5 9 1یعنی جو اقتدار اور بادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیاوی جاہ جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیونکہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورة دخان میں فرمایا کہ ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا (أیسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورة شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آگئی ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ مؤخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں واللہ اعلم۔
[٤١] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ مصر میں بھی رہ گئے تھے سارے کے سارے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ روانہ نہیں ہوئے تھے۔ جب فرعون اور اس کے جملہ اعیان سلطنت غرق ہو کر ہلاک ہوگئے تھے۔ تو ساتھ ہی آل فرعون کا اقتدار بھی ختم ہوگیا تھا اور یہی پیچھے رہنے والے بنی اسرائیل ان کے محلوں اور باغات پر قابض ہوگئے تھے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل مصر کے کچھ حصہ پر قابض ہوئے ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں اس عہد کی طرف اشارہ ہو۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت مصر تک پھیل گئی اور بنی اسرائیل ہی فرعونیوں کے محلات اور باغات پر قابض ہوگئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب
كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ” كَذٰلِكَ “ کو مبتدا محذوف کی خبر بنالیں ” أَيْ اَلْأَمْرُ کَذٰلِکَ “ یا فعل محذوف کا فاعل ” أَيْ وَقَعَ کَذٰلِکَ “ یعنی اگرچہ یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے، مگر ایسے ہی ہوا اور ہم نے ان باغوں، چشموں، خزانوں اور عالی شان جگہوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل مصر کی سر زمین کے مالک بن گئے، جب کہ بنی اسرائیل جہاد سے انکار کی پاداش میں چالیس برس تو صحرا ہی میں دھکے کھاتے رہے، اس کے بعد بھی معروف یہی ہے کہ ان کی پیش قدمی شام کی طرف ہوئی اور شام ہی یوشع بن نون اور بعد میں داؤد اور سلیمان کی سلطنت کا مرکز تھا۔ تاریخ میں ان کی مصر واپسی کا کہیں ذکر نہیں۔ - اس سوال کا حل دو طرح سے ہے، ایک وہ جو بہت سے مفسرین نے اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بہت سے باغوں، چشموں، خزانوں اور عمدہ جگہوں کا وارث بنایا، مگر مصر میں نہیں بلکہ شام میں۔ مصر کے باغوں، چشموں وغیرہ کی وارث اور قومیں بنیں۔ ان مفسرین کے نزدیک سورة دخان (٢٨) میں مذکور : ( كَذٰلِكَ ۣوَاَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ ) (اسی طرح ہوا اور ہم نے ان کا وارث اور لوگوں کو بنادیا) کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سر زمین مصر کا وارث بنی اسرائیل کے سوا اور لوگوں کو بنادیا۔ ابن عاشور، بقاعی اور بہت سے مفسرین کی یہی رائے ہے۔ - دوسرا حل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مصر کے باغوں، چشموں اور خزانوں وغیرہ کا مالک بالآخر بنی اسرائیل کو بنادیا، مگر ان کو نہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ ہجرت کرکے وہاں سے نکلے تھے، بلکہ بنی اسرائیل ہی کی ایک اور نسل کو یہ نعمت عطا ہوئی اور یہی مطلب ہے اس آیت کا : ( كَذٰلِكَ ۣوَاَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ ) [ الدخان : ٢٨ ] مجھے اس رائے پر اطمینان ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ تاریخ میں بنی اسرائیل کے مصر واپس آنے کا ذکر نہیں تو حقیقت یہ ہے کہ قبل مسیح کی تاریخ کا پوری طرح اعتبار مشکل ہے اور اس میں کسی بات کے ذکر نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعہ ہوا ہی نہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) جنھوں نے یمن کی ملکہ کی حکومت کا علم ہونے پر اسے اپنے زیر نگیں کرنے تک دم نہیں لیا اور قرآن کے بیان کے مطابق جنھیں ایسی سلطنت ملی جو بعد میں کسی کے شایان شان ہی نہیں، ان کے لیے مصر کو اپنی قلمرو میں شامل کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ اس لیے فرعون کی قوم کو ان کے باغوں اور چشموں وغیرہ سے نکال لانے کے بعد ” اور ہم نے ان کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا “ کے الفاظ کو ان کے ظاہر پر ہی رہنے دینا چاہیے۔ ہاں، یہ درست ہے کہ وہ بنی اسرائیل اور تھے جو وارث بنے، ” تیہ “ میں چالیس سال تک سر مارتے رہنے والے بنی اسرائیل نہیں تھے۔ (واللہ اعلم) مزید دیکھیے سورة اعراف (١٣٦) ۔
معارف و مسائل - وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ، اس آیت میں بظاہر یہ تصریح ہے کہ قوم فرعون کی چھوڑی ہوئی املاک اور جائیداد، باغات و خزائن امالک غرق فرعون کے بعد بنی اسرائیل کو بنادیا گیا، لیکن اس میں ایک تاریخی اشکال یہ ہے کہ خود قرآن کی متعدد آیات اس پر شاہد ہیں کہ قوم فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف نہیں لوٹے بلکہ اپنے اصلی وطن ارض مقدس شام کی طرف روانہ ہوئی، وہیں ان کو ایک کافر قوم سے جہاد کر کے ان کے شہر کو فتح کرنے کا حکم ملا، جس کی تعمیل سے بنی اسرائیل نے انکار کردیا اس پر بطور عذاب کے اس کھلے میدان میں جس میں بنی اسرائیل موجود تھے ایک قدرتی جیل خانہ بنادیا گیا کہ وہ اس میدان سے نکل نہیں سکتے تھے اسی حالت میں چالیس سال گذرے اور اسی وادی تیہ میں ان کے دونوں پیغمبروں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی وفات ہوگئی۔ اس کے بعد بھی کتب تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی وقت بنی اسرائیل اجتماعی اور قومی صورت سے مصر میں داخل ہوئی ہوں کہ قوم فرعون کی جائیداد و خزائن پر ان کا قبضہ ہوا ہو۔ تفسیر روح المعانی میں سورة شعرآء کی اسی آیت کے تحت اس کے دو جواب ائمہ تفسیر حضرت حسن و قتادہ کے حوالہ سے نقل کئے ہیں حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ آیت مذکورہ میں بنی اسرائیل کو فرعونی متروکہ جائیداد کا وارث بنانے کا ذکر ہے مگر یہ کہیں مذکور نہیں کہ یہ واقعہ ہلاک فرعون کے فوراً بعد ہوجائے گا، وادی تیہ کے واقعہ اور چالیس پچاس سال کے بعد بھی اگر وہ مصر میں داخل ہوئی ہوں تو آیت کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں آتا۔ رہا یہ امر کہ تاریخ سے ان کا اجتماعی داخلہ مصر ثابت نہیں، تو یہ اعتراض اس لئے قابل التفات نہیں ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ یہود و نصاری کی لکھی ہوئی اکاذیب سے بھرپور ہے جو کسی طرح قابل اعتماد نہیں، اس کی وجہ سے آیت قرآن میں کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے مطابق جتنی آیات قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں آئی ہیں مثلاً سورة اعراف آیت نمبر 128 و نمبر 137 اور سورة قصص آیت نمبر 5 اور سورة دخان کی آیات 25 تا 28 اور سورة شعرا کی آیت مذکورہ نمبر 59 ان سب کے ظاہر سے اگرچہ ذہن اس طرف جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو خاص انہیں باغات اور جائیدادوں کا مالک بنایا گیا تھا جو قوم فرعون نے ارض مصر میں چھوڑی تھیں جس کے لئے بنی اسرائیل کا مصر کی طرف لوٹنا ضروری ہے لیکن ان سب آیتوں کے الفاظ میں اس کی بھی واضح گنجائش موجود ہے کہ مراد ان سے یہ ہو کہ بنی اسرائیل کو اسی طرح کے خزائن اور باغات وغیرہ کا مالک بنادیا گیا جس طرح کے باغات قوم فرعون کے پاس تھے۔ جس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ارض مصر ہی میں پہنچ کر حاصل ہوں بلکہ ارض شام میں بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور سورة اعراف کی آیت میں الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا کے الفاظ سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ارض شام مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں بارکنا وغیرہ کے الفاظ اکثر ارض شام ہی کے بارے میں آئی ہیں اس لئے حضرت قتادہ کا قول یہ ہے کہ بلاضرورت آیات قرآن کو ایسے محمل پر محمول کرنا جو تاریخ عالم سے متصادم ہو درست نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر واقعات سے یہ ثابت ہوجائے کہ ہلاک فرعون کے بعد کسی وقت بھی بنی اسرئایل اجتماعی صورت سے مصر پر قابض نہیں ہوئے تو حضرت قتادہ کی تفسیر کے مطابق ان تمام آیات میں ارض شام اور اس کے باغات و خزائن کا وارث ہونا مراد لیا جاسکتا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
كَذٰلِكَ ٠ۭ وَاَوْرَثْنٰہَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ٥٩ۭ- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو
(٥٩) اور جو ہماری نافرمانی کرتا ہے ہم اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں اور فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد بنی اسرئیل کو مصر کا مالک بنا دیا۔
آیت ٥٩ (کَذٰلِکَط وَاَوْرَثْنٰہَا بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) ” - اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنی اسرائیل نے بعد میں واپس آکر ان سب چیزوں پر قبضہ کرلیا ‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ بعد میں بنی اسرائیل کو ہم نے دنیوی مال و دولت اور اقتدار سے نوازا اور ایک وقت آیا کہ یہی تمام چیزیں انہیں مل گئیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :45 بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ جن باغوں ، چشموں ، خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے یہ ظالم لوگ نکلے تھے ان ہی کا وارث اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کر دیا ۔ یہ مطلب اگر لیا جائے تو اس کے معنی لازماً یہ ہونے چاہییں کہ فرعون کے غرق ہو جانے پر بنی اسرائیل پھر مصر واپس پہنچ گئے ہوں اور آل فرعون کی دولت و حشمت ان کے قبضے میں آ گئی ہو ۔ لیکن یہ چیز تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے اور خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی اس آیت کا یہ مفہوم مطابقت نہیں رکھتا ۔ سورہ بقرہ ، سورہ مائدہ ، سورہ اعراف اور سورہ طٰہٰ میں جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف پلٹنے کے بجائے اپنی منزل مقصود ( فلسطین ) ہی کی طرف آگے روانہ ہو گئے اور پھر حضرت داؤد کے زمانے ( 1013 ، 973 ق م ) تک ان کی تاریخ میں جو واقعات بھی پیش آئے وہ سب اس علاقے میں پیش آئے جو آج جزیرہ نمائے سینا ، شمالی عرب ، شرق اُردُن اور فلسطین کے ناموں سے موسوم ہے ۔ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہی باغ اور چشمے اور خزانے اور محلات بنی اسرائیل کو بخش دیے جن سے فرعون اور اس کی قوم کے سردار اور امراء نکالے گئے تھے ، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف آل فرعون کو ان نعمتوں سے محروم کیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو یہی نعمتیں عطا فرما دیں ، یعنی وہ فلسطین کی سر زمین میں باغوں ، چشموں ، خزانوں اور عمدہ قیام گاہوں کے مالک ہوئے ۔ اسی مفہوم کی تائید سورہ اعراف کی یہ آیت کرتی ہے : فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوْا بِایٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ ہ وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا ، ( آیات 136 ۔ 137 ) ۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہو گئے تھے ۔ اور ان کے بجائے ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اس ملک کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا ۔ یہ برکتوں سے مالا مال سر زمین کا استعارہ قرآن مجید میں عموماً فلسطین ہی کے لیے استعمال ہوا ہے اور کسی علاقے کا نام لیے بغیر جب اس کی یہ صفت بیان کی جاتی ہے تو اس سے یہی علاقہ مراد ہوتا ہے ۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ ۔ اور سورہ انبیاء میں ارشاد ہوا : وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطاً اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ ہ اور وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا ۔ اسی طرح سورہ سبا میں بھی اَلْقُرَی الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا کے الفاظ سرزمین شام و فلسطین ہی کی بستیوں کے متعلق استعمال ہوئے ہیں ۔
13: اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف : 137 کا حاشیہ