حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہوچکاہے ۔ یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی ۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا ۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بددماغ انسان تھا ۔ اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جمارکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کرکے خود ان پر جبر وتعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا ۔ خصوصا بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست ونابود کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ اور دن رات یہ بےچارے بیکار میں گھیسٹے جاتے تھے ۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈانہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا ۔ تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہوجائیں اور اس لئے بھی کہ یہ ذلیل وخوار رہیں اور اس لئے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے ۔ بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے حضرت سارہ کو لونڈی بنانے کے لئے آپ سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ پردست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت حضرت ابراہیم نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہوگا ۔ چونکہ یہ روایت چلی آرہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی ، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانوں بنادیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کردئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں ۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے حضرت موسیٰ زند رہ گئے اور اللہ نے آپ کے ہاتھوں اس عاری سرکش کوذلیل وخوار کیا ، فالحمدللہ چنانچہ فرمان ہے کہ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ١٣٧ ) 7- الاعراف:137 ) آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنادیا ۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا ۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا ۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں پلوایا ، پروان چڑھایا ، اور اسی کے ہاتھوں اسکا اسکے لشکر کا اور اسکے ملک ومال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بےدست وپا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آسکتی ۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعوں جس سے خائف تھا وہ سامنے آگیا اور تباہ وبرباد ہوا ۔ فالحمد للہ
تفسیر سورة القصص - طٰسۗمّۗ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ : حروف مقطعات کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١) اور دوسری آیت - کی تفسیر سورة یوسف کی آیت (٢) میں دیکھیں۔
خلاصہ تفسیر - طسم (اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (مضامین جو آپ پر وحی کئے جاتے ہیں) کتاب واضح (یعنی قرآن) کی آیتیں ہیں (جن میں اس مقام پر) ہم آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا کچھ قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر (یعنی نازل کر کے) سناتے ہیں ان لوگوں کے (نفع کے) لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں (کیونکہ مقاصد قصص کے یعنی عبرت اور ان سے نبوت پر استدلال وغیرہ یہ مومنین ہی کے ساتھ خاص ہیں خواہ اس وقت مومن ہوں یا ایمان کا ارادہ رکھتے ہوں اور اجمال تو اس قصہ کا یہ ہے کہ) فرعون سر زمین (مصر) میں بہت چڑھ گیا تھا اور اس نے وہاں کے باشندوں کو مختلف قسمیں کر رکھا تھا (اسی طرح کہ قبطیوں یعنی مصری لوگوں کو معزز بنا رکھا تھا اور سبطیوں یعنی بنی اسرائیل کو پست اور خوار کر رکھا تھا جس کا آگے بیان ہے) کہ ان (باشندوں) میں سے ایک جماعت (یعنی بنی اسرائیل) کا زور گھٹا رکھا تھا (اس طرح سے کہ) ان کے بیٹوں کو (جو نئے پیدا ہوتے تھے جلادوں کے ہاتھوں) ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں (یعنی لڑکیوں) کو زندہ رہنے دیتا تھا (تاکہ ان سے خدمت لی جاوے و نیز ان سے اندیشہ بھی نہ تھا) واقعی وہ بڑا مفسد تھا (غرض فرعون تو اس خیال میں تھا) اور ہم کو یہ منظور تھا کہ جن لوگوں کا زمین (مصر) میں زور گھٹایا جا رہا تھا ہم ان پر (دنیوی و دینی) احسان کریں اور (وہ احسان یہ کہ) ان کو (دین میں) پیشوا بنادیں اور (دنیا میں) ان کو (اس ملک کا) مالک بنائیں اور (مالک ہونے کے ساتھ) ان کو (ملک بھی بنائیں یعنی زمین میں ان کو حکومت دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے تابعین کو ان (بنی اسرائیل) کی جانب سے وہ (ناگوار) واقعات دکھلائیں جن سے وہ بچاؤ کر رہے تھے ( مراد اس سے زوال سلطنت و ہلاکت ہے کہ اسی سے بچاؤ کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے بچوں کو ایک تعبیر خواب کی بناء پر جو فرعون نے دیکھا تھا اور نجومیوں نے تعبیر دی تھی قتل کر رہا تھا (کذا فی الدر المنثور) پس ہمارے قضاء و قدر کے سامنے ان لوگوں کی تدبیر کچھ کام نہ آئی، یہ اجمال قصہ کا ہوا) اور (تفصیل اس کی اول سے یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اسی پر آشوب زمانہ میں پیدا ہوئے تو) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو الہام کیا کہ (جب تک ان کا اخفا ممکن ہو) تم ان کو دودھ پلاؤ پھر جب تم کو ان کی نسبت (جاسوسوں کے مطلع ہونے کا) اندیشہ ہو تو (بےخوف و خطر) ان کو (صندوق میں رکھ کر) دریا (یعنی نیل) میں ڈال دینا اور نہ تو (غرق سے) اندیشہ کرنا اور نہ (مفارقت پر) غم کرنا (کیونکہ) ہم ضرور ان کو پھر تمہارے ہی پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر اپنے وقت پر) ان کو پیغمبر بنادیں گے (غرض وہ اسی طرح دودھ پلاتی رہیں۔ پھر جب افشائے راز کا خوف ہوا تو صندوق میں بند کر کے اللہ کے نام پر نیل میں چھوڑ دیا، اس کی کوئی شاخ فرعون کے محل میں جاتی تھی یا تفریحاً فرعون کے متعلقین دریا کی سیر کو نکلے تھے۔ غرض وہ صندوق کنارے پر لگا) تو فرعون کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (یعنی مع صندوق کے) اٹھا لیا تاکہ وہ ان لوگوں کے لئے دشمنی اور غم کا باعث بنیں، بلاشبہ فرعون اور ہامان اور ان کے تابعین (اس بارہ میں) بہت چوکے (اپنے دشمن کو اپنی بغل میں پالا) اور (جب وہ صندوق سے نکال کر فرعون کے سامنے لائے گئے تو) فرعون کی بی بی (حضرت آسیہ) نے (فرعون) سے کہا کہ یہ (بچہ) میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے (یعنی اس کو دیکھ کر جی خوش ہوا کرے گا تو) اس کو قتل مت کرو عجب نہیں کہ (بڑا ہو کر) ہم کو کچھ فائدہ پہنچاوے یا ہم اس کو (اپنا) بیٹا ہی بنالیں اور ان لوگوں کو (انجام کی) خبر نہ تھی (کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت غارت ہوگی) اور (ادھر یہ قصہ ہوا کہ) موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا دل (خیالات مختلفہ کے ہجوم سے) بیقرار ہوگیا (اور بیقراری بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ ایسی سخت بیقراری کہ) قریب تھا کہ (غایت بیقراری سے) وہ موسیٰ (علیہ السلام) کا حال (سب پر) ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو اس غرض سے مضبوط نہ کئے رہیں کہ یہ (ہمارے وعدہ پر) یقین کئے (بیٹھی) رہیں (غرض بمشکل انہوں نے دل کو سنبھالا اور تدبیر شروع