Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

671یعنی اگرچہ اس واقعے میں، جو اللہ کی نصرت و معاونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] یعنی اس واقعہ میں ہر طرح کے لوگوں کے لئے نشانی ہے۔ ظالموں کے لئے یہ نشانی ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت انھیں ایسے راستوں سے مقام ہلاکت کی طرف کھینچ لاتا ہے جن کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ لہذا اے معاندین قریش تم بھی اس واقعہ سے عبرت حاصل کرو کہ کہیں تمہیں بھی ایسے انجام بد سے دوچار نہ ہونا پڑے اور اس واقعہ میں ایمان لانے والوں کے لئے بھی نشانی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو آزماتا ضرور ہے۔ انھیں تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں۔ بالاخر اللہ تعالیٰ مظلوموں کی ہی مدد کرتا ہے اور ظالموں کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً : ایک ہی پانی کے ذریعے سے کسی کو بچا لینے اور کسی کو غرق کردینے میں یقیناً بہت بڑی نشانی ہے کہ اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قوموں اور سلطنتوں میں انقلاب آتے رہتے ہیں، مگر ایسے حیرت انگیز اور عظیم الشان واقعہ کے ساتھ انقلاب ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ - وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اس جگہ ” اَكْثَرُهُمْ “ سے مراد ان لوگوں میں سے اکثر مراد نہیں جو فرعون کے ساتھ آئے تھے، کیونکہ وہ تو سب غرق ہوگئے اور غرق ہوتے وقت ایمان لائے بھی تو بےسود۔ (دیکھیے یونس : ٩٠، ٩١) مراد مصر میں فرعون سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ ہیں کہ ان کے اکثر ایمان نہیں لائے، بہت کم ایمان لائے۔ جن میں فرعون کے جادو گر، اس کی بیوی آسیہ اور اس کی قوم کے چند لڑکے شامل تھے۔ (دیکھیے یونس : ٨٣) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی بھی ہے کہ اتنے عظیم الشان معجزے دیکھ کر بھی ان کے اکثر ایمان نہیں لائے تو آپ اپنی قوم کے اکثر لوگوں کے ایمان نہ لانے پر اتنے غمگین کیوں ہیں ؟ یہاں مفسرین نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں ایک خاتون کا ذکر کیا ہے، جس کے بتانے پر بنی اسرائیل یوسف (علیہ السلام) کی میّت کو ان کی قبر سے نکال کر ساتھ لے گئے تھے اور جس نے اس شرط پر موسیٰ (علیہ السلام) کو اس قبر کی نشان دہی کی تھی کہ وہ اس بات کی ضمانت دیں کہ اسے جنت میں ان کا ساتھ ملے گا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں، میں نے مفسرین کی دیکھا دیکھی اسے نقل کردیا ہے، ورنہ اس میں نکارت ہے، یعنی یہ واقعہ صحیح نہیں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝ ٠ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٦٧- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) اور یہ جو ہم نے ان کے ساتھ معاملہ کیا اس واقعہ میں بھی بڑی عبرت ہے اور باوجود اس کے ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃًط وَمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) ” - اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر مشرکین مکہّ کو کوئی نشانی چاہیے تو وہ اس واقعہ کو دیکھ لیں۔ اور اگر انہیں اس میں کوئی نشانی نظر نہیں آتی تو پھر کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی ان کی آنکھیں نہیں کھول سکے گا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ کتنی ہی کوشش کریں ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :49 یعنی قریش کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ہٹ دھرم لوگ کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی کس طرح ایمان لانے سے انکار ہی کیے جاتے ہیں اور پھر اس ہٹ دھرمی کا انجام کیسا درد ناک ہوتا ہے ۔ فرعون اور اس کی قوم کے تمام سرداروں اور ہزارہا لشکریوں کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوئی تھی کہ سالہا سال تک جو نشانیاں ان کو دکھائی جاتی رہیں ان کو تو وہ نظر انداز کرتے ہی رہے تھے ، آخر میں عین غرق ہونے کے وقت بھی ان کو یہ نہ سوجھا کہ سمندر اس قافلے کے لیے پھٹ گیا ہے ، پانی پہاڑوں کی طرح دونوں طرف کھڑا ہے اور بیچ میں سوکھی سڑک سی بنی ہوئی ہے ۔ یہ صریح علامتیں دیکھ کر بھی ان کو عقل نہ آئی کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خدائی طاقت کام کر رہی ہے اور وہ اس طاقت سے لڑنے جا رہے ہیں ۔ ہوش ان کو آیا بھی تو اس وقت جب پانی نے دونوں طرف سے ان کو دبوچ لیا تھا اور وہ خدا کے غضب میں گھر چکے تھے ۔ اس وقت فرعون چیخ اٹھا کہ : اٰمَنْتُ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہ بَنُوْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ( یونس ۔ آیت 90 ) ۔ دوسری طرف اہل ایمان کے لیے بھی اس میں یہ نشانی ہے کہ ظلم اور اس کی طاقتیں خواہ بظاہر کیسی ہی چھائی ہوئی نظر آتی ہوں ، آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے حق کا یوں بول بالا ہوتا ہے اور باطل اس طرح سرنگوں ہو کر رہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani