قَالُوْا وَهُمْ فِيْهَا يَخْتَصِمُوْنَ ۔۔ : ” اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ “ اصل میں ”إِنَّا کُنَّا لَفِيْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ “ ہے۔ دلیل اس کی ” فِيْ “ پر آنے والا لام ہے۔ یعنی وہ جہنم میں اپنے معبودوں سے جھگڑتے ہوئے ان سے کہیں گے کہ اللہ کی قسم ہم یقیناً کھلی گمراہی میں تھے، جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے، اس کے بعض اختیارات اور صفات تمہارے لیے بھی مانتے تھے، تمہارے لیے حلال و حرام کرنے کے اختیار کا عقیدہ رکھتے تھے، تمہیں بھی عالم الغیب اور مختار کل سمجھتے تھے، تمہیں بگڑی بنانے والے، فریاد کو پہنچنے والے، اولاد عطا کرنے والے اور شفا دینے والے سمجھتے تھے۔ - 3 یاد رہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے الفاظ بولنے سے بھی منع فرمایا جن سے مخلوق کی خالق کے ساتھ کسی طرح بھی برابری ظاہر ہوتی ہو۔ حذیفہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَقُوْلُوْا مَا شَاء اللّٰہُ وَ شَاءَ فُلَانٌ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا مَا شَاء اللّٰہُ ثُمَّ شَاءَ فُلَانٌ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب لا یقال خبثت نفسي : ٤٩٨٠، قال الألباني صحیح ] ” یہ مت کہو کہ جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، بلکہ یوں کہو کہ جو اللہ نے چاہا، پھر فلاں نے چاہا۔ “ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : ( مَا شَاء اللّٰہُ وَ شِءْتَ ) ” جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( جَعَلْتَ لِلّٰہِ نِدًّا )” تم نے اللہ کا شریک بنادیا۔ “ یوں کہو : ( مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہُ )” جو اللہ اکیلا چاہے۔ “ [ الأدب - المفرد : ١؍٢٧٤، ح : ٧٨٣، وقال الألباني صحیح ]
قَالُوْا وَہُمْ فِيْہَا يَخْتَصِمُوْنَ ٩٦ۙ- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔
(٩٦۔ ٩٧) اور دوزخ میں کفار اپنے معبودوں اور رؤساء اور ابلیس کے لشکر سے کہیں گے خدا کی قسم بیشک ہم دنیا میں کھلی گمراہی میں تھے۔