7 5 1اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لئے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آجاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لئے لکھ رکھا ہے، تو پھر اسے تباہ کردیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں ؟
[٧٩] یعنی ان لوگوں کے ظاہری اعمال سے بھی اللہ واقف ہے اور باطنی خیالات سے بھی، ان کی حالیہ کرتوتوں سے بھی اور جو کچھ یہ آوندہ کے لئے سازشیں تیار کر رہے ہیں ان سب باتوں سے صرف واقف نہیں بلکہ یہ سب کچھ پہلے سے ہی اس کے ریکارڈ میں درج ہے۔ نیز یہ بھی کہ ان لوگوں کو کتنی مہلت دی جائے گی اور کب ان پر عذاب آئے گا۔ جو چیز علم الٰہی میں طے شدہ ہے وہ اپنے وقت پر آکے رہے گی۔
وَمَا مِنْ غَاۗىِٕبَةٍ فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انعام (٥٩) ” غَاۗىِٕبَةٍ “ میں تاء مبالغہ کے لیے ہے، جیسے ” کَافِیَۃٌ“ اور ” عَلاَّمَۃٌ“ میں ہے، یعنی انتہائی مخفی چیز بھی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، لہٰذا جس عذاب کی یہ جلدی مچا رہے ہیں اس کا وقت بھی اس میں لکھا ہے، وہ اپنے وقت پر آکر رہے گا۔ اس کے دیر سے آنے کا یہ مطلب لینا کہ نہیں آئے گا، سرا سر حماقت ہے۔
وَمَا مِنْ غَاۗىِٕبَۃٍ فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ٧٥- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔
(٧٥) اور یہ جو کفر وشرک قتل و غارت گری کرتے ہیں اور آسمان والوں اور زمین والوں میں ایسی کوئی پوشیدہ چیز نہیں جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی نہ ہو۔
آیت ٧٥ (وَمَا مِنْ غَآءِبَۃٍ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ) ” - گویا اللہ تعالیٰ کے علم قدیم ہی کو یہاں کتاب مبین کہا گیا ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 92 یہاں کتاب سے مراد قرآن نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کا وہ ریکارڈ ہے جس میں ذرہ ذرہ ثبت ہے ۔
34: اس سے مراد لوح محفوط ہے