چونکہ فرعون نے اپنی رعیت کو بہکا رکھا تھا اور انیں یقین دلایا تھا کہ معبود اور رب صرف میں ہی ہوں میرے سوا کوئی نہیں اس لیے ان سب کا عقیدہ یہ تھا ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں رب العالمین کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں تو اس نے کہا کہ رب العالمین ہے کیا چیز؟ مقصد یہی تھا کہ میرے سوا کوئی رب ہے ہی نہیں تو جو کہہ رہا ہے محض غلط ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ اس نے پوچھا آیت ( فمن ربکما یا موسیٰ ) موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے؟ اس کے جواب میں کلیم اللہ نے فرمایا جس نے ہر ایک کی پیدائش کی ہے اور جو سب کا ہادی ہے ۔ یہاں پر یہ یاد رہے کہ بعض منطقیوں نے یہاں ٹھوکر کھائی ہے اور کہا ہے کہ فرعون کا سوال اللہ کی ماہیت سے تھا یہ محض غلط ہے اس لئے کہ ماہیت کو تو جب پوچھتا جب کہ پہلے وجود کا قائل ہوتا ۔ وہ تو سرے سے اللہ کے وجود کا منکر تھا ۔ اپنے اسی عقیدے کو ظاہر کرتا تھا اور ہر ایک ایک کو یہ عقیدہ گھونٹ گھونٹ کر پلا رہا تھا گو اس کے خلاف دلائل وبراہین اس کے سامنے کھل گئے تھیں ۔ پس اس کے اس سوال پر کہ رب العالمین کون ہے؟ حضرت کلیم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ وہ جو سب کا خالق ہے ، سب کا مالک ہے ، سب پر قادر ہے یکتا ہے اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ عالم علوی آسمان اور اس کی مخلوق عالم سفلی زمین اور اسکی کائنات اب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ ان کے درمیان کی چیزیں ہوا پرندہ وغیرہ سب اس کے سامنے ہیں اور اس کے عبادت گزار ہیں ۔ اگر تمہارے دل یقین کی دولت سے محروم نہیں اگر تمہاری نگاہیں روشن ہیں تو رب العالمین کے یہ اوصاف اس کی ذات کے ماننے کے لئے کافی ہیں ۔ یہ سن کر فرعون سے چونکہ کوئی جواب نہ بن سکا اس لئے بات کو مذاق میں ڈالنے کے لیے لوگوں کو اپنے سکھائے بتائے ہوئے عقیدے پر جمانے کے لیے انکی طرف دیکھ کر کہنے لگا لو اور سنو یہ میرے سواکسی اور کو ہی اللہ مانتا ہے؟ تعجب کی بات ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسکی اس بے التفاتی سے گھبرائے نہیں اور وجود اللہ کے دلائل بیان کرنے شروع کردیئے کہ وہ تم سب کا اور تمہارے اگلوں کا مالک اور پروردگار ہے ۔ آج اگر تم فرعون کو اللہ مانتے ہو تو ذرا اسے تو سوچو کہ فرعون سے پہلے جہان والوں کا اللہ کون تھا ؟ اس کے وجود سے پہلے آسمان وزمین کا وجود تھا تو ان کا موجد کون تھا ؟ بس وہی میرا رب ہے وہی تمام جہانوں کا رب ہے اسی کا بھیجا ہوا ہوں میں ۔ فرعون دلائل کی تاب نہ لاسکا کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگا اسے چھوڑو یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے سواکسی اور کو رب کیوں مانتا ۔ کلیم اللہ نے پھر بھی اپنی دلیلوں کو جاری رکھا ۔ اس کے لغو کلام سے بےتعلق ہو کر فرمانے لگے کہ سنو میرا اللہ مشرق ومغرب کا مالک ہے اور وہی میرا رب ہے ۔ وہ سورج چاند ستارے مشرق سے چڑھاتا ہے ۔ مغرب کی طرف اتارتا ہے اگر فرعون اپنی الوہیت کے دعوے میں سچا ہے تو ذرا ایک دن اس کا خلاف کرکے دکھا دے یعنی انہیں مغرب سے نکالے اور مشرق کو لے جائے یہ بات خلیل علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بادشاہ سے بوقت مناظرہ کہی تھی پہلے تو اللہ کا وصف بیان کیا کہ وہ جلاتا مارتا ہے لیکن اس بےوقوف نے جب کہ اس وصف کا اللہ کیساتھ مختص ہونے سے انکار کردیا اور کہنے لگا یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں آپ نے باوجود اسی دلیل میں بہت سی گنجائش ہونے کے اس سے بھی واضح دلیل اس کے سامنے رکھی کہ اچھا میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال اب تو اسکے حواس گم ہوگئے ۔ اسی طرح حضرت موسی ٰعلیہ السلام کی زبانی تابڑ توڑ ایسی واضح اور روشن دلیلیں سن کر فرعون کے اوسان خطا ہوگئے وہ سمجھ گیا کہ اگر ایک میں نے نہ مانا تو کیا ؟ یہ واضح دلیلیں ان سب لوگوں پر اثر کرجائیں گی اس لئے اب اپنی قوت کو کام میں لانے کا ارادہ کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ڈرانے دھمکانے لگا جیسے آگے آرہاہے ۔
2 3 1یہ اس نے بطور دریافت کے نہیں، بلکہ جواب کے طور پر کہا، کیونکہ اس کا دعویٰ تو یہ تھا (مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہِ غَیْرِیْ ) (وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ۚ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَطَّلِــعُ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰي ۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ) 28 ۔ القصص :38) میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود جانتا ہی نہیں
[١٦] فرعون نے پوری مملکت کے رسائل معاش اپنے قبضہ میں کر رکھے تھے۔ اسی لحاظ سے وہ اپنے آپ کو اپنی رعیت کا پروردگار یا رب سمجھے بیٹھا تھا اور اپنے رب ہونے کا دعویٰ بھی کرتا تھا۔ اس نے ملک بھر میں اپنے مجسمے نصب کروا رکھے تھے۔ جن کی پوجا کی جاتی تھی اس نے اپنی رعیت کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی تھی کہ ان کا پرورش کنندہ میں ہی ہوں۔ لہذا موسیٰ (علیہ السلام) نے یوں فرمایا کہ ہم رب العالمین کے رسول ہیں تو وہ فوراً چونک اٹھا اور ازراہ حقارت کہنے لگا کہ یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے۔ اپنی رعیت کا رب تو میں خود ہوں۔ یہ کون سے رب العالمین کی بات کرتے ہو ؟
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ : فرعون نے جب دیکھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خوف زدہ نہیں کرسکا اور وہ کسی صورت توحید کی دعوت سے اور بنی اسرائیل کی آزادی کے مطالبے سے باز آنے والے نہیں تو وہ مجادلے پر اتر آیا۔ عموماً مناظرے کا کامیاب اسلوب یہ سمجھا جاتا ہے کہ مدّ مقابل کو سوالات میں الجھا دیا جائے۔ تو اس کے مطابق اس نے کہا : (وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ) ” اور رب العالمین کیا ہے ؟ “ واؤ عطف اس لیے ہے کہ اس سے پہلے وہ ایک سوال کرچکا تھا : (اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا) یہ اس پر عطف ہے۔ یہاں مفسرین عام طور پر لکھتے ہیں کہ ” مَا “ کے ساتھ کسی چیز کی حقیقت کے متعلق سوال ہوتا ہے، چونکہ مخلوق خالق کی حقیقت کا ادراک کر ہی نہیں سکتی، اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے آثار کو اس کے تعارف کے لیے پیش فرمایا۔ ابن عاشور نے فرمایا، لفظ ” مَا “ کے ساتھ سوال ہو تو ” مَا “ کے بعد والی چیز کی وہ حقیقت معلوم کرنا مقصود ہوتی ہے جس سے وہ دوسری چیزوں سے الگ ہوجائے۔ اس لیے کسی کی قوم یا قبیلہ معلوم کرنا ہو تو ” مَا “ کے ساتھ سوال ہوتا ہے، جیسا کہ فارس کے ساتھ ایک جنگ میں کسریٰ کے جرنیل کی مغیرہ بن شعبہ (رض) سے گفتگو ہوئی تو اس نے پوچھا : ( مَا أَنْتُمْ ؟ ) ” تم کیا ہو ؟ “ تو انھوں نے فرمایا : ( نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ ) [ بخاري، الجزیۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ ۔۔ : ٣١٥٩ ] ” ہم عرب کے کچھ لوگ ہیں۔ “ - 3 قبطیوں کے ہاں کئی معبودوں کی پرستش ہوتی تھی، مشرکین کا علم الاصنام سراسر باطل ہونے کی وجہ سے نہایت پُر پیچ اور ناقابل فہم ہوتا ہے۔ فرعون کی سلطنت میں کئی معبودوں کی پرستش ہوتی تھی، فرعون بھی ان کی خدائی کو مانتا تھا۔ (دیکھیے اعراف : ١٢٧) اس کے باوجود وہ ان تمام معبودوں کا نمائندہ بن کر اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہتا اور کہلواتا تھا، جیسا کہ فرمایا : ( فَحَشَرَ فَنَادٰى فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى) [ النازعات : ٢٣، ٢٤ ] ” پھر اس نے اکٹھا کیا، پس پکارا۔ پس اس نے کہا میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ “ کبھی یہ کہتا : (يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ) [ القصص : ٣٨ ] ” اے سردارو میں نے اپنے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔ “ بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ” رب العالمین “ کو نہیں جانتا تھا، اس لیے اس نے پوچھا : (وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ) مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ” رب العالمین “ کو اچھی طرح جانتا تھا، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے فرمایا تھا : ( لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ ) [ بني إسرائیل : ١٠٢ ] ” بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اور اس کی قوم کے متعلق شہادت دی ہے، فرمایا : (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا) [ النمل : ١٤] ” اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کرچکے تھے۔ “ معلوم ہوا اس کا سوال ” وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ “ تجاہل عارفانہ تھا، وہ جاننے کے باوجود ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سورة طٰہٰ میں اس کا سوال یہ نقل ہوا ہے : (فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى) [ طٰہٰ : ٤٩ ] ” تو تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ ؟ “
خدائے ذوالجلال کی ذات و حقیقت کا علم انسان کے لئے ناممکن ہے :- قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ خدائے ذوالجلال کی کنہ و حقیقت کا جاننا ممکن نہیں کیونکہ فرعون کا سوال اللہ تعالیٰ کی حقیت، ماہیت کے متعلق تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بجائے ماہیت باری تعالیٰ بتلانے کے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان فرمائے جس سے اشارہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی کنہ اور حقیقت کا ادراک ناممکن ہے اور ایسا سوال ہی کرنا بیجا ہے۔ (کذا فی الروح)
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ٢ ٣ ۭ - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
(٢٣۔ ٢٤) فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ رب العالمین کی ماہیت اور اس سے تمہارا مقصود کیا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ رب العالمین آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو مخلوقات اور عجائبات ہیں ان سب کا پروردگار ہے اگر تمہیں اس بات کا یقین ہو کہ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔
آیت ٢٣ (قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ) ” - تم نے دعویٰ کیا ہے کہ تم رب العالمین کے رسول ہو اور اس کی طرف سے بھیجے گئے ہو ‘ تو یہ رب العالمین کون ہے ؟
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :19 بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنے آپ کو ربّ العالمین کے رسول کی حیثیت سے پیش کر کے فرعون کو وہ پیغام پہنچایا جس کے لیے وہ بھیجے گئے تھے ۔ یہ بات آپ سے آپ ظاہر ہے کہ نبی نے ضرور وہ پیغام پہنچا دیا ہو گا جس پر وہ مامور کیے گئے تھے ، اس لیے اس کا ذکر کرنے کی حاجت نہ تھی ۔ اسے چھوڑ کر اب وہ گفتگو نقل کی جاتی ہے جو اس پیغام کی تبلیغ کے بعد فرعون اور موسیٰ کے درمیان ہوئی ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :20 یہ اس کا سوال حضرت موسیٰ کے اس قول پر تھا کہ میں رب العالمین ( تمام جہان والوں کے مالک و آقا اور فرماں روا ) کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے ۔ اس پیغام کی نوعیت صریح طور پر سیاسی تھی ۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ حضرت موسیٰ جس کی نمائندگی کے مدعی ہیں وہ سارے جہاں والوں پر حاکمیت و اقتدار اعلیٰ رکھتا ہے اور فرعون کو اپنا تابع قرار دے کر اس کے دائرہ حکومت و اقتدار میں ایک بالا تر فرمانروا کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ مداخلت کر رہا ہے بلکہ اس کے نام یہ فرمان بھیج رہا ہے کہ تو اپنی رعایا کے ایک حصے کو میرے نامزد کردہ نمائندے کے حوالے کر دے تاکہ وہ اسے تیری سلطنت سے نکال کر لے جائے ۔ اس پر فرعون پوچھتا ہے کہ یہ سارے جہاں والوں کا مالک و فرمانروا ہے کون جو مصر کے بادشاہ کو اس کی رعایا کے ایک ادنی فرد کے ہاتھوں یہ حکم بھیج رہا ہے ۔