Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

861یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے واضح کردیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کردیا (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ) 9 ۔ التوبہ :114)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] جب باپ نے حضرت ابراہیم کو مشرک کے خلاف جہاد کی سزا کے طور پر گھر سے نکلا تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (١٩: ٤٧ ( اس کے بعد آپ نے دعائے مغفرت بھی فرمائی جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔ اور ایک دفعہ اپنے والد اور والدہ دونوں کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی تھی۔ (١٤: ٤١) پھر جب آپ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ مشرک کی کسی حال میں مغفرت نہیں ہوگی تو آپ نے ایسی دعا کرنا چھوڑ دی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ : ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت استغفار کی دعا کا وعدہ کیا تھا (مریم : ٤٧) چناچہ انھوں نے یہ دعا فرمائی۔ زندگی میں دعا کا حاصل یہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق بخش، تاکہ اس کے گناہ معاف ہوجائیں اور وفات کے بعد ہو تو اس کے شرک اور دوسرے گناہ معاف کرنے کی دعا ہے، لیکن بعد میں جب انھیں معلوم ہوا کہ ایک مشرک اور دشمن حق کے لیے دعائے مغفرت کرنا صحیح نہیں ہے تو انھوں نے اس دعا سے رجوع کرلیا، جیسا کہ سورة توبہ میں ہے : (ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ) [ التوبۃ : ١١٤ ] ” پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بیشک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےتعلق ہوگیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مشرکین کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں :- وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ، قرآن مجید کے اس فرمان کے بعد مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) اب کسی ایسے شخص کے لئے جس کا کفر پر مرنا یقینی ہو استغفار اور دعائے مغفرت طلب کرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ آیت مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے کہ کسی نبی اور ایمانداروں کے لئے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت طلب کریں خواہ وہ اس کے رشتہ دار اور قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا بالکل واضح ہوچکا ہو۔ - ایک سوال و جواب :- اب یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس نہی اور ممانعت کے بعد پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مشرک باپ کے لئے کیوں دعائے مغفرت مانگی۔ اس کا جواب خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دے دیا کہ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ (توبہ)- جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لئے ان کی زندگی میں استغفار اس نیت اور خیال سے کی تھی کہ اللہ رب العزت ان کو ایمان لانے کی توفیق دے جس کے بعد مغفرت یقینی ہے یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ خیال تھا کہ میرا باپ خفیہ طور پر ایمان لے آیا ہے اگرچہ اس کا اظہار اور اعلان نہیں کیا لیکن جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ میرا باپ تو کفر پر مرا ہے تو انہوں نے اپنی پوری بیزاری اور براة کا اظہار فرمایا۔ (فائدہ) اس بات کی تحقیق کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو باپ کا کفر اور شرک اپنے باپ کی زندگی میں معلوم ہوگیا تھا یا مرنے کے بعد یا قیامت کے روز ہوگا، اس کی پوری تفصیل سورة توبہ میں مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝ ٨٦ۙ- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :63 بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعائے مغفرت کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ مغفرت بہرحال اسلام کے ساتھ مشروط ہے اس لیے آنجناب کا اپنے والد کی مغفرت کے لیے دعا کرنا گویا اس بات کی دعا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ لیکن قرآن مجید میں اس کے متعلق مختلف مقامات پر جو تصریحات ملتی ہیں وہ اس توجیہ سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے ظلم سے تنگ آ کر جب گھر سے نکلنے لگے تو انہوں نے رخصت ہوتے وقت فرمایا : سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیٓ اِنَّہ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ( مریم ، آیت 47 ) آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا ، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے یہ دعائے مغفرت نہ صرف اپنے باپ کے لیے کی بلکہ ایک دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے لیے کی : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ ( ابرہیم ۔ آیت 41 ) ۔ لیکن بعد میں انہیں خود یہ احساس ہو گیا کہ ایک دشمن حق ، چاہے وہ ایک مومن کا باپ ہی کیوں نہ ہو ، دعائے مغفرت کا مستحق نہیں ہے ۔ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہ عَدُوٌّ لِلہِ تَبَرَّأ مِنْہُ ( التوبہ ۔ آیت 114 ) ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا ۔ مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اس سے اظہار بیزاری کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: سورۂ مریم (١٩: ٤٧) میں گزرچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں گے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت آگئی اور معلوم ہوگیا کہ وہ کبھی ایمان نہیں لائے گا تو انہوں نے بھی اس سے براءت کا اظہار فرمادیا، جیسا کہ سورۂ توبہ (٩: ١١٤) میں گزرچکا ہے۔