[١٣٥] ان دو آیات میں شاعروں کی دو خصلتیں بیان فرمائیں ایک یہ کہ ان کے کلام میں تخیل ہی تخیل اور غلو کی حد تک پہنچائیں مبالغہ ہوتا ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی کی تعریف کرنے بیٹھے تو اسے آسمان پر چرھا دیا کسی کی ہجو پر آئے تو اسے دنیا کی بدترین مخلوق بنا کر پیش کردیا۔ پھر اگر کسی سے کچھ انعام و اکرام مل گیا تو اس کی مدح سرائی شروع کردی۔ کسی کی پگڑی اچھالی۔ کہیں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائی اور عشق لگائے بغیر تو کسی شاعر کی شاعری مکمل ہی نہیں ہوتی۔ کہیں محبوبہ سے شکایتیں ہیں، تو کہیں رقبیوں پر برس رہے ہیں، دور اذکار استعاروں اور تشبیہات کا استعمال اور اپنی ثناخوانیاں جن میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی میدان ایسا نہیں جن میں یہ اپنے تخیل کے گھوڑے نہ دوڑاتے ہوں اور سر نہ پھٹکتے پھرتے ہوں۔ ان کی زندگی کا نہ کوئی متعین مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی اصول کے پابند ہوتے ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ : یہ شاعروں کی دوسری خصوصیت ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انھیں کوئی خیال آتا ہے اسے اچھوتے انداز میں شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی، روحانی ہے یا نفسانی، اس سے خیر کے جذبات پیدا ہوں گے یا شر کے۔ کبھی کسی کی تعریف کرکے اسے آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور کبھی کسی کی ہجو اور مذمت کرکے اسے آسمان سے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ ایک شعر سے معلوم ہوگا کہ شاعر ولی ہے جب کہ دوسرے شعر سے پتا چلے گا کہ وہ شیطان ہے۔ ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی دونوں کی باتیں بےتکلف کہہ دے گا، لیکن کہے گا ایسے مؤثر اور دلکش انداز میں کہ سننے والے ان دونوں سے متاثر ہوجائیں گے، لیکن نفس انسانی کو چونکہ نیکی کے بجائے بدی کی باتیں ہی عموماً مرغوب ہوتی ہیں، اس لیے شاعر کے چھوڑے ہوئے بدی والے اثرات و نقوش تو قائم رہتے ہیں، مگر نیکی کے اثرات غائب ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان کا کلام ” وَاِثْمُھَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا “ کا مصداق بن جاتا ہے۔ (تفسیر مدنی)
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ ٢٢٥ۙ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - وادي - قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی:- أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460-- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً- «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] أي : بقَدْرِ مياهها . - ( و د ی ) الوادی - ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ - هيم - يقال : رجل هَيْمَانُ ، وهَائِمٌ: شدید العطش، وهَامَ علی وجهه : ذهب، وجمعه : هِيمٌ ، قال تعالی: فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] والْهُيَامُ : داء يأخذ الإبل من العطش، ويضرب به المثل فيمن اشتدّ به العشق، قال : أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] أي : في كلّ نوع من الکلام يغلون في المدح والذّمّ ، وسائر الأنواع المختلفات، ومنه : الْهَائِمُ علی وجهه المخالف للقصد الذاهب علی وجهه، وهَامَ : ذهب في الأرض، واشتدّ عشقه، وعطش، والْهِيمُ : الإبل العطاش، وکذلک الرّمال تبتلع الماء، والْهِيَامُ من الرمل : الیابس، كأنّ به عطشا .- ( ھ ی م ) رجل ھیمان وھائم سخت پیاسا آدمی ھائم کی جمع ھیم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] اور پیوگے بھی تو اس طرح جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الھیام اونٹ کی ازیک بیماری ہے جس کی وجہ سے اسے پیاس اتنی پیاس لگتی ہے کہ سیر نہیں ہوتا ۔ اور شوریدگیعشق کے لئے یہ کلمہ ضرب المثل ہے ۔ ھام علیٰ وجھتہ سر گردان پھرنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سرمارتے پھرتے ہیں ۔ یعنی مدح مذم وغیرہ ہر قسم کے موضوع سخن میں وہ مبالغہ آمیز ی سے کام لیتے ہیں اور اسی سے الھائم علٰی وجھہ ہے جس کے معنی سر گردان پھرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شوریدہ عشق اور پیاسا ہونے کے بھی اور ھیم کے معنی پیاسا اونٹوں کے ہیں اور خشک ریت بھی چونکہ پیاسے اونٹوں کی طرح پانی نگل لیتی ہے اسلئے خشک ریت کو الھیام کہا جاتا ہے ۔
