Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کرسکتا ہے، تو کیا انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ 82یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] اگر کسی معجزہ کی بات ہے تو یہ کیا کم معجزہ ہے کہ ایک ہی زمین میں، ایک ہی جیسا آسمان سے پانی برستا ہے۔ ایک ہی سورج سے نباتات کی نشوونما ہوتی ہے۔ لیکن نباتات ساری ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہزارہا قسم کی نباتات ہوتی ہے۔ کہیں رنگ برنگ کے پھول کھل رہے ہیں، کہیں لہلہاتی کھیتیاں ہیں۔ ان کی خوشبوؤں سے زمین مہک اٹھتی ہے۔ پھر اس نباتات اور وہاں کے باشندوں کی ضروریات میں ایک خاص مناسبت ہے۔ نباتات کی بیشمار انواع و اقسام کے باوجود یہ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے تحت ہی اگتی، بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے اور اس میں ایک خاص نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ غرضیکہ نباتات میں غور و فکر کا اتنا وسیع میدان موجود ہے کہ یہ علم کی ایک شاخ بن چکا ہے۔ اور غور و فکر کرنے والوں کے لئے قدرت کے نئے سے نئے عجائبات پیش کرتا رہتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان عجائبات کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو اسے اللہ کی کوئی نشانی نظر بھی کیسے آسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : یعنی آسمان و زمین اور اس میں پائی جانے والی بیشمار نفیس ترین چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کی بہت بڑی نشانی ہے، مگر ان کے اکثر شروع ہی سے ایمان لانے والے نہ تھے۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٠، ٢١ ] ” اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے ؟ “ مزید دیکھیے سورة یوسف (١٠٥) ، حٰم السجدہ (٩، ١٠) اور لقمان (١٠، ١١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝ ٠ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٨- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) ان کے رنگوں کے اختلاف میں بھی ایک بڑی نشانی اور عبرت ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، بدر کے دن جتنے مارے گئے سب کے سب کافر تھے اور آپ کا رب سزا دینے میں غالب اور مومنین پر رحم کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃًط وَمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) ” - اگر یہ لوگ معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھ لیں ‘ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ پوری کائنات ہی معجزہ ہے۔ کائنات میں ہر جگہ ان کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں :- (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (البقرۃ)- ” یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں ‘ رات اور دن کے الٹ پھیر میں ‘ اور کشتیوں (جہازوں) میں جو سمندروں (یا دریاؤں) میں لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں ‘ اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے ‘ پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اور ہر قسم کے حیوانات اس کے اندر پھیلا دیے ‘ اور ہواؤں کی گردش میں ‘ اور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمانوں اور زمین کے درمیان ‘ یقیناً نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :5 یعنی جستجوئے حق کے لیے کسی کو نشانی کی ضرورت ہو تو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ، آنکھیں کھول کر ذرا اس زمین ہی کی روئیدگی کو دیکھ لے ، اسے معلوم ہو جائے گا کہ نظام کائنات کی جو حقیقت ( توحید الہٰ ) انبیاء علیہم السلام پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے ، یا وہ نظریات صحیح ہیں جو مشرکین یا منکرین خدا بیان کرتے ہیں ۔ زمین سے اگنے والی بے شمار انواع و اقسام کی چیزیں جس کثرت سے اگ رہی ہیں ، جن مادوں اور قوتوں کی بدولت اگ رہی ہیں ، جن قوانین کے تحت اگ رہی ہیں ، پھر ان کی خواص اور صفات میں اور بے شمار مخلوقات کی ان گنت ضرورتوں میں جو صریح مناسبت پائی جاتی ہے ، ان ساری چیزوں کو دیکھ کر صرف ایک احمق ہی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کی حکمت ، کسی علیم کے علم ، کسی قادر و توانا کی قدرت اور کسی خالق کے منصوبہ تخلیق کے بغیر بس یونہی آپ سے آپ ہو رہا ہے ۔ یا اس سارے منصوبے کو بنانے اور چلانے والا کوئی ایک خدا نہیں ہے بلکہ بہت سے خداؤں کی تدبیر نے زمین اور آفتاب و ماہتاب اور ہوا اور پانی کے درمیان یہ ہم آہنگی ، اور ان وسائل سے پیدا ہونے والی نباتات اور بے حد و حساب مختلف النوع جانداروں کی حاجات کے درمیان یہ منا سبت پیدا کر رکھی ہے ۔ ایک ذی عقل انسان ہو ، اگر وہ کسی ہٹ دھرمی اور پیشگی تعصب میں مبتلا نہیں ہے ، اس منظر کو دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھے گا کہ یقیناً یہ خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کھلی کھلی علامات ہیں ۔ ان نشانیوں کے ہوتے اور کس معجزے کی ضرورت ہے جسے دیکھے بغیر آدمی کو توحید کی صداقت کا یقین نہ آسکتا ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani