Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1711اس سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بوڑھی بیوی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، چناچہ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی درپردہ ان اوباشوں سے ملی ہوئی تھی۔ جب کوئی مہمان آپ کے گھر آتا تو یہ ان اوباشوں کو اشاروں کنایوں سے خفیہ طور پر رپورٹیں دیا کرتی تھی۔ چناچہ جب اس قوم پر عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تشریف لائے تو اسی بڑھیا کی رپورٹ پر آس پاس کے اوباش ہمسائے بڑی نیت سے آپ کے گھر میں گھس آئے تھے۔ لہذا یہ عورت کسی لحاظ سے بھی نجات کی مستحق نہ تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ ، عجوز سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ہے جو کہ قوم لوط کے اس فعل سے راضی تھی اور کافرہ تھی۔ لوط (علیہ السلام) کی یہ کافر بیوی اگر واقع میں بڑھیا تھی تو اس کے لئے لفظ عجوز استعمال کرنا ظاہر ہی ہے اور اگر یہ عمر کے لحاظ سے بڑھیا نہ تھی تو اس کو عجوز کے لفظ سے شاید اس لئے تعبیر کیا گیا کہ پیغمبر کی بیوی امت کے لئے ماں کی جگہ ہوتی ہے جو عورت کثیر الاولاد ہو اس کو بڑھیا کہہ دینا کچھ مستبعد نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ۝ ١٧١ۚ- عَجُوزُ- وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ- [ الصافات 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] .- اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔- غبر - الْغَابِرُ : الماکث بعد مضيّ ما هو معه . قال :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] ، يعني : فيمن طال أعمارهم، وقیل : فيمن بقي ولم يسر مع لوط . وقیل : فيمن بقي بعد في العذاب، وفي آخر : إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] ، وفي آخر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60]- ( غ ب ر ) الغابر - اسے کہتے ہیں جو ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جائے چناچہ آیت کریمہ :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ کی تفسیر میں بعض نے اس سے پیغمبر کے مخالفین لوگ مراد لئے ہیں جو ( سدوم میں ) پیچھے رہ گئے تھے اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں گئے تھے بعض نے عذاب الہی میں گرفتار ہونیوالے لوگ مراد لئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک مقام پر :إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] بجز ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی ۔ اور دوسرے مقام پر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60] ، اس کے لئے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧١ (اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْْغٰبِرِیْنَ ) ” - یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو آپ ( علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائی تھی ‘ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :113 اس سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہے ۔ سورہ تحریم میں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط کی بیویوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰھُمَا ( آیت 10 ) ۔ یہ دونوں عورتیں ہمارے دو صالح بندوں کے گھر میں تھیں مگر انہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی ۔ یعنی دونوں ایمان سے خالی تھیں اور اپنے نیک شوہروں کا ساتھ دینے کے بجائے ان دونوں نے اپنی کافر قوم کا ساتھ دیا ۔ اسی بنا پر جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوط علیہ السلام پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے اہل و عیال کو لے کر اس علاقے سے نکل جائیں تو ساتھ ہی یہ بھی ہدایت فرما دی کہ اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جاؤ ، فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ ( ہود آیت 81 ) ۔ پس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر نکل جا اور تم میں سے کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے ۔ مگر اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جا ، اس پر وہی کچھ گزرنی ہے جو ان لوگوں پر گزرنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: اس سے مراد خود حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ہے جو ایمان لانے کے بجائے اپنی بدکردار قوم کا ساتھ دیتی تھی۔ جب عذاب آنے سے پہلے حضرت لوط (علیہ السلام) کو شہر سے باہر نکلنے کا حکم ہوا تو یہ عورت اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے پیچھے رہ گئی تھی، اور جب بستی والون پر عذاب آیا تو یہ بھی اس کا شکار ہوئی۔