فرعونی قوم کا رویہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خلعت نبوت سے اور کلام الٰہی سے ممتاز ہو کر بحکم اللہ مصر میں پہنچے اور فرعون اور فرعونیوں کو اللہ کی وحدت اور اپنی رسالت کی تلقین کے ساتھ ہی جو معجزے اللہ نے دئیے تھے انہیں دکھایا ۔ سب کو مع فرعون کے یقین کامل ہوگیا کہ بیشک حضرت موسیٰ اللہ کے رسول ہیں ۔ لیکن مدتوں کا غرور اور پرانا کفر سر اٹھائے بغیر نہ رہا اور زبانیں دل کے خلاف کر کے کہنے لگے یہ تو صرف مصنوعی جادو ہے ۔ اب فرعونی اپنے دبدے اور قوت وطاقت سے حق کے مقابلے پر جم گئے اور اللہ کے نبیوں کا سامنا کرنے پر تل گئے اور کہنے لگے کبھی ہم نے تو نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے اور ہم تو کیا ہمارے اگلے باپ دادوں کے کان بھی آشنا نہیں تھے ۔ ہم سب کے سب مع اپنے بڑے چھوٹوں کے بہت سے معبودوں کو پوجتے رہے ۔ یہ نئی باتیں لے کر کہاں سے آگیا ؟ کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے اور تم کو اللہ خوب جانتا ہے وہی ہم تم میں فیصلہ کرے گا ہم میں سے ہدایت پر کون ہے؟ اور کون نیک انجام پر ہے؟ اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ فیصلہ کردے گا اور تم عنقریب دیکھ لوگے کہ اللہ کی تائید کس کا ساتھ دیتی ہے؟ ظالم یعنی مشرک کبھی خوش انجام اور شاد کام نہیں ہوئے وہ نجات سے محروم ہیں ۔
3 6 1یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے مشرکین مکہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کہا تھا اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کر کے) ایک ہی معبود بنادیا ہے ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے ۔
[٤٦] موسیٰ یہ عظیم ذمہ اٹھائے طویٰ کے میدان سے واپس لوٹے۔ درمیان میں ایک خلا ہے جس کو قرآن نے غیر اہم سمجھ کر بتلانا چھوڑ دیا ہے۔ جو یہ کہ وہاں سے موسیٰ اپنے بال بچوں کو لے کر سیدھے اپنے گھر ہی پہنچے ہوں گے۔ وہاں والدین اور بہن بھائی سے ملاقات۔ اپنے بھائی ہارون سے تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ وغیرہ چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ انہی ایام میں ہارون کو نبوت عطا ہوگی۔ قرآن آگے یہاں سے ان کا قصہ ذکر کرتا ہے کہ وہ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچ گئے۔ ان کی رسائی دربار میں کس انداز سے ہوئی ؟ یہ بات معلوم نہیں۔ بہرحال دربار میں پہنچ کر موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تفصیل سے فرعون اور اس کے درباریوں تک پہنچ دیا۔ اور اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں صرف اسی قدر ذکر کیا گیا ہے کہ جب فرعون اور اس کے درباریوں کے مطالبہ پر موسیٰ نے اپنی نبوت کی صداقت کے طور پر یہ دونوں معجزات دکھلائے تو اگرچہ فرعون کو آپ کی نبوت کا دل میں یقین ہوچکا تھا اور اسی وجہ سے اسے قتل کے جرم میں آپ کو قتل کردینے کی کسی وقت بھی ہمت نہ پڑی۔ تاہم عام لوگوں پر نبوت کے اثر کو دور رکھنے کے لئے انہوں نے فوراً یہ کہہ دیا کہ یہ بھلا کون سی نبوت کی علامت ہے۔ ایسی شعبدہ بازیاں تو دوسرے جادوگر بھی دکھلا سکتے ہیں۔ ان کو بھلا کبھی کسی نے نبی تسلیم کیا ہے ؟- [٤٧] ان باتوں کی تفصیل پہلے متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں اور وہ باتیں یہ تھیں کہ مقتدر اعلیٰ اور مختار مطلق ہستی تم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔ جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اسی نے مجھے رسول بنایا اور یہ معجزات بطور علامت دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ تم سرکشی چھوڑ دو اپنی خدائی کے دعویٰ سے باز آجاؤ۔ اسی اللہ کو قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ تسلیم کرلو۔ اسی کی عبادت کرو۔ فرعون نے کہا کہ یہ تھا کہ میرے اوپر بھی کسی مختار مطلق ہستی ہونے کی بات ایسی بات ہے۔ جو ہم نے اپنے آباء سے کبھی نہیں سنی۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ فراعنہ مصر کئی پشتوں سے خود مختار و مطلق فرمانروا بنے بیٹھے تھے۔ اور قانونی اور سیاسی اختیارات میں اپنے اوپر کسی بالاتر ہستی کے قائل نہ تھے۔ اسی بات کو ان کے خدائی کے دعویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) یہ ذمہ داری لے کر وادی طویٰ سے واپس لوٹے۔ درمیان کی بات قرآن نے یہاں چھوڑ دی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے گھر آئے۔ والدین اور بھائی بہنوں سے ملاقات کی، ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہونے کا ماجرا سنایا، پھر دونوں بھائی فرعون اور اس کے سرداروں کو دعوت دینے کے لیے ان کے دربار میں پہنچے اور انھیں توحید الٰہی کی دعوت دی اور انھیں اللہ کی طرف سے اپنی رسالت کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا حکم سنایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعوت سورة طٰہٰ (٤٧ تا ٥٤) اور شعراء (١٦ تا ٣٣) میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ جب فرعون نے ان کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا تو انھوں نے اپنی رسالت کی دلیل کے طور پر عصا اور ید بیضا کا معجزہ پیش کیا۔ فرعون کے پاس ان معجزوں کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ دل سے موسیٰ (علیہ السلام) کے سچا نبی ہونے کو مان چکا تھا۔ دیکھیے بنی اسرائیل (١٠٢) اور نمل (١٤) مگر اس نے اپنی قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے دو باتیں کہیں، ایک یہ کہ تمہارا عصا اور ید بیضا سحر مفتری ہے، یعنی تمہارا گھڑا ہوا اور بنایا ہوا جادو ہے، حقیقت اس کی کچھ نہیں۔ سورة اعراف (١٠٩ تا ١٢٦) ، طٰہٰ (٥٥ تا ٧٦) اور شعراء (٣٤ تا ٥١) میں اس کے جادوگر جمع کر کے ان معجزات کے مقابلے کا اور جادوگروں کے ناکام ہو کر مسلمان ہوجانے کا ذکر گزر چکا ہے۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ ہم نے توحید کی یہ دعوت اپنے پہلے آبا و اجداد میں نہیں سنی۔ فرعون کی اس بات کی بنیاد محض آبا و اجداد کی تقلید تھی، جو ان لوگوں کی دلیل ہوتی ہے جن کے پاس کوئی دلیل نہ ہو اور وہ محض ہٹ دھرمی سے کسی غلط بات پر ڈٹ جائیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ میں نے خسارے کا سودا کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ میرے باپ نے خسارے کا سودا کیا تھا۔ فرعون ہی نہیں تمام باطل پرستوں کے پاس حق کے انکار کا یہی بہانہ ہوتا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) ۔- بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کا یہ کہنا جھوٹ تھا کہ ہم نے اپنے پہلے آباء میں یہ بات نہیں سنی، کیونکہ اس سے پہلے مصر میں یوسف (علیہ السلام) گزر چکے تھے جو قید خانے میں بھی توحید کی دعوت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، جیسا کہ قریش مکہ کا یہ کہنا جھوٹ تھا کہ ہم نے اپنے آباء میں یہ بات نہیں سنی، حالانکہ ان کے آبا و اجداد میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) تھے جو بتوں کو توڑنے والے تھے اور توحید الٰہی کے زبردست علمبردار تھے، مگر فرعون اور قریش مکہ نے صرف ان آباء کو دلیل بنایا جو عقل و ہدایت دونوں سے خالی تھے، فرمایا : (اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٧٠ ]” کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں۔ “
خلاصہ تفسیر - غرض جب ان لوگوں کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہماری صریح دلیلیں لے کر آئے تو ان لوگوں نے (معجزات دیکھ کر) کہا کہ یہ تو محض ایک جادو ہے کہ (خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ پر) افترا کیا جاتا ہے (کہ یہ اس کی جانب سے معجزات اور دلیل رسالت ہیں) اور ہم نے ایسی بات کبھی نہیں سنی کہ ہمارے اگلے باپ دادوں کے وقت میں بھی ہوئی ہو اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (اس کے جواب میں) فرمایا کہ (جب باوجود دلائل صحیحہ قائم ہونے کے اور اس میں کوئی شبہ معقول نہ نکال سکنے کے بعد بھی نہیں مانتے تو یہ ہٹ دھرمی ہے اور اس کا اخیر جواب یہی ہے کہ) میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو صحیح دین اس کے پاس سے لے کر آیا ہے اور جس کا انجام (یعنی خاتمہ) اس عالم (دنیا سے) اچھا ہونے والا ہے ( اور بالیقین ظالم لوگ ( جو کہ ہدایت اور دین صحیح پر نہ ہوں) کبھی فلاح نہ پاویں گے (کیونکہ ان کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ مطلب یہ کہ خدا کو خوب معلوم ہے کہ ہم میں اور تم میں کون اہل ہُدٰی ہے اور کون ظالم اور کون محمود العاقبت ہے اور کون محروم عن الفلاح پس ہر ایک کی حالت اور ثمرہ کا جلد ہی مرنے کے ساتھ ہی ظہور ہوجاوے گا اب نہیں مانتے تم جانو) اور (دلائل موسویہ دیکھ کر اور سن کر) فرعون کو (اندیشہ ہوا کہ کہیں ہمارے معتقدین ان کی طرف مائل نہ ہوجاویں تو لوگوں کو جمع کر کے) کہنے لگا اے اہل دربار مجھ کو تو تمہارا اپنے سوا کوئی خدا معلوم نہیں ہوتا (اس کے بعد تلبیس کے واسطے اپنے وزیر سے کہا کہ اگر اس سے ان لوگوں کا اطمینان نہ ہو تو) اے ہامان تم ہمارے لئے مٹی (کی اینٹیں بنوا کر ان) کو آگ میں پزاوہ لگا کر پکواؤ پھر (ان پختہ اینٹوں سے) میرے واسطے ایک بلند عمارت بنواؤ تاکہ (میں اس پر چڑھ کر) موسیٰ کے خدا کو دیکھوں بھالوں اور میں تو (اس دعوی میں کہ کوئی اور خدا ہے) موسیٰ کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں اور فرعون اور اس کے تابعین نے ناحق دنیا میں سر اٹھا رکھا تھا اور یوں سمجھ رہے تھے کہ ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا نہیں ہے تو ہم نے (اس تکبر کی سزا میں) اس کو اور اس کے تابعین کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا (یعنی غرق کردیا) سو دیکھئے ظالموں کا انجام کیسا ہوا (اور موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کا ظہور ہوگیا مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) اور ہم نے ان لوگوں کو ایسا رئیس بنایا تھا جو (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے رہے اور (اسی واسطے) قیامت کے روز (ایسے بےکس رہ جاویں گے کہ) ان کا کوئی ساتھ نہ دے گا اور (یہ لوگ دونوں عالم میں خائب و خاسر ہوئے چنانچہ) دنیا میں بھی ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے دن بھی بدحال لوگوں میں سے ہوں گے۔
فَلَمَّا جَاۗءَہُمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّمَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ ٣٦- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔
(٣٦) غرض کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس ہماری کھلی نشانیاں یعنی یدبیضاء اور عصا لے کر آئے تو ان لوگوں نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) یہ جو تم لے کر آئے ہو یہ تو تمہارے خود کا گھڑا ہوا ایک جادو ہے اور تم جو کہتے ہو ہم نے کبھی بھی ایسی بات نہیں سنی کہ ہمارے آباؤ و اجداد کے وقت میں بھی ہوئی ہو۔
(قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ ) ” - ہمارے لیے یہ بالکل نئی بات ہے کہ اللہ جو اس کائنات کا خالق ہے وہ کسی انسان کو اپنا نمائندہ بنا کر دنیا میں بھیجے اور وہ اس حیثیت میں لوگوں سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرے۔ ہم نے اپنے باپ دادا سے بھی نہیں سنا کہ ان کے زمانے میں پہلے کبھی ایسا ہوا تھا۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 49 اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّفْتَرًى افترا کیا ہوا جادو ۔ اس افترا کو جھوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کا اژدھا بننا اور ہاتھ کا چمک اٹھنا ، نفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک نمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کر ہمیں دھوکا دے رہا ہے ۔ اور اگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کرتب سے ایک ایسی چیز بنا لایا ہے جو دیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہے تو سانپ نظر آنے لگتی ہے ، اور اپنے ہاتھ پر بھی اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سے نکلنے کے بعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے ، یہ مصنوعی طلسم اس نے خود تیار کیا ہے اور ہمیں یقین یہ دلا رہا ہے کہ یہ معجزے ہیں جو خدا نے اسے عطا کیے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو تبلیغ رسالت کے سلسلے میں حضرت موسی نے پیش کی تھیں ، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان باتوں کی تفصیل دی گئی ہے ۔ النازعات میں ہے کہ حضرت موسی نے اس سے کہا: فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى ، وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ۔ کیا تو پاکیزہ روش اختیار کرنے پر آمادہ ہے؟ اور میں تجھے تیرے رب کی راہ بتاؤں تو خشیت اختیار کرے گا ۔ سورہ طہ میں ہے کہ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى ، اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى ۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لائے ہیں ، اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہ راست کی پیروی کرے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ سزا ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے اور اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ ۔ ہم تیرے رب کے پیغمبر ہیں ، تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے ۔ انہی باتوں کے متعلق فرعون نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ فرعون مصر سے اوپر بھی کوئی ایسی مقتدر ہستی ہے جو اس کو حکم دینے کی مجاز ہو ، جو اسے سزا دے سکتی ہو ، جو اسے ہدایات دینے کے لیے کسی آدمی کو اس کے دربار میں بھیجے ، اور جس سے ڈرنے کے لیے مصر کے بادشاہ سے کہا جائے ۔ یہ تو نرالی باتیں ہیں جو آج ہم ایک شخص کی زبان سے سن رہے ہیں ۔