی بھی اللہ کی سنت کے عین مطابق واقع ہوئی۔ اور اس میں بھی عبرت کے کئی اسباب پوشیدہ ہیں۔ کاش یہ لوگ اس واقعہ سے ہی سبق حاصل کریں۔ مگر ان لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہے جو ایمان لانے کی طرف نہیں آتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۭ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٧٨) اور ہود (٦٧) ۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ۭ وَمَا كَانَ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر سورت کے شروع میں آیت (٨، ٩) کے تحت گزر چکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝ ٠ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١٥٨- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٨) بالآخر تین دن کے بعد ان کو عذاب نے آپکڑا، اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ میں بھی جو ہم نے ان کے ساتھ کیا بعد والوں کے لیے بڑی عبرت ہے اور ان میں اکثر ایمان نہیں لائے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :106 قرآن میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب اونٹنی مار ڈالی گئی تو حضرت صالح علیہ السلام نے اعلان کیا : تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ ، تین دن اپنے گھروں میں مزے کر لو ( ہود ، آیت 65 ) ۔ اس نوٹس کی مدت ختم ہونے پر رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب ایک زبردست دھماکا ہوا اور اس کے ساتھ ایسا سخت زلزلہ آیا جس نے آن کی آن میں پوری قوم کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔ صبح ہوئی تو ہر طرف اس طرح کچلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں جیسے باڑے کی باڑھ میں لگی ہوئی سوکھی جانوروں کی آمد و رفت سے پامال ہو کر رہ گئی ہوں ۔ نہ ان کے سنگین قصر انہیں اس آفت سے بچا سکے نہ پہاڑوں میں کھو دے ہوئے غار ۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَکَانُوْا کَھَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ ( القمر ، آیت 31 ) فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ( اعراف ، آیت 78 ) فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ ہ فَمَآ اَغْنیٰ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ( الحجر ، آیات 83 ۔ 84 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: سورۃ ہود : 68 میں قرآن کریم ہی نے بتایا ہے کہ یہ عذاب ایک خوفناک چنگھاڑ کی شکل میں آیا جس سے ان کے کلیجے پھٹ کر رہ گئے، مزید تفصیل وہیں پر گذر چکی ہے۔