Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شیعب علیہ السلام یہ لوگ مدین کے رہنے والے تھے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام بھی ان ہی میں تھے آپ کو ان کا بھائی صرف اس لئے نہیں کہا گیا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی نسبت ایکہ کی طرف کی ہے ۔ جسے یہ لوگ پوجتے تھے ۔ ایکہ ایک درخت تھا یہی وجہ ہے کہ جیسے اور نبیوں کی ان کی امتوں کا بھائی فرمایا گیا انہیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا ورنہ یہ لوگ بھی انہی کی قوم میں سے تھے ۔ بعض لوگ جن کے ذہن کی رسائی اس نکتے تک نہیں ہوئی وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی قوم میں سے نہ تھے ۔ اس لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو انکا بھائی فرمایا گیا یہ اور ہی قوم تھی ۔ شعیب علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور ان لوگوں کی طرف بھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تیسری امت کی طرف بھی آپ کی بعثت ہوئی تھی ۔ چنانچہ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ کسی نبی کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ نہیں بھیجا سوائے حضرت شعیب علیہ السلام کے کہ ایک مرتبہ انہیں مدین والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ ہلاک کردیا ۔ اور دوبارہ انہیں ایکہ والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ ان پر سائے والے دن کا عذاب آیا اور وہ برباد ہوئے ۔ لیکن یاد رہے کہ اس کے راویوں میں ایک راوی اسحاق بن بشر کاہلی ہے جو ضعیف ہے ۔ قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رس اور اصحاب ایکہ قوم شعیب ہے اور ایک بزرگ فرماتے ہیں اصحاب ایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عساکر میں ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ دو قومیں ہیں ان دونوں نے امتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا تھا لیکن یہ حدیث غریب ہے اور اسکے مرفوع ہونے میں کلام ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف ہی ہو ۔ صحیح امر یہی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی امت ہے ۔ دونوں جگہ ان کے وصف الگ الگ بیان ہوئے ہیں مگر وہ ایک ہی ہے ۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ دونوں قصوں میں حضرت شعیب علیہ السلام کا وعظ ایک ہی ہے دونوں کو ناپ تول صحیح کرنے کا حکم دیاہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1761اَیْکَۃَ ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور بستی مدین کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کے نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لے کر اس کی نواحی آبادی تک تھا جہاں ایک درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ چونکہ قوم نہیں بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا جس طرح کہ دوسرے انبیاء کے ذکر میں ہے البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہے وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے والی مدین اخاھم شعیبا۔ کالاعراف۔ بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ کی طرف لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے اوفوا لکیل والمیزان کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] اصحاب الایکہ کون لوگ تھے ؟ اس میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اصحاب الایکہ اور اصحاب مرین دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایکہ ایک درخت کا نام تھا جس کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے انھیں اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان لوگوں کی بستی اور علاقہ اصحاب مرین سے الگ ہے۔ اصحاب الایکہ کا معنی بن والے یعنی یہ بستی ایک لمبی سی بلند جگہ پر آباد تھی۔ جہاں باغات کے جھنڈ بکثرت تھے اور شعیب نے ان دونوں علاقوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : ” اَلْءَیْکَۃُ “ درختوں کے جھنڈ کو کہتے ہیں، یہ جھنڈ مدین کے اردگرد واقع تھے۔ شعیب (علیہ السلام) مدین والوں اور اصحاب الایکہ دونوں کی طرف مبعوث تھے، مگر چونکہ ان کی رہائش مدین میں تھی اور ان کا نسبی تعلق بھی اہل مدین سے تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کا انتخاب بستیوں میں رہنے والے سے کیا ہے (دیکھیے یوسف : ١٠٩) اس لیے مدین کے ذکر میں شعیب (علیہ السلام) کو ان کا بھائی قرار دیا، جیسا کہ فرمایا : ( وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا) [ الأعراف : ٨٥ ] ” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ “ جب کہ اصحاب الایکہ کے ذکر میں فرمایا : ( اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ) [ الشعراء : ١٧٧ ] ” جب شعیب نے ان سے کہا “ اس سے معلوم ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) ان کی طرف مبعوث تو تھے مگر نسب یا سسرال یا ان میں رہائش کا کوئی ایسا تعلق نہ تھا کہ انھیں ان کا بھائی کہا جاتا۔ (التحریر والتنویر)- ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” صحیح بات یہ ہے کہ اصحاب الایکہ اہل مدین ہی ہیں، دونوں کو ماپ تول پورا کرنے کی نصیحت کی گئی۔ انھیں اصحاب الایکہ اس لیے فرمایا کہ ” الایکہ “ ایک درخت تھا یا درختوں کا جھنڈ تھا، جس کی وہ پرستش کرتے تھے۔ جب مدین (شہر یا قوم) کا ذکر فرمایا تو شعیب (علیہ السلام) کو ان کا بھائی فرمایا، لیکن جب ان کی نسبت شجر پرستی کی طرف کی تو فرمایا : ( اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ) ” جب شعیب نے ان سے کہا “ یعنی اخوت کا تعلق ختم کردیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اصحاب الائیکہ نے (بھی جن کا ذکر سورة حجر کے اخیر میں گزر چکا ہے) پیغمبروں کو جھٹلایا، جبکہ ان سے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں سو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور میں تم سے اس پر کوئی صلہ نہیں چاہتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے تم لوگ پورا ناپا کرو اور (صاحب حق کا) نقصان مت کیا کرو اور (اسی طرح تولنے کی چیزوں میں) سیدھی ترازو سے تولا کرو (یعنی ڈنڈی نہ مارا کرو نہ باٹوں میں فرق کیا کرو) اور لوگوں کا ان کی چیزوں میں نقصان مت کیا کرو اور سر زمین میں فساد مت مچایا کرو اور اس (خدائے قادر) سے ڈرو جس نے تم کو اور تمام اگلی مخلوقات کو پیدا کیا وہ لوگ کہنے لگے کہ بس تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے (جس سے عقل مختل ہوگئی اور نبوت کا دعویٰ کرنے لگے) اور تم تو محض ہماری طرح (کے) ایک (معمولی) آدمی ہو اور ہم تو تم کو جھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیں، سو اگر تم سچوں میں سے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو (تاکہ ہم کو معلوم ہوجاوے کہ واقعی تم نبی تھے تمہاری تکذیب سے ہم کو یہ سزا ہوئی) شعیب (علیہ السلام) بولے کہ (میں عذاب کا لانے والا یا اس کی کیفیت کی تعیین کرنے والا کون ہوں) تمہارے اعمال کو میرا رب (ہی) خوب جانتا ہے (اور اس عمل کا جو مقتضاء ہے کہ کیا عذاب ہو اور کب ہو اس کو بھی وہی جانتا ہے اس کو اختیار ہے) سو وہ لوگ (برابر) ان کو جھٹلایا کئے پھر ان کو سائبان کے واقعہ عذاب نے آپکڑا بیشک وہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا (اور) اس (واقعہ) میں (بھی) بڑی عبرت ہے اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور بیشک آپ کا رب بڑی قدرت والا بڑی رحمت والا ہے (کہ عذاب نازل کرسکتا ہے مگر مہلت دے رکھی ہے۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَۃِ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١٧ ٦ۚۖ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - أيك - الأَيْكُ : شجر ملتف وأصحاب الأيكة قيل : نسبوا إلى غيضة کانوا يسکنونهاوقیل : هي اسم بلد .- ( ای ک ) الایک - ۔ درختوں کا جھنڈ ( ذوای کہ ) اور آیت ۔ وأصحاب الأيكةکی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ الایکۃ ان کے شہر اور آبادی کا نام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٦۔ ١٧٧) قوم شعیب (علیہ السلام) نے بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) اور تمام پیغمبروں کو جھٹلایا جب کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٦ (کَذَّبَ اَصْحٰبُ لْءَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ) ” (- ” ایکہ “ کے معنی جنگل یاَ بن کے ہیں۔ یہ لفظ اس سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے لیے سورة الحجر کی آیت ٧٨ میں بھی آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :115 اصحاب الایکہ کا مختصر ذکر سورہ الحجر آیت 78 ۔ 84 میں پہلے گزر چکا ہے ۔ یہاں اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا مَدْیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورہ اعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کا بھائی فرمایا گیا ہے ( وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْباً ) ، اور یہاں اصحاب الایکہ کے ذکر میں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیبٌ ( جبکہ ان سے شعیب نے کہا ) ، ان کے بھائی ( اَخُوْھُمْ ) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں جو امراض اور اوصاف اصحاب مدین کے بیان ہوئے ہیں وہی یہاں اصحاب الایکہ کے بیان ہو رہے ہیں ، حضرت شعیب کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے ، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے ۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اقوال اپنی جگہ صحیح ہیں ۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبہ دو الگ قبیلے ہیں مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ عرب اور اسرائیل کی تاریخ میں بنی قطُورا کے نام سے معروف ہے ۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا ، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی ، یا اصحاب مدین کہلایا ، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نمائے سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سواحل پر پھیل گئی ۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا جس کی جائے وقوع ابوالفدا نے خلیج عقبہ کے مغربی کنارے اَیلَہ ( موجودہ عقبہ ) سے پانچ دن کی راہ پر بتائی ہے ۔ باقی بنی قطورا جن میں بنی ودان ( ) نسبۃً زیادہ مشہور ہیں ، شمالی عرب میں تَیماء اور تبوک اور العُلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے ۔ ( یاقوت نے معجم البلدان میں لفظ ایکہ کے تحت بتایا ہے کہ یہ تبوک کا پرانا نام ہے اور اہل تبوک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ یہی جگہ کسی زمانے میں ایکہ تھی ) ۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے ، ایک ہی زبان بولتے تھے ، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے متصل تھے ۔ بلکہ بعید نہیں کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو ۔ اس کے علاوہ بنی قطور کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا ۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں ۔ بائیبل کی ابتدائی کتابوں میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ بعل فغور کی پرستش کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر ان کے علاقے میں آئے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور زنا کاری کی وبا پھیلا دی ( گنتی ، باب 25 آیت 1 ۔ 5 ، باب 31 آیت 16 ۔ 17 ) ۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں ۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا ۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے ، اور بین الاقوامی تجارت پر خود قابض رہنے کی خاطر انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا ۔ قرآن مجید میں ان کی اس پوزیشن کو یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّھُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ یہ دونوں ( قوم لوط اور اصحاب الایکہ ) کھلی شاہراہ پر آباد تھے ، اور ان کی رہزنی کا ذکر سورہ اعراف میں اس طرح کیا گیا ہے : وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ اور ہر راستے پر لوگوں کو ڈرانے نہ بیٹھو ۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی ۔ حضرت شعیب علی السلام اور اہل مدین کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 85 ۔ 93 ۔ ہود 84 ۔ 95 ۔ العنکبوت 36 ۔ 37 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: ایکہ اصل میں گھنے جنگل کو کہتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے، وہ ایسے ہی گھنے جنگل کے پاس واقع تھی، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اسی بستی کا نام مدین تھا، اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مدین کے علاوہ کوئی اور بستی تھی، اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اس کی طرف بھی بھیجے گئے تھے۔ اس قوم کا واقعہ سورۃ اعراف : 85 تا 93 میں گذر گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ان آیات کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