دس سال حق مہر پہلے یہ بیان گزرچکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال پورے کئے تھے ۔ قرآن کے اس لفظ الاجل سے بھی اس کی طرف اشارہ ہے واللہ اعلم ۔ بلکہ حضرت مجاہد کا تو قول ہے کہ دس سال یہ اور دس سال اور بھی گزرے ۔ اس قول میں یہ صرف تنہا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خیال اور شوق پیدا ہوا کہ چپ چاپ وطن میں جاؤں اور اپنے والوں سے مل آؤں چنانچہ آپ اپنی بیوی صاحبہ کو اور اپنی بکریوں کو لے کر وہاں سے چلے رات کو بارش ہونے لگی اور سرد ہوائیں چلنے لگیں اور سخت اندھیرا ہوگیا ۔ آپ ہر چند چراغ جلاتے تھے مگر روشنی نہیں ہوتی تھی ۔ سخت متعجب اور حیران تھے اتنے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ دور آگ روشن ہے تو اپنی اہلیہ صاحبہ سے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو وہاں کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے میں وہاں جاتا ہوں اگر کوئی وہاں ہوا تو اس سے راستہ بھی دریافت کرلونگا اس لئے کہ ہم راہ بھولے ہوئے ہیں ۔ یا میں وہاں سے کچھ آگ لے آؤنگا جس سے تم تاپ لو اور جاڑے کا علاج ہوجائے ۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اس وادی کے دائیں جانب کے مغربی پہاڑ سے آواز سنائی دی ۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے ( وماکنت بجانب الغربی ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ آگ کے قصد سے قبلہ کی طرف چلے تھے اور مغربی پہاڑ آپ کے دائیں طرف تھا اور ایک سرسبز ہرے بھرے درخت میں آگ نظر آرہی تھی جو پہاڑ کے دامن میں میدان کے متصل تھی ۔ یہ وہاں جاکر اس حالت کو دیکھ کر حیران وششدہ رہ گئے کہ ہرے اور سبز درخت میں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن آگ کسی چیز میں جلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ، اسی وقت اللہ کی طرف سے آواز آئی ۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس درخت کو جس میں سے حضرت موسیٰ کو آواز آئی تھی دیکھا ہے وہ سرسبز وشاداب ہرا بھرا درخت ہے جو چمک رہاہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ علیق کا درخت تھا اور بعض کہتے ہیں یہ عوسج کا درخت تھا اور آپ کی لکڑی بھی اسی درخت کی تھی ۔ کلیم اللہ نے سنا کہ آواز آرہی ہے کہ اے موسیٰ میں ہوں رب العالمین ۔ جو اس وقت تجھ سے کلام کر رہا ہوں ۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ میرے سوا کوئی رب ہے میں اس سے پاک ہو کہ کوئی مجھ جیسا ہو مخلوق میں سے کوئی بھی میرا شریک نہیں میں یکتا اور بےمثل ہوں اور وحدہ لاشریک ہوں ۔ میری ذات ، میری صفات ، میرے افعال میرے اقوال میں میرا کوئی شریک ساجھی ساتھی نہیں ۔ میں ہر طرح پاک اور نقصان سے دور ہوں ۔ اسی ضمن میں فرمان ہوا کہ اپنی لکڑی زمین پر گرادو اور میری قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ۔ اور آیت میں ہے کہ پہلے دریافت فرمایا گیا کہ اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ میری لکڑی ہے جس سے میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے اپنی بکریوں کے لے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور دوسرے بھی میرے بہت سے کام اس سے نکلتے ہیں ۔ اب مطلع فرمایا کہ لکڑی کو احساس دلاکر پھر زمین پر انہی کے ہاتھوں پھنکوائی ۔ وہ زمین پر گرتے ہی ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا اژدہا بن کر ادھر ادھر فراٹے بھرنے لگی ۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ بولنے والا واقعی اللہ ہی ہے جوقادر مطلق ہے وہ جس چیز کو جو فرمادے ٹل نہیں سکتا ۔ سورۃ طہ کی تفسیر میں اس کا بیان بھی پورا گزرچکا ہے ۔ اس خوفناک سانپ کو جو باوجود بہت بڑا اور بہت موٹا ہونے کے تیر کی طرح ادھر ادھر جارہا تھا منہ کھولتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نگل جائے گا ۔ جہاں سے گزرتا تھا پتھر ٹوٹ جاتے تھے اسے دیکھ کر حضرت موسیٰ سہم گئے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے الٹے پیروں بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ وہیں اللہ کی طرف سے آواز آئی موسیٰ ادھر آ ڈر نہیں تو میرے امن میں ہے ۔ اب حضرت موسیٰ کا دل ٹھہر گیا ۔ اطمینان سے بےخوف ہو کر وہیں اپنی جگہ آکر باادب کھڑے ہوگئے ۔ یہ معجزہ عطافرماکر پھر دوسرا معجزہ یہ دیا کہ حضرت موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ چاند کی طرح چمکنے لگتا اور بہت بھلا معلوم ہوتا یہ نہیں کہ کوڑھ کے داغ کی طرح سفید ہوجائے ۔ یہ بھی بحکم الٰہی آپ نے وہی کیا اور اپنے ہاتھ کو مثل چاند منور دیکھ لیا ۔ پھر حکم دیا کہ تمہیں اس سانپ سے یا کسی گھبراہٹ ڈر خوف رعب سے دہشت معلوم ہو تو اپنے بازو اپنے بدن سے ملالو ڈر خوف جاتا رہے گا ۔ اور یہ بھی ہے کہ جو شخص ڈر اور دہشت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر اللہ کے اس فرمان کے ماتحت رکھ لے تو انشاء اللہ اس کا خوف ڈر جاتا رہے گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضرت موسیٰ کے دل پر فرعون کا بہت خوف تھا آپ جب اسے دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے ۔ دعا ( اللھم انی ادرابک فی نحرہ واعوذبک من شرہ ) ۔ اے اللہ میں تجھے اس کے مقابلہ میں کرتا ہوں ۔ اور اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل سے رعب وخوف ہٹالیا اور فرعون کے دل میں ڈال دیا پھر تو اسکا یہ حال ہوگیا تھا کہ حضرت موسیٰ کو دیکھتے ہی اس کا پیشاب خطا ہوجاتا تھا ۔ یہ دونوں معجزے یعنی عصائے موسیٰ اور ید بیضاء دے کر اللہ نے فرمایا کہ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے کر جاؤ اور بطور دلیل یہ معجزہ پیش کرو اور ان فاسقوں کو اللہ کی راہ دکھاؤ ۔
2 9 1حضرت ابن عباس نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا۔ 2 9 2اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جاسکتا ہے۔
[٣٩] اس معاہدہ کے بعد حضرت شعیب نے اپنی بیٹی کا حضرت موسیٰ سے نکاح کردیا۔ اور آپ وہاں متاہل زندگی گزارنے لگے۔ کہتے ہیں کہ جس لڑکی سے آپ کا نکاح ہوا اس کا نام صفورہ تھا۔ آپ نکاح کے بعد یہاں آٹھ کے بجائے دس سال ہی قیام پذیر رہے۔ پھر اپنے آبائی وطن مصر کی طرف جانے کے ارادہ سے اپنے اہل و عیال سمیت مدین سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک تو آپ کو اپنے والدین اور بہن بھائی سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ دوسرے آپ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ممکن ہے لوگ اب تک واقعہ قتل کو بھول چکے ہوں، اس لئے اپنے ہی وطن جانا مناسب سمجھا۔- راستہ میں جب آپ طور سینا کے دامن میں پہنچے تو اندھیری رات کی وجہ سے راستہ بھول گئے۔ سردی کا موسم اور شدید ٹھنڈی رات اور بال بچے ساتھ تھے۔ سخت پریشان ہوگئے۔ ایسے حال میں کوئی راہ بتلانے والا بھی نہیں مل رہا تھا۔ آخر دور سے انھیں ایک آگ نظر آئی جسے آپ نے غنیمت سمجھا اور خیال کیا کہ وہاں کوئی آگ جلانے والا تو ضرور ہوگا۔ لہذا اپنے اہل و عیال سے کہا تم یہیں ٹھہرو۔ میں اس آگ کے قریب جاتا ہوں۔ اگر کسی نے راستہ بتلا دیا تو فبھا ورنہ کچھ آگ کے انگارے ہی لے آؤں گا۔ تاکہ آپ لوگ اسے سینک سکیں۔ (یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة طٰہ میں گزر چکا ہے)
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَهْلِهٖٓ : اہل کتاب اور اکثر مسلمان مفسرین کا کہنا ہے کہ ان دس سالوں کے دوران وہ فرعون فوت ہوگیا جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کی تھی اور اب اس کی جگہ اور فرعون حکمران تھا۔ (واللہ اعلم) - موسیٰ (علیہ السلام) نے جب وہ مدت پوری کرلی تو بیوی کو لے کر اپنے وطن جانے کے ارادے سے مدین سے روانہ ہوگئے۔ اس ارادے کی دلیل یہ ہے کہ طور اس راستے پر واقع ہے جو مدین سے مصر کی طرف جاتا ہے۔ ایک تو اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے کا شوق تھا، دوسرے ہوسکتا ہے یہ خیال بھی ہو کہ لوگ اب تک اس واقعہ کو بھول چکے ہوں گے اور وہاں رہنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔- اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا ۔۔ : ” جَذْوَةٍ “ لکڑی کا ٹکڑا جس کے سرے پر آگ ہو۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة طٰہٰ اور سورة نمل میں گزر چکا ہے۔
خلاصہ تفسیر - غرض جب موسیٰ (علیہ السلام) اس مدت کو پورا کرچکے اور (باجازت شعیب (علیہ السلام) کے) اپنی بی بی کو لے کر (مصر کو یا شام کو) روانہ ہوئے تو (ایک شب میں ایسا اتفاق ہوا کہ سردی بھی تھی اور راہ بھی بھول گئے اس وقت) ان کو کوہ طور کی طرف سے ایک (روشنی بشکل) آگ دکھلائی دی، انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم (یہاں ہی) ٹھہرے رہو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے (میں وہاں جاتا ہوں) شاید میں تمہارے پاس وہاں سے (راستہ کی) کچھ خبر لاؤں یا کوئی آگ کا (دہکتا ہوا) انگارا لے آؤں تاکہ تم سینک لو، سو وہ جب اس آگ کے پاس پہنچے تو ان کو اس میدان کے داہنی جانب سے (جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی داہنی جانب تھی) اس مبارک مقام میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ اے موسیٰ میں رب العالمین ہوں اور یہ (بھی آواز آئی) کہ تم اپنا عصا ڈال دو (چنانچہ انہوں نے ڈال دیا اور وہ سانپ بن کر چلنے لگا) سو انہوں نے جب اس کو لہراتا ہوا دیکھا جیسا پتلا سانپ (تیز) ہوتا ہے تو پشت پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (حکم ہوا کہ) اے موسیٰ آگے آؤ اور ڈرو مت (ہر طرح) امن میں ہو (اور یہ کوئی ڈر کی بات نہیں بلکہ تمہارا معجزہ ہے اور دوسرا معجزہ اور عنایت ہوتا ہے کہ) تم اپنا ہاتھ گریبان کے اندر ڈالو ( اور پھر نکالو) وہ بلا کسی مرض کے نہایت روشن ہو کر نکلے گا اور (اگر مثل انقلاب عصا کے اس معجزہ سے بھی طبعاً خوف اور حیرت پیدا ہو تو) خوف (رفع کرنے) کے واسطے اپنا (وہ) ہاتھ (پھر) اپنے (گریبان اور بغل) سے (بدستور سابق) ملا لینا (تاکہ وہ پھر اصلی حالت پر ہوجائے اور پھر طبعی خوف بھی نہ ہوا کرے) سو یہ (تمہاری نبوت کی) دو سندیں ( اور دلیلیں) ہیں تمہارے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جانے کے واسطے (جس کا تم کو حکم کیا جاتا ہے کیونکہ) وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں، انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب (میں جانے کے لئے حاضر ہوں مگر آپ کی خاص امداد کی ضرورت ہے کیونکہ) میں نے ان میں سے ایک آدمی کا خون کردیا تھا سو مجھ کو اندیشہ ہے کہ (کہیں پہلے ہی) وہ لوگ مجھ کو قتل کردیں (تبلیغ بھی نہ ہونے پاوے) اور (دوسری بات یہ ہے کہ زبان بھی زیادہ رواں نہیں ہے اور) میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ رواں ہے تو ان کو بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ رسالت دیدیجئے کہ (وہ میری تقریر کی تائید اور) تصدیق (مفصل اور مکمل طور سے) کریں گے (کیونکہ) مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ لوگ (فرعون اور اس کے درباری) میری تکذیب کریں (تو اس وقت مناظرہ کی ضرورت ہوگی اور زبانی مناظرہ کے لئے عادةً وہ آدمی زیادہ مفید ہوتا ہے جو رواں زبان ہو) ارشاد ہوا کہ (بہتر ہے) ہم ابھی تمہارے بھائی کو تمہارا قوت بازو بنائے دیتے ہیں ( ایک درخواست تو یہ منظور ہوئی) اور (دوسری درخواست کی منظوری اس طرح ہوئی کہ) ہم تم دونوں کو ایک خاص شوکت (وہیبت) عطا کرتے ہیں جس سے ان لوگوں کو تم پر دسترس نہ ہوگی (پس) ہمارے معجزے لے کر جاؤ تم دونوں اور جو تمہارا پیرو ہوگا (ان لوگوں پر) غالب رہو گے۔- معارف ومسائل - فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ ، یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدت معینہ ملازمت کی پوری کردی جو آٹھ سال لازمی اور دو سال اختیاری تھی سو یہاں سوال یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے صرف آٹھ سال پورے کئے یا دس سال۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے زیادہ مدت یعنی دس سال پورے کئے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی یہی شان ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی عادت شریفہ تھی کہ حقدار کو اس کے حق سے زائد ادا فرماتے تھے اور امت کو اسی کی ہدایت فرمائی ہے کہ ملازمت، اجرت اور خریدو فروخت میں مساہلت اور ایثار سے کام لیا جائے۔
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَہْلِہٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا ٠ۚ قَالَ لِاَہْلِہِ امْكُثُوْٓا اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ٢٩- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - طور - طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله :- وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] ، وَطُورِ سِينِينَ- [ التین 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] .- ( ط و ر )- طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - مكث - المکث : ثبات مع انتظار، يقال : مَكَثَ مکثا . قال تعالی: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ، وقرئ : مکث «5» ، قال : إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] ، قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29]- ( م ک ث ) المکث - کسی چیز کے انتظار میں ٹھہرے رہنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔ ایک قرات میں مکث ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] تم ہمیشہ ( اسی حالت میں ) رہو گے ۔ قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29] تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- خبر - الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة «2» ، وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها .- ( خ ب ر ) الخبر - ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔- جذو - الجَذْوَة والجِذْوَة : الذي يبقی من الحطب بعد الالتهاب، والجمع : جذی. قال عزّ وجلّ : أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ [ القصص 29] ، قال الخلیل : يقال : جَذَا يَجْذُو، نحو : جثا يجثو «2» ، إلا أنّ جذا أدلّ علی اللزوم . يقال : جذا القراد في جنب البعیر : إذا شدّ التزامه به، وأَجَذَتِ الشجرة : صارت ذات جذوة . وفي الحدیث :«کمثل الأرزة المجذية»ورجل جَاذٍ : مجموع الباع، كأنّ يديه جذوة، وامرأة جَاذِيَة .- ( ج ذ و ) الجذوۃ والجذوۃ ( انگارہ ) جلنے اور شعلہ ختم ہوجانے کے بعد جو ایندھن باقی رہ جاتا ہے اسے جذوۃ کہا جاتا ہے ۔ ج جذی وجذی قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ [ القصص 29] یا اگ کا انگارہ ۔ خلیل نے کہا ہے کہ جذا اور جثا ہم معنی ہیں یعنی چمٹ جانا جذا میں شدت لزوم کے معنی پائے جاتے ہیں ، چناچہ محاورہ ہے : ۔ کہ حچڑی اونٹ کے پہلو میں سختی کے ساتھ چمٹ گئی ۔ اجذت ( افعال ) الشجرۃ درخت کا جڑ پکڑ لینا ۔ حدیث میں ہے اس کی مثال مضبوط جڑوالے صنو بر کے درخت کی ہے ( یعنی جو ہوا کے جھکولوں سے ادھر ادھر نہیں جھکتا رجل جاذ مرد کوتاہ دست۔ کوتاہ ارش مؤنث جاذیۃ کو تاد ہونے میں اس کے دونوں ہاتھ گو یا پارہ آتش ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔
(٢٩) غرض کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس دس سالہ مدت کو پورا کرچکے اور اپنی بیوی کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تو ایک رات جب کہ سردی بھی سخت تھی اور راستہ بھی بھول گئے تھے راستہ کے بائیں جانب ایک روشنی آگ کی صورت میں دکھائی دی۔- انھوں نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے آگ دیکھی ہے شاید میں تمہارے پاس وہاں سے رستہ کی کچھ خبر لاؤں یا تمہارے سینکنے کو کوئی آگ کا دہکتا ہوا انگارا لے آؤں۔
آیت ٢٩ (فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَہْلِہٖٓ) ” - یہ سوچ کر کہ آٹھ دس سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد قتل والا معاملہ ٹھنڈا پڑگیا ہوگا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔- (اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ ) ” - ممکن ہے آگ کی جگہ پر موجود کسی شخص سے مجھے راستے کے بارے میں کچھ یقینی معلومات مل جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بھٹک کر غلط راستے پر چل پڑے ہوں۔- (اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ ) ” - اگر وہاں سے مجھے کوئی انگارا وغیرہ مل گیا تو اس سے ہم آگ جلا کر اس سرد رات میں اپنے لیے گرمی حاصل کرسکیں گے۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 40 حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت موسی نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی ، ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ بات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ حضور نے فرمایا : قضی موسی اتم الاجلین وا طیبھما عشر شنین ۔ موسی علیہ السلام نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جو زیادہ کامل اور ان کے خسر کے لیے زیاہ خوشگوار تھی ، یعنی دس سال ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 41 اس سفر کا رخ طور کی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضرت موسی اپنے اہل و عیال کو لیکر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے ۔ اس لیے کہ طور اس راستے پر ہے جو مدین سے مصر کی طرف جاتا ہے ، غالبا حضرت موسی نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزر چکے ہیں ، وہ فرعون بھی مرچکا ہے جس کی حکومت کے زمانے میں وہ مصر سے نکلے تھے ، اب اگر خاموشی کے ساتھ وہاں چلا جاؤں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں تو شاید کسی کو میرا پتہ بھی نہ چلے ۔ بائیبل کا بیان یہاں واقعات کی ترتیب میں قرآن کے بیان سے بالکل مختلف ہے ، وہ کہتی ہے کہ حضرت موسی اپنے خسر کی بکریاں چراتے ہوئے بیابان کے پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک آ نکلے تھے ، اس وقت اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا اور انہیں رسالت کے منصب پر مامور کر کے مصر جانے کا حکم دیا ، پھر وہ اپنے خسر کے پاس واپس آگئے اور ان سے اجازت لے کر اپنے بچوں کے ساتھ مصر روانہ ہوئے ( خروج 3 ۔ 1 ۔ 4 ۔ 18 ) اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسی مدت پوری کرنے کے بعد پنے اہل و عیال کو لیکر مدین سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں اللہ تعالی کی مخاطبت اور منصب نبوت پر تقرر کا معاملہ پیش آیا ۔ بائیبل اور تلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسی کے زمانہ قیام مدین میں وہ فرعون مرچکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اور اب ایک دوسرا فرعون مصر کا فرمانروا تھا ۔
19: بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دس سال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس پورے کیے تھے، اس کے بعد غالبا انہوں نے اپنی والدہ اور دوسرے رشتہ داروں کے پاس مصر جانے کا ارادہ فرمایا یا اور یہ سوچا کہ قبطی کے قتل کا قصہ اب بھولا بسرا ہوچکا ہوگا، اور واپس مصر جانے میں کوئی خطرہ نہیں رہا