22 6 1شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اصول کی بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں، اسی قسم کے اشعار کے لئے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کر دے، شعر سے بھر جانے سے بہتر ہے (ترمذی و مسلم وغیرہ)
[١٣٦] شاعر حضرات کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے قول اور فعل میں نمایاں تضاد ہوتا ہے وہ کہتے کچھ اور ہوتے کچھ ہیں۔ اور یہ چیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کے عین ضد تھی۔ آپ جو تعلیم پیش کرتے تھے سب سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے تھے پھر ایمان لانے والوں کو اسی تعلیم کا نمونہ بناتے تھے۔ لہذا اے مشرکین مکہ خود ہی اندازہ کرلو کہ اس پیغمبر کے شاعر ہونے کا جو الزام تم لگا رہے ہو وہ کہاں تک درست ہے۔
وَاَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ : یہ شاعروں کی تیسری خصوصیت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کی عین ضد تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جاننے والا ہر شخص جانتا تھا کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں، دوست دشمن سب کا اتفاق تھا کہ آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں، جب کہ شاعروں کے متعلق ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے کہنے کی باتیں اور ہوتی ہیں، کرنے کی اور۔ شعر پڑھو تو معلوم ہوگا کہ شیر سے زیادہ بہادر ہیں مگر پرلے درجے کے بزدل ہوں گے، سخاوت کا مضمون ایسا باندھیں گے کہ آدمی سمجھے ان سے بڑا سخی کوئی نہیں جب کہ واقع میں سخت کنجوس ہوں گے، زہد و قناعت اور خود داری کا بلند بانگ دعویٰ کریں گے جب کہ حرص و طمع میں ذلت کی آخری حد کو پار کر رہے ہوں گے۔ مرزا غالب نے اپنا حال خود ہی بیان کردیا ہے - یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب - تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا - حالی نے مسدس میں اپنے زمانے کے شاعروں کا خوب نقشہ کھینچا ہے - برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے - تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے - گنہ گار واں چھوٹ جائیں گے سارے - عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے - مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے - جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے - ان اشعار میں حالی نے شاعروں کی مذمت کرتے ہوئے دوسرے تمام گناہ گاروں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دے دیا، یہ اس شاعری ہی کا نتیجہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَأَنْ یَّمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَیْحًا یَرِیْہِ خَیْرٌ مِّنْ أَنْ یَّمْتَلِئَ شِعْرًا ) [ مسلم، الشعر، باب في إنشاد الأشعار۔۔ : ٢٢٥٧، عن أبي ہریرہ (رض) ] ”(تم میں سے) کسی آدمی کا اندرون (سینہ، پیٹ) پیپ سے بھر جائے جو اسے گلا دے، تو وہ اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرے۔ “ اندرون (سینہ، پیٹ) شعر سے بھرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے بجائے اشعار آدمی پر غالب ہوں۔ ورنہ اچھے اشعار یاد کرنے اور سننے سنانے میں کوئی حرج نہیں۔ عمرو بن شرید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر سوار تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھَلْ مَعَکَ مِنْ شِعْرِ أُمَیَّۃَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ شَيْءٌ ؟ قُلْتُ نَعَمْ ، قَالَ ھِیْہِ فَأَنْشَدْتُّہُ بَیْتًا، فَقَالَ ھِیْہِ ثُمَّ أَنْشَدْتُّہُ بَیْتًا فَقَالَ ھِیْہِ حَتّٰی أَنْشَدْتُّہُ ماءَۃَ بَیْتٍ ) [ مسلم، الشعر، باب في إنشاد الأشعار۔۔ : ٢٢٥٥ ] ” تمہیں امیہ بن صلت کے کچھ اشعار یاد ہیں ؟ “ میں نے کہا : ” جی ہاں “ آپ نے فرمایا : ” سناؤ۔ “ میں نے ایک شعر سنایا، آپ نے فرمایا : ” اور سناؤ۔ “ میں نے ایک شعر اور سنایا، آپ نے فرمایا : ” اور سناؤ۔ “ حتیٰ کہ میں نے آپ کو سو شعر سنائے۔ “ ابن عباس (رض) سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : ( إِذَا خَفِيَ عَلَیْکُمْ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ فَابْتَغُوْہُ فِي الشِّعْرِ فَإِنَّہُ دِیْوَانُ الْعَرَبِ ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٩٩، ح : ٣٨٤٥، قال الحاکم صحیح و وافقہ الذھبي ]” جب تم سے قرآن کی کوئی چیز مخفی رہے (کسی لفظ کا مطلب سمجھ میں نہ آئے) تو اسے شعر میں تلاش کرو، کیونکہ وہ عرب کا دیوان ہے (یعنی ان کے گزشتہ علوم کا مجموعہ ہے) ۔ “ ابن حبان (٧٣٧٧) کے حاشیہ میں اس کے محقق نے یہ روایت بیہقی کی ” الاسماء والصفات “ کے حوالے سے نقل کر کے اس کی دو سندوں کو حسن کہا ہے۔ ابن عباس (رض) کا تفسیر قرآن میں اشعار عرب سے استشہاد معروف ہے۔
وَاَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ ٢٢٦ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
آیت ٢٢٦ (وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ ) ” - شعراء کے بارے میں سب سے بڑی بات یہاں یہ بتائی گئی کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے اور یہ عادت بہت گھٹیا کردار کی مظہر ہے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :144 یہ شاعروں کی ایک اور خصوصیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کی عین ضد تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کا ہر جاننے والا جانتا تھا کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہی کہتے ہیں ۔ آپ کے قول اور فعل کی مطابقت ایسی صریح حقیقت تھی جس سے آپ کے گرد و پیش کے معاشرے میں کوئی انکار نہ کر سکتا تھا ۔ اس کے برعکس شعراء کے متعلق کس کو معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں کہنے کی باتیں اور ہیں اور کرنے کی اور ۔ سخاوت کا مضمون اس زور شور سے بیان کریں گے کہ آدمی سمجھے شاید ان سے بڑھ کر دریا دل کوئی نہ ہو گا ۔ مگر عمل میں کوئی دیکھے تو معلوم ہو گا کہ سخت بخیل ہیں ۔ بہادری کی باتیں کریں گے مگر خود بزدل ہوں گے ۔ بے نیازی اور قناعت و خود داری کے مضامین باندھیں گے مگر خود حرص و طمع میں ذلت کی آخری حد کو پار کر جائیں گے ۔ دوسروں کی ادنیٰ کمزوریوں پر گرفت کریں گے مگر خود بد ترین کمزوریوں میں مبتلا ہوں گے ۔
53: یعنی اپنی شیخی بگھارتے ہوئے ایسے دعوے کرتے ہیں جن کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا