9 9 1یعنی وہاں جا کر احساس ہوگا کہ ہمیں دوسرے مجرموں نے گمراہ کیا۔ دنیا میں انھیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام گمراہی ہے۔ بدعت ہے شرک ہے تو نہیں مانتے نہ غور وفکر سے کام لیتے ہیں کہ حق و باطل ان پر واضح ہو سکے۔
وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ : ان مجرموں سے مراد وہ سردار اور و ڈیرے ہیں جنھوں نے انھیں گمراہ کیا تھا۔ پیروکاروں اور معتقدوں کی طرف سے انھی لوگوں کو نشانۂ ملامت بنایا جا رہا ہوگا جنھیں وہ دنیا میں اپنا پیشوا اور بزرگ مانتے تھے، ان کے ہاتھ پاؤں چومتے تھے، ان کی نذریں نیازیں چڑھاتے تھے، قیامت کو جب حقیقت کھلے گی اور پیچھے چلنے والوں کو معلوم ہوگا کہ آگے چلنے والے ہمیں کہاں لے آئے اور خود کہاں ہیں تو یہی پیروکار انھیں مجرم ٹھہرائیں گے اور ان پر لعنت کریں گے۔ قرآن نے کئی مقامات پر یہ نقشہ کھینچا ہے، تاکہ لوگ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہ چلیں اور تقلید کے بجائے تحقیق سے کام لیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ، اعراف (٣٧، ٣٨) ، احزاب (٦٧، ٦٨) ، حٰم السجدہ (٢٩) اور سورة ص (٥٩ تا ٦١) ۔
وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ ٩٩- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :69 یہ پیروؤں اور معتقدوں کی طرف سے ان لوگوں کی تواضع ہو رہی ہو گی جنہیں یہی لوگ دنیا میں بزرگ ، پیشوا اور رہنما مانتے رہے تھے ، جن کے ہاتھ پاؤں چومے جاتے تھے ، جن کے قول و عمل کو سند مانا جاتا تھا ، جن کے حضور نذریں گزرانی جاتی تھیں ۔ آخرت میں جا کر جب حقیقت کھلے گی اور پیچھے چلنے والوں کو معلوم ہو جائے گا کہ آگے چلنے والے خود کہاں آئے ہیں اور ہمیں کہاں لے آئے ہیں تو یہی معتقدین ان کو مجرم ٹھہرائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ عالم آخرت کا یہ عبرت ناک نقشہ کھینچا گیا ہے تاکہ اندھی تقلید کرنے والے دنیا میں آنکھیں کھولیں اور کسی کے پیچھے چلنے سے پہلے دیکھ لیں کہ وہ ٹھیک بھی جا رہا ہے یا نہیں ۔ سورہ اعراف میں فرمایا : کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا ؕ حَتّیٰٓ اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعاً ۙ قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھٰٓؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّارِ ؕ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ( آیت 38 ) ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے ساتھ کے گروہ پر لعنت کرتا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے متعلق کہے گا کہ اے ہمارے رب ، یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ، اب انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ رب فرمائے گا سب ہی کے لیے دوہرا عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو ۔ سورہ حٰم السجدہ میں ارشاد ہوا ہے : وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَا اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْھُمَا تَحْتَ اَقدَامِنا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ ( آیت 29 ) ۔ اور کافر اس وقت کہیں گے کہ اے پروردگار ، ان جنوں اور انسانوں کو ہمارے سامنے لا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں اور وہ پست و ذلیل ہو کر رہیں ۔ یہی مضمون سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ہے : وَقَالُوْا رَبَّنَآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا ۵ رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْناً کَبِیْراً ( آیات 67 ۔ 68 ) اور وہ کہیں گے اے رب ، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا ۔ اے رب ، ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر ۔
20: مجرموں سے یہاں مراد وہ بڑے بڑے سردار ہیں جو کفر پر قائم رہے، اور انہیں دیکھ کر دوسروں نے بھی کفر اختیار کیے رکھا۔