22 3 1یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ان کاہنوں کو آکر بتلا دیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور بھی ملا لیتے ہیں۔
[١٣٣] یعنی ان کاہن قسم کے لوگوں کے ذرائع معلومات انتہائی ناقص قسم کے ہوتے ہیں۔ اور اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ شیطان ملاء اعلیٰ کی طرف کاہن لگاتے ہیں اور کوئی ایک آدھ بات سن پائیں تو اس میں سو جھوٹ ملا کر کاہنوں کو بتلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ کاہن شیطانوں کی طرف کان لگائے رکھتے ہیں۔ پھر جب شیطان کسی کاہن کو کچھ القاء کرتا ہے تو یہ کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بتلاتے ہیں۔ گویا ان کے کاروبار کی بنیاد سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔
يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ : ” السَّمْعَ “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، یعنی سنی ہوئی بات۔ اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ شیاطین فرشتوں سے سنی ہوئی بات کاہنوں کے کانوں میں لا ڈالتے ہیں، جن میں وہ اپنی طرف سے سو (١٠٠) جھوٹی باتیں ملا دیتے ہیں۔ فرشتوں سے سنی ہوئی وہ بات سچی نکلتی ہے تو سو (١٠٠) جھوٹی باتوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتے۔ دوسرا یہ کہ وہ ” افاک و اثیم “ کاہن شیاطین سے سنی ہوئی بات لوگوں کو بتاتے ہیں جس میں وہ مزید جھوٹ ملا دیتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، سوائے اس ایک بات کے جو شیاطین نے چرا کر ان تک پہنچائی ہوتی ہے۔ ” يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ “ میں ” السَّمْعَ “ مصدر مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی وہ شیاطین فرشتوں کی گفتگو سننے کے لیے کان لگاتے ہیں، یا وہ کاہن شیاطین کی باتیں سننے کے لیے کان لگاتے ہیں۔ یہ معنی بھی درست ہے۔- ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ، ضَرَبَتِ الْمَلَاءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِھَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ ، کَأَنَّہُ سِلْسِلَۃٌ عَلٰی صَفْوَانٍ ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالُوْا مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا لِلَّذِيْ قَالَ الْحَقَّ ، وَھُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ ، فَیَسْمَعُھَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُوا السَّمْعِ ھٰکَذَا بَعْضُہُ فَوْقَ بَعْضٍ ، وَصَفَہُ سُفْیَانُ بِکَفِّہِ فَحَرَفَھَا وَ بَدَّدَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ ، فَیَسْمَعُ الْکَلِمَۃَ فَیُلْقِیْھَا إِلٰی مَنْ تَحْتَہُ ، ثُمَّ یُّلْقِیْھَا الْآخَرُ إِلٰی مَنْ تَحْتَہُ ، حَتّٰی یُلْقِیَھَا عَلٰی لِسَان السَّاحِرِ أَوِ الْکَاھِنِ ، فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّھَابُ قَبْلَ أَنْ یُلْقِیَھَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاھَا قَبْلَ أَنْ یُّدْرِکَہُ ، فَیَکْذِبُ مَعَھَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ فَیُقَالُ أَلَیْسَ قَدْ قَالَ لَنَا یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا، کَذَا وَ کَذَا ؟ فَیُصَدَّقُ بِتِلْکَ الْکَلِمَۃِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ ) [ بخاري، التفسیر، باب ( حتی إذا فزع عن قلوبہم۔۔ ) : ٤٨٠٠ ] ” جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان انھیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر کی آواز ہوتی ہے، پھر جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوجاتی ہے تو وہ آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ اس نے حق فرمایا ہے اور وہ بہت بلندی والا،- بہت بڑائی والا ہے، تو (کبھی کبھی) چوری سننے والا اسے سن لیتا ہے اور چوری سننے والے اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ “ اور (حدیث کے راوی) سفیان نے چوری سننے والوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو الگ الگ کرکے ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر دکھایا۔ ” تو وہ (شیطان جنّ ) بات سن لیتا ہے اور اپنے سے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، پھر وہ دوسرا اسے اپنے سے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسے جادوگر کاہن کی زبان پر ڈال دیتا ہے، پھر بعض اوقات شعلہ اسے نیچے پہنچانے سے پہلے آ پکڑتا ہے اور بعض اوقات وہ شعلہ پہنچنے سے پہلے دوسرے کو وہ بات پہنچا دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔ تو کہا جاتا ہے، کیا اس نے ہمیں فلاں فلاں دن ایسے ایسے نہیں کہا تھا ؟ تو اس بات کی وجہ سے جو آسمان سے سنی تھی اس کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے۔ “ عائشہ زوج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : ( إِنَّ الْمَلَاءِکَۃَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ ، وَھُوَ السَّحَابُ ، فَتَذْکُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ ، فَتَسْتَرِقُ الشَّیَاطِیْنُ السَّمْعَ فَتَسْمَعُہُ ، فَتُوْحِیْہِ إِلَی الْکُھَّانِ ، فَیَکْذِبُوْنَ مَعَھَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِھِمْ ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ۔۔ : ٣٢١٠ ] ” فرشتے بادل میں اترتے ہیں اور اس کام کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمان میں فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے۔ تو شیطان چوری سے اس کی طرف کان لگاتے ہیں اور اسے سن لیتے ہیں اور کاہنوں کے دلوں میں پہنچا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے سو (١٠٠) جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ “ - صفیہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے ایک بیوی سے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلاَۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ) [ مسلم، السلام، باب تحریم الکہانۃ۔۔ : ٢٢٣٠ ] ” جو شخص کسی عراف (چوریاں یا گم شدہ چیزیں بتانے والے) کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ “ ابوہریرہ اور حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَتٰی کَاھِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فََقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) [ مسند أحمد : ٢؍٤٢٩، ح : ٩٥٤٨ ] ” جو شخص کسی کاہن یا عراف کے پاس جائے اور اسے اس بات میں سچا سمجھے جو وہ کہے تو اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ “ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کاہنوں (غیب کی باتیں بتانے والوں) کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسُوْا بِشَيْءٍ ، قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَإِنَّھُمْ یُحَدِّثُوْنَ أَحْیَانًا بالشَّيْءِ یَکُوْنُ حَقًّا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ الْکَلِمَۃُ مِنَ الْحَقِّ یَخْطَفُھَا الْجِنِّيُّ فَیَقُرُّھَا فِيْ أُذُنِ وَلِیِّہِ قَرَّ الدَّجَاجَۃِ فَیَخْلِطُوْنَ فِیْھَا أَکْثَرَ مِنْ ماءَۃِ کَذْبَۃٍ ) [ بخاري، الأدب، باب قول الرجل للشيء ۔۔ : ٦٢١٣ ] ” وہ کچھ بھی نہیں۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ بعض اوقات وہ ہمیں کوئی بات بتاتے ہیں جو سچی نکلتی ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ بات حق ہوتی ہے جسے جنّی (جن) اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں مرغی کے کڑکڑ کرنے کی طرح ڈال دیتا ہے، پھر وہ اس کے ساتھ سو (١٠٠) جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ “
يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُہُمْ كٰذِبُوْنَ ٢٢٣ۭ- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
(٢٢٣) اور جو شیاطین کی فرشتوں سے اڑائی ہوئی باتوں کی طرف ان شیاطین کی طرف کان لگا لیتے ہیں اور وہ شیاطین ایک بات اچکتے ہیں اور سو جھوٹ اس میں اپنی طرف سے ملا کر پھر کاہنوں کو اس سے مطلع کرتے ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :141 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ شیاطین کچھ سن گن لے کر اپنے اولیاء پر القاء کرتے ہیں اور اس میں تھوڑی سی حقیقت کے ساتھ بہت سا جھوٹ ملا دیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے لپاٹیے کاہن شیاطین سے کچھ باتیں سن لیتے ہیں اور پھر اپنی طرف سے بہت سا جھوٹ ملا کر لوگوں کے کانوں میں پھونکتے پھرتے ہیں ۔ اس کی تشریح ایک حدیث میں بھی آئی ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ بعض لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا وہ کچھ نہیں ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ بعض اوقات تو وہ ٹھیک بات بتا دیتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ٹھیک بات جو ہوتی ہے اسے کبھی کبھار جن لے اڑتے ہیں اور جاکر اپنے دوست کے کان میں پھونک دیتے ہیں ، پھر وہ اس کے ساتھ جھوٹ کی بہت سی آمیزش کر کے ایک داستان بنا لیتا ہے ۔
51: یعنی شیاطین کی باتوں پر بھروسہ کرنے والے کوئی نیک لوگ نہیں، گنہگار لوگ ہوتے ہیں اور ان شیاطین کا یہ دعوی بھی بالکل لغو ہے کہ انہیں غیب کی خبریں معلوم ہیں، ہوتا یہ ہے کہ کبھی فرشتوں کی کوئی بات ان کے کانوں میں پڑجاتی ہے تو وہ اس میں بہت سے جھوٹ شامل کرکے اپنے معتقدین کو آکر بتادیتے ہیں۔