کی وہ یہ کہ) انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن (یعنی اپنی بیٹی سے) کہا ذرا موسیٰ کا سراغ تو لگا سو (وہ چلیں اور یہ معلوم کر کے صندوق محل میں کھلا ہے محل میں پہنچیں، یا تو ان کی آمد و رفت ہوگی یا کسی حیلہ سے پہنچیں، اور) انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دور سے دیکھا اور ان لوگوں کو یہ خبر نہ تھی (کہ یہ ان کی بہن ہیں اور اس فکر میں آئی ہیں) اور ہم نے پہلے ہی سے (یعنی جب سے صندوق سے نکلے تھے) موسیٰ (علیہ السلام) پر دودھ پلائیوں کی بندش کر رکھی تھی (یعنی کسی کا دودھ نہ لیتے تھے) سو وہ (اس حال کو دیکھ کر موقع پا کر) کہنے لگیں کیا میں تم لوگوں کو کسی ایسے گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس بچہ کی پرورش کریں اور وہ (اپنی جبلت کے موافق دل سے) اس کی خیر خواہی کریں (ان لوگوں نے ایسے وقت میں کہ دودھ پلانے کی مشکل پڑ رہی تھی اس مشورہ کو غنیمت سمجھا اور ایسے گھرانے کا پتہ پوچھا انہوں نے اپنی والدہ کا پتہ بتلا دیا چناچہ وہ بلائی گئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) ان کی گود میں دیئے گئے۔ جاتے ہی دودھ پینا شروع کردیا اور ان لوگوں کی اجازت سے چین سے اپنے گھر لے آئیں اور گاہے گاہے لے جا کر ان کو دکھلا آتیں) غرض ہم نے موسیٰ (علیہ السلام کو اس طرح) ان کی والدہ کے پاس (اپنے وعدہ کے موافق) واپس پہنچا دیا تاکہ (اپنی اولاد کو دیکھ کر) ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تاکہ (فراق کے) غم میں نہ رہیں اور تاکہ (مرتبہ معائنہ میں) اس بات کو (اور زیادہ یقین کے ساتھ) جان لیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا (ہوتا) ہے لیکن (افسوس کی بات ہے کہ) اکثر لوگ (اس کا یقین نہیں رکھتے (یہ تعریض ہے کفار پر) ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ طٰسۗمّۗ ١ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ٢- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو
(١۔ ٢) طسم۔ طاء سے طول وقدرت اور سین سے خوبصورتی و بلندی میم سے بادشاہت وسلطنت مراد ہے یا یہ کہ ایک قسم ہے جو تاکید کے لیے بیان کی گئی ہے یہ سورت ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو بیان کرنے والی ہے۔
سورة القصص: نام: آیت نمبر 25 کے اس فقرے سے ماخوذ ہے وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ ، یعنی وہ سورہ جس میں القصص کا لفظ آیا ہے ۔ لظت کے اعتبار سے قصص کے معنی ترتیب وار واقعات بیان کرنے ہیں ، اس لحاظ سے یہ لفظ باعتبار معنی بھی اس سورے کا عنوان ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس میں حضرت موسی کا مفصل بیان ہوا ہے ۔ زمانہ نزول: سورہ نمل کے دیباچے میں ابن عباس اور جابر بن زید کا یہ قول ہم نقل کر چکے ہیں کہ سورہ شعراء ، سورہ نمل اور سورہ قصس یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں ، زبان ، انداز بیان اور مضامین سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں سورتوں کا زمانہ نزول قریب ایک ہی ہے ۔ اور اس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے قصے کے مختلف اجزاء جو ان میں بیان کیے گئے ہیں و باہم ملک کر ایک پورا قصہ بن جاتے ہیں ۔ سورہ شعراء میں نبوت کا منصب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے حضرت معسی عرض کرتے ہیں کہ قوم فرعون کا ایک جرم میرے ذمہ ہے جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہاں جاؤں گا تو وہ مجھے قتل کردیں گے ۔ پھر جب حضرت موسی فرعون فرعون کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کیا ہم نے اپنے ہاں تجھے بچہ سا نہیں پالا تھا ، اور تو ہمارے ہاں چند سال رہا پھر کر گیا جو کچھ کہ کر گیا ۔ ان دونوں باتوں کی کوئی تفصیل وہاں نہیں بیان کی گئی ۔ اس سورے میں اسے بتفصیل بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ نمل میں قصہ یکایک اس بات سے شروع ہوگیا ہے کہ حضرت موسی اپنے اہل و عیال کو لے کر جارہے تھے اور اچانک انہوں نے ایک آگ دیکھی ، وہاں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ یہ کیسا سفر تھا ، کہاں سے وہ آرہے تھے اور کدھر جارہے تھے ، یہ تفصیل اس سورے میں بیان ہوئی ہے ، اس طرح یہ تینوں سورتیں ملکر قصہ موسی علیہ السلام کی تکمیل کردیتی ہیں ۔ موضوع اور مباحث: اس کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر وارد کیے جارہے تھے ، اور ان عذرات کو قطع کرنا ہے جو آپ پر ایمان نہ لانے کے لیے پیش کیے جاتے تھے ۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے حضرت موسی کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو زمانہ نزول کے حالات سے ملکر خود بخود چند حقیقتیں سامع کے ذہن نشین کردیتا ہے ۔ اول یہ کہ اللہ تعالی جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ غیر محسوس طریقے سے اسباب و ذرائع فراہم کردیتا ہے ، جس بچے کے ہاتھوں آخرکار فرعون کا تختہ الٹنا تھا اسے اللہ نے خود فرعون ہی کے گھر میں اس کے اپنے ہاتھوں پرورش کرادیا اور فرعون یہ نہ جان سکا کہ وہ کسے پرورش کرہا ہے ، اس خدا کی مشیت سے کون لڑ سکتا ہے اور کس کی چالیں اس کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ نبوت کسی شخص کو کسی بڑے جشن اور زمین و آسمان سے کسی بھاری اعلان کے ساتھ نہیں دی جاتی ، تم کو حیرت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوچپکے سے یہ نبوت کہاں سے مل گئی اور بیٹھے بٹھائے یہ نبی کیسے بن گئے ۔ مگر جن موسی ( علیہ السلام ) کا تم خود حوالہ دیتے ہو کہ لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي ، ( آیت 48 ) انہیں بھی اسی طرح راہ چلتے نبوت مل گئی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی تھی کہ آج طور سینا کی سنسان وادی میں کیا واقعہ پیش آگیا ۔ موسی خود ایک لمحے پہلے تک نہ جانتے تھے کہ انہیں کیا چیز ملنے والی ہے ، آگے لینے چلے تھے اور پیمبری مل گئی ۔ تیسرے یہ کہ جس بندے سے خدا کوئی کام لینا چاہتا ہے وہ بغیر کسی لاؤ لشکر اور سرو سامان کے اٹھتا ہے ۔ کوئی اس کا مددگار نہیں ہوتا ، کوئی طاقت بظاہر اس کے پاس نہیں ہوتی ، مگر بڑے بڑے لاؤ لشکر اور سروسامان والے آخر کار اس کے مقابلے میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ جو نسبت آج تم اپنے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درمیان پار ہے ہوا اس سے بہت زیادہ فرق موسی ( علیہ السلام ) اور فرعون کی طاقت کے درمیان تھا ، مگر دیکھ لو کہ آخر کون جیتا اور کون ہارا ۔ چوتھے یہ کہ تم لوگ باربار موسی کا حوالہ دیتے ہو کہ محمد کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسی کو دیا گیا تھا ۔ یعنی عصا اور ید بیضا اور دوسرے کھلے کھلے معجزے ۔ گویا تم ایمان لانے کو تیار بیٹھے ہو ، بس انتظار ہے تو یہ کہ تمہیں وہ معجزے دکھائے جائیں جو موسی نے فرعون کو دکھائے تھے ، مگر تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ جن لوگوں کو وہ معجزے دکھائے گئے تھے انہوں نے کیا کیا تھا ؟ وہ انہیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائ ، انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ یہ جادو ہے ، کیونکہ وہ حق کے خلاف ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھے ، اسی مرض میں آج تم مبتلا ہو ، کیا تم اسی طرح کے معجزے دیکھ کر ایمان لے آؤ گے؟ پھر تمہیں کچھ یہ بھی خبر ہے کہ جن لوگوں نے وہ معجزے دیکھ کر حق کا انکار کیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ؟ آخر کار اللہ نے انہیں تباہ کرکے چھوڑا ، اب کیا تم بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ معجزہ مانگ کر اپنی شامت بلانا چاہتے ہو؟ یہ وہ باتیں ہیں جو کسی تصریح کے بغیر آپ سے آپ ہر اس شخص کے زہن میں اتر جاتی تھیں جو مکے کے کافرانہ ماحول میں اس قصے کو سنتا تھا ، کیونکہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان ویسی ہی ایک کشمکش برپا تھی جیسی اس سے پہلے فرعون اور حضرت موسی کے درمیان برپا ہوچکی تھی اور ان حالات میں یہ قصہ سنانے کے معنی یہ تھے کہ اس کا ہر ہر جز وقت کے حالات پر خودبخود چسپاں ہوتا چلا جائے ، خواہ ایک لفظ بھی ایسا نہ کہا جائے جس سے معلوم ہو کہ قصے کا کون سا جز اس وقت کے کس معاملے پر چسپاں ہورہا ہے ۔ اس کے بعد پانچویں رکوع سے اصل موضوع پر براہ راست کلام شروع ہوتا ہے ۔ پہلے اس بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ آپ امی ہونے کے باوجود دو ہزار برس پہلے گزرا ہوا ایک تاریخی واقعہ اس تفصیل کے ساتھ من وعن سنا رہے ہیں ، حالانکہ آپ کے شہر اور آپ کی برادری کے لوگ خوب جانتے تھے کہ آپ کے پاس ان معلومات کے حاصل ہونے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس کی وہ نشان دہی کرسکیں ۔ پھر آپ کے نبی بنائے جانے کو ان لوگوں کے حق میں اللہ کی ایک رحمت قرار دیا جاتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے اور اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے یہ انتظام کیا ۔ پھر ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے جو وہ باربار پیش کرتے تھے کہ یہ نبی وہ معجزے کیوں نہ لایا جو اس سے پہلے موسی لائے تھے ۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ موسی جن کے متعلق تم خود مان رہے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے معجزے لائے تھے ، انہی کو تم نے کب مانا ہے کہ اب اس نبی سے معجزے کا مطالبہ کرتے ہو؟ خواہشات نفس کی بندگی نہ کرو و حق اب بھی تمہیں نظر آسکتا ہے ، لیکن اگر اس مرض میں تم مبتلا رہو تو خواہ کوئی معجزہ آجائے تمہاری آنکھیں نہیں کھل سکتیں ۔ پھر کفار مکہ کو اس واقعہ پر عبرت اور شرم دلائی گئی ہے جو اسی زمانے میں پیش آیا تھا کہ باہر سے کچھ عیسائی مکہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سن کر ایمان لے آئے ، مگر مکہ کے لوگ اپنے گھر کی اس نعمت سے مستفید تو کیا ہوتے ، ان کے ابو جہل نے الٹی ان لوگوں کی کھلم کھلا بے عزتی کی ۔ آخر میں کفار مکہ کے اس اصل عذر کو لیا جاتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ماننے کے لیے وہ پیش کرتے تھے ، ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہم اہل عرب کے دین شرک کو چھوڑ کر اس نئے دین توحید کو قبول کرلیں تو یکایک اس ملک سے ہماری مذہبی ، سیاسی اور معاشی چودھراہٹ ختم ہوجائے گی اور ہمارا حال یہ ہوگا کہ عرب کے سبسے زیادہ بااثر قبیلے کی حیثیت کھو کر اس سرزمین میں ہمارے لیے کوئی جائے پناہ تک باقی نہ رہے گی ۔ یہ چونکہ سرداران قریش کی حق دشمنی کا اصل محرک تھا اور باقی سارے شبہات و اعتراضات محض بہانے تھے وج وہ عوام کو فریب دینے کے لیے تراشتے تھے ، اس لیے اللہ تعالی نے اس پر آخر سورہ تک مفصل کلام فرمایا ہے اور اس کے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈال کر نہایت حکیمانہ طریقے ان تمام بنیادی امراض کا مداوا کیا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ حق اور باطل کا فیصلہ دنیوی مفاد کے نقطہ نظر سے کرتے تھے ۔