22 7 1اس سے ان شاعروں کو مستشنٰی فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایماندار، عمل صلح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط اور تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سے عاری ہوں۔ 22 7 2یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعرا کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت کافروں کی شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو فرماتے کہ ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل (علیہ السلام) بھی تمہارے ساتھ ہیں (صحیح بخاری) 22 7 3یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں ؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لئے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے تم ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا (صحیح مسلم)
[١٣٧] یعنی جن شعراء کی عام مذمت بیان کی گئی۔ ان میں سے مندرجہ ذیل چار خصائل والے شعراء مستثنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایمان لائے ہوں۔ دوسرے انہوں نے نیک اعمال کو اپنا طرز زندگی بنا لیا ہو۔ تیسرے اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہتے ہوں۔ کسی وقت بھی ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ چوتھے یہ کہ جو کچھ کہیں ظالموں کے مقابلہ میں حق کی حمایت کے شعر کہیں۔ کسی کی ہجو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت نہ کریں۔ مثلاً اشعار کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں۔ نیکی کی ترغیب دیں۔ کفر کی اور گناہوں کی مذمت بیان کریں یا اگر کافر مسلمانوں یا اسلام یا پیغمبر اسلام کی ہجو بیان کریں۔ تو ہجو کا اسی طرح جواب دے کر اس ظالم کا بدلہ لے لیں۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ قریش نے مسلمانوں کی ہجو کی تو آپ نے مسلمانوں سے کہا کہ ان کی ہجو کا جواب دو ۔ کیونکہ ہجو قریش کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ سے ہجو کرنے کو کہا۔ لیکن ان کی ہجو آپ کو پسند نہ آئی۔ پھر آپ نے کعب بن مالک سے کہا پھر حسان بن ثابت سے ہجو کرنے کا کہا اور ساتھ ہی یہ بتلا دیا کہ ذرا دھیان رکھنا میں بھی قریش ہی ہوں۔ حضرت حسان کہنے لگے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کے بھیجا۔ میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے حسان کے حق میں دعا کی یا اللہ اس کی روح القدس سے مدد کر۔ نیز فرمایا حسان جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کے طرف سے جواب دیتا رہے گا روح القدس تیری مدد کرتا رہے گا۔ نیز فرمایا : حسان نے قریش کی ہجو کرکے مومنوں کے دلوں کو تسکین دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کردیا ) مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت ( اس کے بعد حضرت حسان بن ثابت کا طویل قصیدہ مسلم شریف میں مذکور ہے۔] ١٣٨] یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور شاعر یا ساحر اور مجنون قرار دیتے تھے تاکہ دعوت دین اسلام میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے حق کو نیچا دکھلا سکیں۔
اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔ : شعراء کی مذمت کے بعد ان میں سے ایسے لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا جن میں چار اوصاف پائے جائیں، پہلا وصف یہ کہ وہ مومن ہوں۔ دوسرا یہ کہ وہ صالح اعمال کے حامل ہوں، فاسق و فاجر اور بدکار نہ ہوں۔ تیسرا یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہوں، اپنی عام زندگی میں بھی اور اپنے اشعار میں بھی۔ ایسا نہ ہو کہ زبانی تسبیح و تہلیل اور اذکار پر تو بہت زور ہو مگر اشعار میں اللہ کی یاد کے بجائے عشق و ہوس اور فضول باتوں کا تذکرہ ہو۔ چوتھا وصف یہ کہ وہ اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں اور کفار و مشرکین اسلام، مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو بد زبانی کریں ان کا دندان شکن جواب دیں۔ ایسے موقع پر وہ زبان سے وہ کام لیتے ہیں جو میدان جنگ میں مجاہد تیر و تلوار سے لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چناچہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اُھْجُوْا قُرَیْشًا فَإِنَّہُ أَشَدُّ عَلَیْھَا مِنْ رَشْقٍ بالنَّبْلِ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسان بن ثابت (رض) : ٢٤٩٠ ] ” قریش کی ہجو کرو، کیونکہ وہ ان پر تیروں کے چھیدنے سے بھی سخت ہے۔ “ اور اس حدیث کے آخر میں ہے، عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا، آپ حسان (رض) سے کہہ رہے تھے : ( إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ ) ” روح القدس تیری مدد کرتا رہتا ہے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کرتا رہے۔ “ اور فرماتی ہیں کہ میں نے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ھَجَاھُمْ حَسَّانُ فَشَفٰی وَ اشْتَفٰی ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسان بن ثابت (رض) : ٢٤٩٠ ] ” حسان نے ان کی ہجو کی اور شفا دی اور شفا پائی۔ “ کعب بن مالک (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ آپ کی شعر کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاھِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہِ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَکَأَنَّمَا تَنْضَحُوْنَھُمْ بالنَّبْلِ ) [ صحیح ابن حبان : ٤٧٠٧، قال المحقق إسنادہ علی شرط الشیخین ] ” مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے گویا تم انھیں تیروں کے ساتھ چھیدتے ہو۔ “ آیت سے ظاہر ہے کہ شعر کی دو حالتیں ہیں، ایک وہ جس کی مذمت آئی ہے، دوسری وہ جس کی اجازت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً ) [ ابن ماجہ، الأدب، باب الشعر : ٣٧٥٥، و قال الألباني صحیح ] ” بعض شعر حکمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ “ عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( الشِّعْرُ بِمَنْزِلَۃِ الْکَلَامِ حَسَنُہُ کَحَسَنِ الْکَلَامِ وَ قَبِیْحُہُ کَقَبِیْحِ الْکَلَامِ ) [ السنن الدار قطني : ٥؍٢٧٤، ح : ٤٣٠٨ ]” شعر کلام کی طرح ہے، سو اس میں سے جو اچھا ہے وہ اچھے کلام کی طرح ہے اور جو اس میں سے برا ہے وہ برے کلام کی طرح ہے۔ “ - وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا ۔۔ : ظلم کرنے والوں سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جنھوں نے ایمان قبول نہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور ضد اور ہٹ دھرمی سے اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر، کاہن اور شاعر کہہ کر جھٹلاتے رہے۔ فرمایا، یہ لوگ جلد ہی جان لیں گے کہ ان کا کیا انجام ہونے والا ہے آخرت میں اور دنیا میں بھی۔ ان الفاظ میں کفار کے لیے بہت سخت وعید ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُوْرِ کُلِّھَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَ عَذَابِ الْآخِرَۃِ ]
اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللہَ كَثِيْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ٠ ۭ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ ٢٢٧ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
(٢٢٧) سوائے ان حضرات کے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کیے اور انہوں نے اپنے اشعار میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا اور انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی اپنے اشعار میں کفار کی تردید کرکے مدد کی بعد اس کے کہ کفار نے ان کی برائی کی تھی تو انہوں نے بھی کفار کی برائی کر کے ان سے بدلہ لیا جیسا کہ حضرت حسان بن ثابت (رض) گزرے ہیں اور عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کی ہے معلوم ہوجائے گا کہ آخرت میں کیسی مصیبت کی جگہ ان کو جانا ہے یعنی اگر ایمان نہ لائے تو جہنم میں جائیں گے۔
آیت ٢٢٧ (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا) ” - یہ البتہ استثنائی حکم ہے۔ کوئی شاعر اگر حقیقی مؤمن ہو اور اعمال صالحہ پر کاربند ہونے کے ساتھ ساتھ کثرت ذکر اللہ پر بھی مداومت کرے تو وہ یقیناً مذکورہ بالا مذمت سے مستثنیٰ ہوگا اور اس کا کلام بھی خیر اور بھلائی کا باعث بنے گا۔ اس سلسلے میں حضرت حسانّ بن ثابت (رض) کی مثال دی جاسکتی ہے جو دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر تھے۔ عرب میں اس وقت شاعری کا بہت رواج تھا اور مشرکین کے شعراء ہجویہ اشعار کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ چناچہ اس میدان میں ان کے جواب کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ فریضہ حضرت حسانّ بن ثابت (رض) نے انجام دیا۔ اس لحاظ سے آپ (رض) سب سے پہلے نعت گو شاعر بھی ہیں۔ البتہ شعراء کے بارے میں قرآن کا یہ تبصرہ اس قدر جامع اور مبنی بر حقیقت ہے کہ استثنائی صورتوں میں بھی کہیں نہ کہیں ‘ کوئی نہ کوئی کسر رہ ہی جاتی ہے۔ چناچہ حضرت حسانّ بن ثابت (رض) کو اگرچہ دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور بطور صحابی بھی ان کا درجہ بہت بلند ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ (رض) مرد میدان نہیں تھے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس مکان پر بطور پہرے دارمتعین فرمایا تھا جہاں پر مسلمان خواتین کو رکھا گیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی حضرت صفیہ (رض) نے ایک یہودی کو مشکوک انداز میں اس مکان کے آس پاس پھرتے دیکھا تو انہوں نے حضرت حسان (رض) سے کہا کہ آپ جا کر اس شخص کو قتل کردیں۔ یہ سن کر حضرت حسان (رض) نے صاف معذرت کردی کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس پر حضرت صفیہ (رض) ایک لکڑی ہاتھ میں لے کر گئیں اور اس لکڑی سے یہودی کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کردیا۔ واپس آکر انہوں نے حضرت حسان (رض) ّ سے کہا کہ اب آپ جا کر اس یہودی کے ہتھیار وغیرہ اتار کرلے آئیں۔ اس پر انہوں (رض) نے جواب دیا کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ - (وَّانْتَصَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ط) ” - یہ ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ضرورت پیش آنے پر ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے اپنی زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ - جیسے حضرت حسان بن ثابت (رض) کفار کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کہے گئے ہجویہ اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مدافعت کرتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (رض) کے بارے میں فرمایا تھا کہ حسانّ کے اشعار کفار کے خلاف مسلمانوں کے تیروں سے بھی زیادہ مؤثر ہیں۔ بہر حال ہرچیز کی اپنی جگہ پر اہمیت مسلم ہے۔- (وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ) ” - ان کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں اردو میں کہا جاتا ہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یعنی ابھی ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ‘ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب قرآن کا بیان کردہ بھیانک انجام ان لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوگا۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :145 یہاں شعراء کی اس عام مذمت سے جو اوپر بیان ہوئی ، ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : اول یہ کہ وہ مومن ہوں ، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں ، بد کار اور فاسق و فاجر نہ ہوں ، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں ۔ تیسرے یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں ، اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی ، اور اپنے کلام میں بھی ۔ یہ نہ ہو کہ شخصی زندگی تو زہد و تقویٰ سے آراستہ ہے مگر کلام سراسر رندی و ہوسناکی سے لبریز ۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ شعر میں تو بڑی حکمت و معرفت کی باتیں بگھاری جا رہی ہیں مگر ذاتی زندگی کو دیکھیے تو یاد خدا کے سارے آثار سے خالی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں یکساں مذموم ہیں ۔ ایک پسندیدہ شاعر وہی ہے جس کی نجی زندگی بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور شاعرانہ قابلیتیں بھی اس راہ میں وقف رہیں جو خدا سے غافل لوگوں کی نہیں بلکہ خدا شناس ، خدا دوست اور خدا پرست لوگوں کی راہ ہے ۔ چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں ، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں ، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے ۔ ہر وقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے ۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جوب دینے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا : اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لہوا شد علیہم من النبل ، ان کی ہجو کہو ، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا اھجھم وجبریل معک ، اور قل و روح القدس معک ، ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے ۔ کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے آپ کا ارشاد تھا کہ : ان المؤمن یجاھد بسیفہ و لسانہٖ ۔ مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :146 ظلم کرنے والوں سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر ہٹ دھرمی کی راہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شاعری اور کہانت اور ساحری اور جنون کی تہمتیں لگاتے پھرتے تھے تاکہ نا واقف لوگ آپ کی دعوت سے بد گمان ہوں اور آپ کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں ۔
54: یہ استثناء ذکر فرماکر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اگر شاعری میں یہ خرابیاں نہ ہوں اور ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شاعری کرے اور اپنے شاعرانہ تخیلات کو دین ومذہب کے خلاف استعمال نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ظلم کا بدلہ لینے کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں شاعری پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی تھی، کوئی شاعر کسی کے خلاف کوئی شاندار ہجویہ قصیدہ کہہ دیتا تو وہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتا تھا، چنانچہ بعض بد نہاد کافروں نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی اس قسم کے اشعار کہہ کر مشہور کردئے تھے، بعض صحابہ مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں نعتیہ قصیدے کہے اور ان میں کفار کے اعتراضات کا جواب دیا ؛ بلکہ ان کی اپنی حقیقت واضح فرمائی، اس آیت میں ان حضرات کی شاعری کی تائید کی گئی ہے۔