Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201یعنی یہ قتل ارادتًا نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا تھا، اس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ : ” اَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ “ ” میں اس وقت ضلالت والوں سے تھا۔ “ لفظ ” ضلالت “ ہر جگہ گمراہی کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ عربی زبان میں اسے ناواقفیت، نادانی، خطا اور بھول وغیرہ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قبطی کے قتل کے واقعہ کو دیکھیں تو یہاں اس کا معنی نادانی، خطا یا بھول ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ نہ ان کا ارادہ اسے قتل کرنے کا تھا اور نہ ان کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ ایک گھونسے سے اس کا کام تمام ہوجائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے اس کے اس طعن کا جواب دیا جس سے وہ انھیں مجرم ثابت کرنا چاہتا تھا، کیونکہ جرم ثابت ہونے سے وہ قصاص کے مستحق ٹھہرتے تھے۔ چناچہ انھوں نے دھمکی کا جواب کسی خوف کے بغیر نہایت دلیری سے دیا کہ ہاں، وہ کام میں نے کیا ہے، مگر میں نے اس وقت یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا، نہ میرا یہ ارادہ تھا کہ اسے قتل کروں، مجھے کیا خبر تھی کہ ایک گھونسے میں اس کا دم نکل جائے گا، کبھی ایک گھونسے سے بھی موت واقع ہوا کرتی ہے ؟ مجھ سے یہ کام دانستہ نہیں خطا اور بھول سے ہوا ہے اور کیا کسی قانون میں خطا سے ہونے والے کام کو جرم قرار دیا جاتا ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں لفظ ضلال کا مفہوم :- قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ فرعون کے اس سوال پر کہ تم نے اے موسیٰ ایک قبطی کو قتل کیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواباً فرمایا کہ ہاں میں نے قتل ضرور کیا تھا لیکن وہ قتل ارادة اور قصد سے نہ تھا بلکہ اس قبطی کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کے لئے گھنسہ مارا جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ خلاصہ یہ کہ نبوت کے منافی قتل عمد ہے اور یہ قتل بلا ارادہ ہوا تھا جو منافی نبوت نہیں۔ حاصل یہ ہوا کہ یہاں " ضلال " کا مطلب " بیخبر ی " ہے اور اس سے مراد قبطی کا بلا ارادہ قتل ہوجانا ہے۔ اس معنی کی تائید حضرت قتادہ اور ابن زید کی روایات سے بھی ہوتی ہے کہ دراصل عربی میں ضلال کے کئی معنی آتے ہیں اور ہر جگہ اس کا مطلب گمراہی نہیں ہوتا۔ یہاں بھی اس کا ترجمہ " گمراہ " کرنا درست نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝ ٢٠ۭ- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے واقعتا وہ حرکت کرلی تھی اور اس وقت تمہارے احسان کا خیال نہ تھا، سو جب مجھے اپنی جان کا خطرہ ہوا تو میں یہاں سے مفرور ہوگیا تو میرے پروردگار نے مجھے دانش مندی علم اور نبوت عطا فرمائی اور مجھے رسولوں میں شامل کر کے تیرے اور تیری قوم کی طرف بھیج دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ ) ” - یعنی یہ فعل مجھ سے نادانستگی میں ہوا تھا اور اس وقت میں ابھی حقیقت سے ناآشنا بھی تھا۔ ابھی رسالت اور نبوت مجھے نہیں ملی تھی اور میں خود تلاش حقیقت میں سرگرداں تھا۔ لفظ ” الضّال “ کے دو مفاہیم کے بارے میں سورة الفاتحہ کے مطالعے کے دوران وضاحت کی جا چکی ہے۔ اس لفظ کے ایک معنی تو راستے سے بھٹک جانے والے اور غلط فہمی کی بنا پر کوئی غلط راستہ اختیار کرلینے والے کے ہیں ‘ لیکن اس کے علاوہ جو شخص ابھی درست راستے کی تلاش میں سرگرداں ہو اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور اسی مفہوم میں یہ لفظ سورة الضحیٰ کی اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استعمال ہوا ہے : (وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ) کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو راہنمائی فرما دی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :16 اصل الفاظ ہیں : وَاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ ، میں اس وقت ضلالت میں تھا ۔ یا میں نے اس وقت یہ کام ضلالت کی حالت میں کیا تھا ۔ یہ لفظ ضلالت لازماً گمراہی کا ہی ہم معنی نہیں ہے ۔ بلکہ عربی زبان میں اسے نا واقفیت ، نادانی ، خطا ، نسیان ، نادانستگی وغیرہ معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو واقعہ سورہ قصص میں بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے یہاں ضلالت بمعنی خطا یا نادانستگی ہی لینا زیادہ صحیح ہے ۔ حضرت موسیٰ نے اس قبطی کو ایک اسرائلی پر ظلم کرتے دیکھ کر صرف ایک گھونسا مارا تھا ۔ ظاہر ہے کہ گھونسے سے بالعموم آدمی مرتا نہیں ہے ، نہ قتل کی نیت سے گھونسا مارا جاتا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سے وہ شخص مرگیا ۔ اس لیے صحیح صورت واقعہ یہی ہے کہ یہ قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا تھا ۔ قتل ہوا ضرور ، مگر بالارادہ قتل کی نیت سے نہیں ہوا ، نہ کوئی ایسا آلہ یا ذریعہ استعمال کیا گیا جو قتل کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے یا جس سے قتل واقع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یعنی یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ایک ہی مکا کھا کر مر جائے گا۔