رَبِّ مُوْسٰي وَہٰرُوْنَ ٤٨- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :37 یہ حضرت موسیٰ کے مقابلے میں ایک طرف سے محض شکست کا اعتراف نہیں تھا کہ کوئی شخص یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیتا کہ ایک بڑے جادوگر نے چھوٹے جادوگروں کو نیچا دکھا دیا ، بلکہ ان کا سجدے میں گر کر اللہ رب العالمین پر ایمان لے آنا گویا برسر عام ہزارہا باشندگان مصر کے سامنے اس بات کا اور اعلان تھا کہ موسیٰ جو کچھ لائے ہیں یہ ہمارے فن کی چیز ہی نہیں ہے ، یہ کام تو صرف اللہ رب العالمین ہی کی قدرت سے ہو سکتا ہے ۔