Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٤] کفار مکہ کا ایک الزام یہ بھی تھی کہ آپ) معاذ اللہ ( شاعر ہیں۔ اسی نسبت سے یہاں شاعروں اور شاعروں کو داد دینے والوں کے کچھ اوصاف بیان فرما دیئے۔ تاکہ ہر شخص از خود یہ فیصلہ کرلے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہوسکتے ہیں یا نہیں ؟ پھر آپ کے پیرو کاروں کے اوصاف کیسے ہیں۔ اور شاعروں کے پیروکاروں کے کیسے ہوتے ہیں ؟ شاعروں کا کام محض گرمی محفل اور وقتی جوش پیدا کرنا ہوتا ہے جس کا مستقل ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اور ان کی داد دینے والے بھی ہدایت کی راہ سے بےبہرہ اور۔۔ ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ : ” الْغَاوٗنَ “ ” غَوٰی یَغْوِيْ “ (ض) سے اسم فاعل کی جمع ہے، گمراہ لوگ۔ کفارِمکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کاہن کے علاوہ شاعر ہونے کا الزام بھی لگاتے تھے، اس لیے آپ سے کہانت کی نفی کے بعد شاعر ہونے کی نفی بھی فرمائی۔ مزید دیکھیے سورة یٰس (٦٩) اور حاقہ (٤٠ تا ٤٣) ان آیات میں شعراء کی تین خصوصیات بیان فرمائیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ شعراء اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اور شعر اور قرآن مجید میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ پہلی خصوصیت یہ کہ شعراء کے پیچھے گمراہ، بھٹکے ہوئے اور اوباش قسم کے لوگ لگتے ہیں، پھر جن کے پیچھے لگنے والے گمراہ ہوں خود ان کے گمراہ ہونے میں کیا کمی ہوگی ؟ عرب کے سب سے بڑے شاعر ” امرء القیس “ نے جس بےحیائی اور فحاشی کی اشاعت اپنے شعروں میں کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، یہاں تک کہ اہل عرب بھی اسے اپنا سب سے بڑا شاعر ماننے کے باوجود ” اَلْمَلِکُ الضَّلِیْلُ “ (رند بادشاہ) کہتے تھے۔ شاعروں کا محبوب موضوع عشق بازی، شراب نوشی اور بازاری عورتوں یا کسی کی معصوم بہو وبیٹی کے حسن و جمال کا تذکرہ ہے، یا شہوت بھڑکانے والی فحش باتیں۔ وہ کسی کی بےجا مدح کرتے ہیں اور کسی کی ناجائز مذمت، اس لیے ان کے ساتھی بھی اسی قبیل کے لوگ ہوتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی انتہائی سچے، پاکباز، شریف اور مہذب تھے۔ ایسے شخص کو شاعر وہی شخص کہہ سکتا ہے جو جھوٹ بولنے میں حیا کی ساری حدیں پار کر گیا ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

شعر کی تعریف :- وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ، اصل لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں محض خیالی اور غیر تحقیقی مضامین بیان کئے گئے ہوں جس میں کوئی بحر، وزن، ردیف اور قافیہ کچھ شرط نہیں، فن منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ادلہ شعریہ اور قضایا شعریہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی شعر و غزل میں بھی چونکہ عموماً خیالات کا ہی غلبہ ہوتا ہے اس لئے اصطلاح شعراء میں کلام موزوں مقفّٰی کو شعر کہنے لگے۔ بعض مفسرین نے آیات قرآن بَلْ هُوَ شَاعِرٌ، شَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ ، شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ وغیرہ میں شعر اصطلاحی کے معنی میں مراد لے کر کہا کہ کفار مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وزن دار، قافیہ دار کلام لانے والے کہتے تھے لیکن بعض نے کہا کہ کفار کا مقصد یہ نہ تھا، اس لئے کہ وہ شعر کے طرز و طریق سے واقف تھے اور ظاہر ہے کہ قرآن اشعار کا مجموعہ نہیں اس کا قائل تو ایک عجمی بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ فصیح وبلیغ عرب، بلکہ کفار آپ کو شاعر شعر کے اصلی معنے یعنی خیالی مضامین کے لحاظ سے کہتے تھے۔ مقصد ان کا دراصل آپ کو نعوذ باللہ جھوٹا کہنا تھا کیونکہ شعر بمعنی کذب بھی استعمال ہوتا ہے اور شاعر کاذب کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے ادلہ کا ذبہ کو ادلہ شعریہ کہا جاتا ہے خلاصہ یہ کہ جیسے موزوں اور مقفّٰی کلام کو شعر کہتے ہیں اسی طرح ظنی اور تخمینی کلام کو بھی شعر کہتے ہیں جو اہل منطق کی اصطلاح ہے۔- وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ، اس آیت میں شعر کے اصطلاحی اور معروف معنے ہی مراد ہیں۔ یعنی موزوں و مقفّٰی کلام کہنے والے، اس کی تائید فتح الباری کی روایت سے ہوتی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحة، حسان بن ثابت اور کعب بن مالک جو شعراء صحابہ میں مشہور ہیں روتے ہوئے سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ خدائے ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آیت کے آخری حصہ کو پڑھو۔ مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے اس لئے تم اس استثناء میں داخل ہو جو آخر آیت میں مذکور ہے اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی آیت میں مشرکین شعراء مراد ہیں کیونکہ گمراہ لوگ سرکش شیطان اور نافرمان جن ان ہی کے اشعار کی اتباع کرتے تھے اور روایت کرتے تھے (کما فی فتح الباری)- شریعت اسلام میں شعر و شاعری کا درجہ :- آیات مذکورہ کے شروع سے شعر و شاعری کی سخت مذمت اور اس کا عنداللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے مگر آخر سورت میں جو استثناء مذکور ہے اس سے ثابت ہوا کہ شعر مطلقاً برا نہیں بلکہ جب جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کے ذکر سے روکنا یا جھوٹ ناحق کسی انسان کی مذمت اور توہین ہو یا فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم و مکروہ ہے اور جو اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ الآیتہ کے ذریعہ مستثنی فرما دیا ہے اور بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اطاعت وثواب میں داخل ہیں جیسا کہ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے کہ ان من الشعر حکمۃ، یعنی بعض شعر حکمت ہوتے ہیں (رواہ البخاری) حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ حکمت سے مراد سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن بطال نے فرمایا جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کا ذکر، اسلام سے الفت کا بیان ہو وہ شعر مرغوب و محمود ہے اور حدیث مذکور میں ایسا ہی شعر مراد ہے اور جس شعر میں جھوٹ اور فحش بیان ہو وہ مذموم ہے اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل روایات سے ہوتی ہے (١) عمر بن الشرید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے امیہ بن ابی الصلت کے سو قافیہ تک اشعار سنے (٢) مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ سے بصرہ تک حضرت عمران بن حصین کے ساتھ سفر کیا اور ہر منزل پر وہ شعر سناتے تھے (٣) طبری نے کبار صحابہ اور کبار تابعین کے متعلق کہا کہ وہ شعر کہتے تھے سنتے تھے اور سناتے تھے (٤) امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ شعر کہا کرتی تھیں (٥) ابو یعلی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ شعر ایک کلام ہے اگر اس کا مضمون اچھا اور مفید ہے تو شعر اچھا ہے اور مضمون برا یا گناہ کا ہے تو شعر برا ہے۔ (فتح الباری)- تفسیر قرطبی میں ہے کہ مدینہ منورہ کے فقہاء عشرہ جو اپنے علم و فضل میں معروف ہیں ان میں سے عبید اللہ بن عتبہ بن مسعود، مشہور قادر کلام شاعر تھے اور قاضی زبیر بن بکار کے اشعار ایک مستقل کتاب میں جمع تھے۔ پھر قرطبی نے لکھا کہ ابو عمرو نے فرمایا ہے کہ اچھے مضامین پر مشتمل اشعار کو اہل علم اور اہل عقل میں سے کوئی برا نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اکابر صحابہ جو دین کے مقتدا ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے خود شعر نہ کہے ہوں یا دوسروں کے اشعار نہ پڑھے یا سنے ہوں اور پسند کیا ہو۔ - جن روایات میں شعر شاعری کی مذمت مذکور ہے ان سے مقصود یہ ہے کہ شعر میں اتنا مصروف اور منہمک ہوجائے کہ ذکر اللہ عبادت اور قرآن سے غافل ہوجائے۔ امام بخاری نے اس کو ایک مستقل باب میں بیان فرمایا ہے اور اس باب میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے۔ لان یمتلئ جوف رجل قیحاً یریہ خیر من ان یمتلئ شعراً ، یعنی کوئی آدمی پیپ سے اپنا پیٹ بھرے یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے پیٹ بھرے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ شعر جب ذکر اللہ اور قرآن اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں ہے اسی طرح وہ اشعار جو فحش مضامین یا لوگوں پر طعن وتشنیع یا دوسرے خلاف شرع مضامین پر مشتمل ہوں وہ باجماع امت حرام و ناجائز ہیں اور یہ کچھ شعر کے ساتھ مخصوص نہیں جو نثر کلام ایسا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (قرطبی)- حضرت عمر بن خطاب نے اپنے گورنر عدی بن نضلہ کو ان کے عہدہ سے اس لئے برخاست کردیا کہ وہ فحش اشعار کہتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمرو بن ربیعہ اور ابوالاحوص کو اسی جرم میں جلا وطن کرنے کا حکم دیا۔ عمرو بن ربیعہ نے توبہ کرلی وہ قبول کی گئی۔ (قرطبی)- خدا و آخرت سے غافل کردینے والا ہر علم اور فن مذموم ہے :- ابن ابی جمرہ نے فرمایا کہ بہت قافیہ بازی اور ہر ایسا علم و فن جو دلوں کو سخت کر دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے انحراف و اعراض کا سبب بنے اور اعتقادات میں شکوک و شبہات اور روحانی بیماریاں پیدا کرے اس کا بھی وہی حکم ہے جو مذموم اشعار کا حکم ہے۔ - اکثر اتباع کرنے والوں کی گمراہی متبوع کی گمراہی کی علامت ہوتی ہے :- وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ، اس آیت میں شعراء پر یہ عیب لگایا گیا ہے کہ ان کے متعبین گمراہ ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گمراہ تو ہوئے متبعین ان کے فعل کا الزام متبوعین یعنی شعراء پر کیسے عائد ہوا ؟ وجہ یہ ہے کہ عموماً اتباع کرنے والوں کی گمراہی علامت اور نشانی ہوتی ہے متبوع کی گمراہی کی لیکن سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ حکم اس وقت ہے جب تابع کی گمراہی میں اس متبوع کے اتباع کا دخل ہو مثلاً متبوع کو جھوٹ اور غیبت سے بچنے بچانے کا اہتمام نہیں ہے اس کی مجلس میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں وہ روک ٹوک نہیں کرتا اس سے تابع کو بھی جھوٹ اور غیبت کی عادت پڑگئی تو یہ تابع کا گناہ خود متبوع کے گناہ کی علامت قرار دیا جائے گا لیکن اگر گمراہی متبوع کی ایک وجہ سے اور اتباع کسی دوسری وجہ سے ہو تو یہ تابع کی گمراہی متبوع کی گمراہی کی علامت نہیں ہوگی۔ مثلاً ایک شخص عقائد و مسائل میں کسی عالم کا اتباع کرتا ہے اور ان میں کوئی گمراہی نہیں، اعمال و اخلاق میں اس عالم کا اتباع نہیں کرتا انہیں میں یہ گمراہ ہے تو اس کی عملی اور اخلاقی گمراہی اس عالم کی گمراہی پر دلیل نہیں ہوگی۔ واللہ سبحانہ، وتعالی اعلم - تمت سورة الشعراء بعون اللہ وفضلہ لنصف الربیع الثانی 1391 ھ یوم الخمیس ویتلوھا انشاء اللہ تعالیٰ سورة النمل

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ۝ ٢٢٤ۭ- شعر ( شاعر)- الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر،- وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . - ( ش ع ر )- الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی .- وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال :- وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى- [ طه 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر :- ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما - «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم :- غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ- [هود 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر 39] .- ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شعراء کی دو اقسام - قول باری ہے : (والشعرآء یتبعھم الغادون۔ رہے شعرآء ، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلتے ہیں) سفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کی ہے، انہوں نے مجاہد سے کہ آیت میں نافرمان قسم کے جن مراد ہیں۔ خصیف نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ جب دو شاعر ایک دوسرے کی ہجو کرتے ہیں تو سرکش اور بہکے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ ایک کا ساتھ دیتا ہے اور دوسرا گروہ دوسرے کا۔ “ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان شعراء کا ذکر کیا جن کی نشانیاں یہ ہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو خود کرتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی جو منہ اٹھائے ہر اس وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے جو اسے نظر آجاتی ہے وہ یہ رویہ خواہشات کے غلبے کے تحت اختیار کرتا ہے اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے آیا وہ غلط ہے یا صحیح یا اس کا نجام کیا ہوگا۔- حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ نے (فی کل واد یھیمون) وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں کہ تفسیر میں کہا ہے۔ ” وہ ہر لغو اور بےہودہ بات بات میں گھس پڑتے ہیں۔ کسی کی تعریف کرتے ہیں اور کسی کی مذمت۔ دونوں صورتوں میں ان کے پیش نظر جھوٹ اور خلاف واقعہ باتیں ہوتی ہیں۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے : (لان یمتلی جوف احدکم قیحا حتی یریہ خیر لہ من ان یمتلی شعرا۔ ) اگر تم میں سے کسی کا خول پیپ سے بھر جائے یہاں تک کہ وہ اس کے پھیپھڑے کو زخمی کردے یہ بات اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ اس کا خول شعروں سے پر ہوجائے۔ اس ارشاد میں قابل مذمت اشعار مراد ہیں جن کے قائلین کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مذمت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان شعرآء کو ان سے مستثنیٰ کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے : (الاالذین امنوا وعملوا الصالحات وذکروا اللہ کثیرا وانتصروا من بعد ما ظلموا) بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا تھا : (اھجھم ومعک روح القدس۔ ان کی خبر لو، تمہارے ساتھ روح القدس ہے۔ ) یہ بات قول باری (اوانتصروا من بعد ماظلموا) کے مطابق ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ولمن انتصر بعد ظلمہ فالئک ما علیھم من سبیل۔ ) جن لوگوں پر ظلم ہوا ہے وہ اگر صرف بدلہ لے لیں تو ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔- نیز ارشاد ہے : (لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم۔ اللہ یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کوئی آدمی بدگوئی پر زبان کھولے الا یہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو۔ ) حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان من الشعر لحکمۃ بعض اشعار حکمت کی باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢٤) اور شاعروں کی راہ تو گمراہ لوگ چلا کرتے ہیں جو فضول شعر کہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٤ (وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ ) ” - مشرکین مکہّ میں سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاعری سیکھ لی ہے اور یہ کہ قرآن دراصل ان کا شاعرانہ کلام ہے۔ اس حوالے سے یہاں دراصل یہ بتانا مقصود ہے کہ شاعروں کے کردار کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ تم خود سوچو کہ ایسے کردار کو ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کردار سے کیا نسبت ؟ - اس آیت میں شعراء کے پیروکاروں کے بارے میں جو بنیادی اصول بتایا گیا ہے اس میں مجھے کوئی استثناء ( ) نظر نہیں آتا۔ اگرچہ علامہ اقبال کا معاملہ بہت سے اعتبارات سے مختلف ہے مگر ان کے پیروکاروں پر بھی قرآن کا یہ قانون سو فیصد منطبق ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو اس پہلو سے دیکھنا چاہیے کہ علامہ اقبالؔ کے حاشیہ نشینوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا سامنے نہیں آسکا جس نے ان کے نظریات کی روشنی سے اپنی عملی زندگی کا کوئی گوشہ روشن کیا ہو اور اپنی شخصیت میں بندۂ مؤمن کے اس کردار کی کوئی رمق پیدا کرنے کی کوشش کی ہو جس کا نقشہ علامہ اقبالؔ نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔ بلکہ علامہ اقبالؔ تو خود اپنے بارے میں بھی اعتراف کرتے ہیں کہ محض گفتار کے غازی تھے : ؂- اقبال ؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے - گفتار کا یہ غازی تو بنا ‘ کردار کا غازی بن نہ سکا - اس حوالے سے سورة یٰسین کی آیت ٦٩ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بہت واضح طور پر فرمادیا گیا ہے : (وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ط) ” ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شعر کہنا سکھایا ہی نہیں اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شایان شان ہی نہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :142 یعنی شاعروں کے ساتھ لگے رہنے والے لوگ اپنے اخلاق ، عادات و خصائل اور اُفتادِ مزاج میں ان لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمہیں نظر آتے ہیں ۔ دونوں گروہوں کا فرق ایسا کھلا ہوا فرق ہے کہ ایک نظر دیکھ کر ہی آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں اور وہ کیسے ۔ ایک طرف انتہائی سنجیدگی ، تہذیب ، شرافت ، راستبازی اور خدا ترسی ہے ۔ بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے ۔ برتاؤ میں لوگوں کے حقوق کا پاس و لحاظ ہے ۔ معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے اور زبان جب کھلتی ہے خیر ہی کے لیے کھلتی ہے ، شر کا کلمہ کبھی اس سے ادا نہیں ہوتا ۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان لوگوں کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے ، ایک بلند اور پاکیزہ نصب العین ہے جس کی دھن میں یہ رات دن لگے ہوئے ہیں اور ان کی ساری زندگی ایک مقصد عظیم کے لیے وقف ہے ۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ کہیں عشق بازی اور شراب نوشی کے مضامین بیان ہو رہے ہیں اور حاضرین اچھل اچھل کر ان پر داد دے رہے ہیں ۔ کہیں کسی زن بازاری یا کسی گھر کی بہو بیٹی کا حسن موضوع سخن ہے اور سننے والے اس پر مزے لے رہے ہیں ۔ کہیں جنسی مواصلت کی حکایت بیان ہو رہی ہے اور پورے مجمع پر شہوانیت کا بھوت مسلط ہے ۔ کہیں ہزل بکا جا رہا ہے یا مسخرہ پن کی باتیں ہو رہی ہیں اور مجمع میں ہر طرف ٹھٹھے لگ رہے ہیں ۔ کہیں کسی کی ہجو اڑائی جا رہی ہے اور لوگ اس سے لطف لے رہے ہیں ۔ کہیں کسی کی بے جا تعریف ہو رہی ہے اور اس پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں ۔ اور کہیں کسی کے خلاف نفرت ، عداوت اور انتقام کے جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں اور سننے والوں کے دلوں میں ان سے آگ سی لگی جاتی ہے ۔ ان مجلسوں میں شاعروں کے کلام سننے کے لیے جو ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگتے ہیں ، اور بڑے بڑے شاعروں کے پیچھے جو لوگ لگے پھرتے ہیں ان کو دیکھ کر کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ اخلاق کی بندشوں سے آزاد ، جذبات و خواہشات کی رو میں بہنے والے ، اور لطف و لذت کے پرستار ، نیم حیوان قسم کے لوگ ہیں جن کے ذہن کو کبھی یہ خیال چھو بھی نہیں گیا ہے کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کا کوئی بلند تر مقصد و نصب العین بھی ہو سکتا ہے ۔ ان دونوں گروہوں کا کھلا کھلا فرق و امتیاز اگر کسی کو نظر نہیں آتا تو وہ اندھا ہے ، اور اگر سب کچھ دیکھ کر بھی کوئی محض حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایمان نگل کر یہ کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے گرد جمع ہونے والے اسی قبیل کے لوگ ہیں جیسے شعراء اور ان کے پیچھے لگے رہنے والے لوگ ہوتے ہیں ، تو وہ جھوٹ بولنے میں بے حیائی کی ساری حدیں پار کر گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani