[٢٤] فرعون کی پہلی بحث تو اس امر میں تھی کہ رب تو میں خود ہوں یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے بار بار کے تکرار سے اسے یہ بات ذہین نشین کرا دی کہ رب العالمین ہی وہ بالاتر ہستی ہے جو پوری کائنات کی خالق، مالک اور پرورش کنندہ ہے۔ حتیٰ کہ خود تمہارا بھی وہی پروردگار ہے۔ لہذا اسے ہی یہ حق سزاوار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ہر حکم کو بجا لایا جائے۔ اب بحث اس بات میں رہ گئی تھی کہ آیا موسیٰ (علیہ السلام) اس بالاتر ہستی کے رسول ہیں بھی یا نہیں ؟ اس بحث کا آغاز بھی خود موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اور کہا کہ اس ہستی نے مجھے اپنے دعویٰ رسالت کی تائید میں کچھ نشانیاں بھی دی ہیں اور میں وہ نشانیاں پیش کرسکتا ہوں۔ جس کے جواب میں فرعون نے کہا ہاں اگر تم اپنے دعویٰ کی صداقت میں کوئی نشانی پیش کرسکتے ہو تو کرو۔
قَالَ فَاْتِ بِهٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ : فرعون کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس نے کہا، اگر سچے ہو تو پیش کرو۔
قَالَ فَاْتِ بِہٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ٣١- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٣١۔ ٣٢) فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اچھا تو دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوائے رسالت میں سچے ہو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈال دی تو وہ اچانک ایک پیلے رنگ کا نمایاں اژدہا بن گیا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :26 حضرت موسیٰ کے سوال پر فرعون کا یہ جواب خود ظاہر کرتا ہے کہ اس کا حال قدیم و جدید زمانے کے عام مشرکین سے مختلف نہ تھا ۔ وہ دوسرے تمام مشرکین کی طرح فوق الفطری معنوں میں اللہ کے الٰہٰ الالٰہہ ہونے کو مانتا تھا اور ان ہی کی طرح یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ کائنات میں اس کی قدرت سب دیوتاؤں سے برتر ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ اگر تجھے میرے مامور من اللہ ہونے کا یقین نہیں ہے تو میں ایسی صریح نشانیاں پیش کروں جن سے ثابت ہو جائے کہ میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں ۔ اور اسی وجہ سے اس نے بھی جواب دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی یا اس کے مالک کائنات ہونے ہی میں اسے کلام ہوتا تو نشانی کا سوال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا ۔ نشانی کی بات تو اسی صورت میں درمیان آسکتی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا وجود اور اس کا قادر مطلق ہونا تو مسلم ہو ، اور بحث اس امر میں ہو کہ حضرت موسیٰ اس کے بھیجے ہوئے ہیں یا نہیں ۔