3 2 1بعض جگہ ثعبان کو حیۃ اور بعض جگہ جان کہا گیا ہے ثعبان وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں او حیۃ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ واللہ اعلم
[٢٥] فرعون نے جب موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی رسالت کے ثبوت میں نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے دربار میں ہی اپنا عصا زمین پر پھینک دیا وہ دیکھتے دیکھتے بہت بڑا سانپ یا اژدہا بن کر فرعون کی طرف بڑھا۔ جس سے فرعون سخت دہشت زدہ ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ اسے سنبھالو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اسے ہاتھ میں لینا ہی تھا کہ وہ پھر سے عطا بن گیا۔- عصا سے بننے والے سانپ کے لئے قرآ کریم میں تین لغت استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مقام پر اسے حیہ فرمایا اور حیہ کا لفظ سائب کے لئے رسم جنس ہے جو ہر قسم کے سانپ کے لئے نیز نر و مادہ کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے مقام پر جان کا لفظ آیا ہے جس کا معنی پتلا، سبک رفتار اور پھرتیلا سانپ ہے اور یہاں ثعبان کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ بڑے سانپ یا اژدہا کے لئے آتا ہے۔ اب ان کی تطبیق یا تو اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا پھینکا تو وہ پہلے پتلا اور پھرتیلا سا سانپ بنا ہو۔ بعد میں دیکھتے ہی دیکھتے اژدہا بن گیا ہو اور یا اس طرح کہ عصا نے شکل تو اژدہا کی اختیار کرلی ہو مگر اس میں پھرتی پتلے سانپ جیسی ہو۔
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٠٧، ١٠٨) ۔
فَاَلْقٰى عَصَاہُ فَاِذَا ہِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ ٣ ٢ۚۖ- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - ثعب - قال عزّ وجل : فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف 107] ، يجوز أن يكون سمّي بذلک من قوله : ثَعَبْتُ الماء فَانْثَعَبَ ، أي : فجّرته وأسلته فسال، ومنه : ثَعَبَ المطر، والثُّعْبَة :- ضرب من الوزغ وجمعها : ثُعَبٌ ، كأنّه شبّه بالثعبان في هيئته، فاختصر لفظه من لفظه لکونه مختصرا منه في الهيئة .- ث ع ب ) ثعب ( ف) ثعبا ۔ الماء کے معنی ہیں اس نے پانی پہا یا فانثعب اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہیں چناچہ وہ بہ نکلا۔ اسی سے ثعب المطر ہے ( جس کے معنی بارش کا بہتا ہوا پانی یا برساتی نالہ کے ہیں ) اور ہوسکتا ہے کہ آیت کریمہ :۔ فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف 107] تو وہ امی وقت صریح اژدہا بن گئی ۔ میں ثعبان ( اژدھا ) بھی ثعبت الماء کے محاورہ سے ماخوذ ہو سانپ بھی چونکہ زمین پر اس طرح چلتا ہے ۔ جیسے پانی بہ رہا ہے ہوتا ہے اسلئے اسے ثعبان کہا گیا ہو ۔ نعبۃ خبیث قسم کا گرکٹ ج ثعب یہ بھی چونکہ شکل و صورت میں سانپ کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے اسے ثعبۃ کہا جاتا ہے اور جسم میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لفظ میں اختصار کرلیا گیا ۔
آیت ٣٢ (فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ ) ” - واضح رہے کہ سورة طٰہٰ کی آیت ٢٠ میں عصا کی تبدیلۂ یئت کے لیے ” حَیَّۃٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس کے معنی عام سانپ کے ہیں اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وادئ طویٰ میں پہلی بار اس کا تجربہ کرایا گیا تھا۔ جبکہ فرعون کے دربار میں وہ ” ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ“ یعنی واضح طور پر ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا تھا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :27 قرآن مجید میں کسی جگہ اس کے لیے حَیَّۃٌ ( سانپ ) اور کسی جگہ جَآن ( جو بالعموم چھوٹے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور یہاں اسے ثُعْبَانٌ ( اژدہا ) کہا جا رہا ہے ۔ اس کی توجیہ امام رازی اس طرح کرتے ہیں کہ : حَیَّۃٌ عربی زبان میں سانپ کی جنس کے لیے مشترک نام ہے ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔ اور ثُعْبَانٌ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ جسامت کے اعتبار سے وہ اژدھے کی طرح تھا ۔ اور جَانّ کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا کہ اس کی پھرتی اور تیزی چھوٹے سانپ جیسی تھی ۔