وَقِيْلَ لَهُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ۔۔ : ” یَنْتَصِرُوْنَکُمْ “ ” اِنْتَصَرَ یَنْتَصِرُ “ (افتعال) کا معنی اپنا بچاؤ کرنا بھی ہے اور بدلا لینا بھی، یعنی ان گمراہوں سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے، کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں، یا تمہارا بدلا لیتے ہیں، یا کم از کم اپنا بچاؤ ہی کرتے ہیں ؟
وَقِيْلَ لَہُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ٩٢ۙ- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(٩٢۔ ٩٣) اور بتوں کے پجاریوں سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم جن بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے وہ کہاں گئے کیا وہ تمہاری عذاب الہی سے حفاظت کرسکتے ہیں یا عذاب الہی سے خود کا ہی بچاؤ کرسکتے ہیں۔