ڈنڈی مار قوم حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو ناپ تول درست کرنے کی ہدایت کررہے ہیں ۔ ڈنڈی مارنے اور ناپ تول میں کمی کرنے سے روکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب کسی کو کوئی شے ناپ کردو تو پورا پیمانہ بھر کر دو اس کے حق سے کم نہ کر و ۔ اسی طرح دوسرے سے جب لو تو زیادہ لینے کی کوشش اور تدبیر نہ کرو ۔ یہ کیا کہ لینے کے وقت پورا لو اور دینے کے وقت کم دو؟ لین دین دونوں صاف اور پورا رکھو ۔ ترازو اچھی رکھو جس میں تول صحیح آئے بٹے بھی پورے رکھو تول میں عدل کرو ڈنڈی نہ مارو کم نہ تولو کسی کو اسکی چیز کم نہ دو ۔ کسی کی راہ نہ مارو چوری چکاری لوٹ مار غارتگری رہزنی سے بچو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کرکے ان سے مال نہ لوٹو ۔ اس اللہ کے عذابوں کا خوف رکھو جس نے تمہیں اور سب اگلوں کو پیدا کیا ہے ۔ جو تمہارے اور تمہارے بڑوں کا رب ہے یہی لفظ آیت ( وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ 62 ) 36-يس:62 ) میں بھی اسی معنی میں ہے ۔
18 1 1یعنی جب تم لوگوں کو ناپ کردو تو اسی طرح پورا دو ، جس طرح لیتے وقت تم پورا ناپ کرلیتے ہو۔ لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو، کہ دیتے وقت کم دو اور لیتے وقت پورا لو
[١٠٦] حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم دو تجارتی شاہراہوں کے تقاطع یا چوک پر آباد تھی۔ لہذا یہ پورے کا پورا علاقہ بڑا بھاری تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ شرک اور دوسری اخلاقیوں کے علاوہ ان میں جو سب سے بڑا مرض تھا وہ تجارتی ہیرا پھیری کرنا تھا۔ ناپ تول میں ایسے استاد تھے کہ بھلے بھلوں کے کان کتر دیتے تھے۔ تولتے اس طرح تھے کہ گاہک خواہ سو دفعہ ترازو دیکھتا رہے۔ یہ اس کے دیکھتے دیکھتے ہیں تیسرا یا چوتھا حصہ اس کا حق مار جاتے اور جب تول کر یا ناپ کردینا پڑتا تو ایسی ہی ہاتھ کی صفائی دکھاتے تھے۔
اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا ۔۔ : ان کی ماپ تول میں کمی بیشی، زمین میں فساد اور رہزنی کا ذکر سورة اعراف (٨٥، ٨٦) میں گزر چکا ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کے قصے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٥ تا ٩٣) ، ہود (٨٤ تا ٩٥) اور عنکبوت (٣٦، ٣٧) بعض لوگوں نے مدین کے اس بزرگ کو شعیب (علیہ السلام) قرار دیا ہے جس کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) نے دس سال گزارے تھے، مگر یہ بات بالکل بےاصل ہے، ” مدین “ کے ہر بزرگ کا شعیب (علیہ السلام) ہونا ضروری نہیں۔
اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ ١٨ ١ۚ- وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
(١٨١) تم لوگ پورا ماپا تولا کرو اور ماپ و تول میں کمی کرکے نقصان پہنچانے والے مت بنا کرو۔
39: کفر و شرک کے علاوہ ان لوگوں کی ایک خرابی یہ تھی کہ یہ تجارت میں ڈنڈی مارنے کے عادی تھے۔