Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] فرعون پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے بجائے درباریوں کی طرف ہی متوجہ ہو کر کہنے لگا۔ اس شخص کی حقیقت دیکھو اور اس کا مطالبہ دیکھو۔ اگر یہ رسول ہے بھی تب بھی اس کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ وہ کس ہستی سے مخاطب ہے اور کیا مطالبہ کر رہا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ : موسیٰ (علیہ السلام) کی دلیل اتنی واضح اور زبردست تھی کہ فرعون اس کا جواب دینا چھوڑ کر موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات پر حملہ آور ہوگیا اور کہنے لگا، یقیناً تمہارا یہ رسول، جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، ضرور پاگل ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے چہرے پر حکمت و دانائی اور نور فراست کے آثار ان کے دیوانہ یا پاگل ہونے کی نفی کر رہے تھے، اس لیے فرعون نے ” لَمَجْنُوْن “ اور ” لام تاکید “ کے ساتھ انھیں مجنون قرار دیا کہ یقیناً یہ ضرور پاگل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ۝ ٢٧- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - جُنون - : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36]- جنون - ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] کہ ان کے - رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ - مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧) فرعون نہ سمجھا اس نے اپنے ہم نشینوں سے کہا کہ یہ تمہارا رسول مجنون معلوم ہوتا ہے ان حواریوں نے کہا کہ موسیٰ کس پروردگار کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اور کون ہمارا پروردگار ہے اور ہمارے آباؤ اجداد کا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (قَالَ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ ) ” - گویافرعون مسلسل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے آنکھیں چرا رہا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے کے بجائے وہ پھر اپنے درباریوں سے ہی مخاطب ہوا ہے۔ اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے اب اس نے طنزیہ انداز اختیار کیا ہے کہ مجھے تو یہ صاحب جو تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں مجنون لگتے ہیں ‘ ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں لگتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کی اس بات کو بھی نظر انداز کر کے اپنی گفتگو اسی جوش اور بےباکی کے ساتھ جاری رکھتے ہیں :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: فرعون نے جو سوال کیا تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ رب العالمین کی حقیقت و ماہیت بتاؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت و ماہیت کوئی نہیں جان سکتا، البتہ اس کو اس کی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں باری تعالیٰ کی صفات ہی بیان فرمائیں۔ اس پر فرعون نے کہا کہ ’’ یہ بالکل دیوانہ ہے‘‘ کیونکہ سوال حقیقت کا کیا گیا تھا، اور جواب صفات سے دے رہے ہیں۔