(٢٢٥۔ ٢٢٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ شاعر لوگ خیالی مضامین کے ہر میدان میں حیران ٹکریں مارتے ہوئے مضامین کی تلاش میں پھرا کرتے ہیں کہ کسی کی تعریف کردی تو کسی کی برائی کردی اور وہ زبان سے ایسی باتیں کرتے اور آسمان کے قلابے ملاتے اور شیخیاں بگھارتے ہیں کہ جن کو وہ کر بھی نہیں سکتے اور ایسا شاعر اور اس کی راہ پر چلنے والا دونوں گمراہ ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ والشعرآء یتبعھم الغاون “۔ (الخ)- نیز ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں دو شخصوں نے ایک دوسرے کی برائی کی ایک تو ان میں سے انصاری تھا اور دوسرا دوسری قوم کا تھا اور ہر ایک کے ساتھ اس کی قوم کے بیوقوفوں کی جماعت تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نیز ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے اور عروہ (رح) سے روایت کیا گیا ہے کہ جب ( آیت) ” والشعرآء “۔ مالا یفعلون “۔ تک یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز بتادی کہ میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں، اس پر ( آیت) ” الا الذین امنوا “۔ سے آخری سورت تک یہ آیات نازل ہوئیں۔- اور ابن جریر (رح) اور حاکم نے ابو حسن براد سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت ”۔ والشعرآء “۔ نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) ، حضرت کعب بن مالک (رض) اور حضرت حسان بن ثابت (رض) حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم شاعر ہیں تو ہم تو ہلاک ہوگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے ( آیت) ” الا الذین امنوا “۔ والی آیت نازل فرمائی چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر ان لوگوں کو بلا کر ان کو یہ آیت سنا دی۔
آیت ٢٢٥ (اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ ) ” - غزل کے ایک شعر میں شاعر لوگ مشرق کی بات کرتے ہیں تو دوسرے میں مغرب کی۔ ایک مصرعے میں اپنی آسمان کی سیر کا ذکر کرتے ہیں تو دوسرے میں زمین پر آکر صحرا نوردی کرتے نظر آتے ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :143 یعنی کوئی ایک متعین راہ نہیں ہے جس پر وہ سوچتے اور اپنی قوت گویائی صرف کرتے ہوں ، بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے ۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہو گیا ۔ کبھی کسی سے خوش ہوئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا ۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو ۔ اس کے برعکس کسی سے رنج پہنچ جائے تو اس کی پاک زندگی پر دھبہ لگانے اور اس کی عزت پر خاک پھینکنے میں ، بلکہ اس کے نسب پر طعن کرنے میں بھی ان کو شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ خدا پرستی اور دہریت ، مادہ پرستی اور روحانیت ، حسن اخلاق اور بد اخلاقی ، پاکیزگی اور گندگی ، سنجیدگی اور ہزل ، قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو بہ پہلو مل جائے گا ۔ شعراء کی ان معروف خصوصیات سے جو شخص واقف ہو اس کے دماغ میں آخر یہ بے تکی بات کیسے اتر سکتی ہے کہ اس قرآن کے لانے والے پر شاعری کی تہمت رکھی جائے جس کی تقریر جچی تلی ، جس کی بات دو ٹوک ، جس کی راہ بالکل واضح اور متعین ہے اور جس نے حق اور راستی اور بھلائی کی دعوت سے ہٹ کر کبھی ایک کلمہ بھی زبان سے نہیں نکالا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ آپ کے مزاج کو تو شاعری کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے : وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ، ( یٰسٓ ۔ آیت 69 ) ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ یہ اس کے کرنے کا کام ہے ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جو لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے وہ سب اسے جانتے تھے ۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ کوئی شعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا یاد نہ تھا ۔ دوران گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیر موزوں پڑھ جاتے تھے ، یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہو جاتا تھا ۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران تقریر میں آپ نے شاعر کا مصرعہ یوں نقل کیا : کفی بالا سلام و الشیب للمرء ناھیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ اصل مصرع یوں ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا ایک مرتبہ عباس بن مرداس سُلَمی سے آپ نے پوچھا ، کیا تم ہی نے یہ شعر کہا ہے : اتجعل نھبی و نھب العبید و بین الاقرع و عیینہ انہوں نے عرض کیا آخری فقرہ یوں نہیں ہے بلکہ یوں ہے بین عُیَیْنَۃَ والاقرء ۔ آپ نے فرمایا معنی میں تو دونوں یکساں ہیں ۔ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا شعر سے بڑھ کر آپ کو کسی چیز سے نفرت نہ تھی ۔ البتہ کبھی کبھار بنی قیس کے شاعر کا ایک شعر پڑھتے تھے مگر اول کو آخر اور آخر کو اول پڑھ جاتے تھے ۔ حضرت ابو بکر عرض کرتے یا رسول اللہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے ، تو آپ فرماتے کہ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے جس قسم کے مضامین سے عرب کی شاعری لبریز تھی وہ یا تو شہوانیت اور عشق بازی کے مضامین تھے ، یا شراب نوشی کے ، یا قبائلی منافرت اور جنگ و جدل کے ، یا نسلی فخر و غرور کے ۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں ان میں بہت ہی کم پائی جاتی تھیں ۔ پھر جھوٹ ، مبالغہ ، بہتان ، ہجو ، بے جا تعریف ، ڈینگیں ، طعن ، پھبتیاں ، اور مشرکانہ خرافات تو اس شاعری کی رگ رگ میں پیوست تھیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اس شاعری کے متعلق یہ تھی کہ : لان یمتلئ جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلئ شعراً ، تم میں سے کسی شخص کا خول پیپ سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے ۔ تا ہم جس شعر میں کوئی اچھی بات ہوتی تھی آپ اس کی داد بھی دیتے تھے اور آپ کا ارشاد تھا کہ : ان من الشعر لحکمۃ ۔ بعض اشعار حکیمانہ ہوتے ہیں ۔ امیہ ین ابی الصَّلْت کا کلام سن کر آپ نے فرمایا : اٰمن شعرہ و کفر قلبہ ۔ اس کا شعر مومن ہے مگر اس کا دل کافر ہے ۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سو ( 100 ) کے قریب عمدہ عمدہ اشعار آپ کو سنائے اور آپ فرماتے گئے اور سناؤ ۔
52: یہ کفار کی دوسری بات کی تردید ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذاللہ شاعر ہیں اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری تو ایک تخیلاتی چیز ہے جس کا بسا اوقات حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ وہ اپنی خیالی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں، طرح طرح کے مبالغے کرتے ہیں اور تشبیہات اور استعاروں میں حد سے گزر جاتے ہیں، اس لئے جو لوگ شاعری ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں، ان کو کوئی بھی اپنا دینی پیشوا نہیں بناتا، اور اگر کوئی ان کو اپنا مقتدا بناتا بھی ہے تو وہ جو خود گمراہ ہو، اور حقیقت کے بجائے خیالی دنیا میں رہنا چاہتا ہو۔