Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو بےعقل بناکر ان سے اپنا دعویٰ منوالیا اس نے ان کمینوں کو جمع کرکے ہانک لگائی کہ تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑلیا اور دوسروں کے لئے اسے نشان عبرت بنایا ۔ ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ حضرت موسیٰ سے ڈانٹ کر کہا کہ سن اگر تونے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا ۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعوی انہیں منواکر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ ( بھٹہ ) بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لئے ایک بلند وبالا مینار بنا کہ میں جاکر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں ۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے ۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی کا بیان آیت ( وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ 36؀ۙ ) 40-غافر:36 ) میں بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلند میناربنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں بنایا گیا ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا ومارب العلمین رب العالمین ہے کیا ؟ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کردونگا ۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں ۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی ۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہوگئے ۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر برس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹادیا ۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا ۔ لوگو سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم نے انہیں دوزخیوں کا امام بنادیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں ۔ جو بھی ان کی روش پر چلا اسے وہ جہنم میں لئے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے ۔ قیامت کے دن بھی انکی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے جسیے فرمان ہے ( اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13؀ ) 47-محمد:13 ) ہم نے انہیں تہہ وبالا کردیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا ۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَاُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ 99؀ ) 11-ھود:99 ) یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر، ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔ 382یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے۔ 383یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جو یہ دعوی کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] فرعون کی خدائی کا دعویٰ اس حد تک تھا کہ اس نے ملک کے تمام وسائل معاش پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دوسرے وہ اپنے قانونی اور سیاسی اختیارات میں کسی بالاتر ہستی کا قائل نہ تھا۔ ورنہ وہ دوسرے مشرکوں کی طرف کائنات کا خالق اللہ ہی کو سمجھتا تھا اور اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کا بھی قائل تھا۔ چناچہ خود اس کے درباریوں نے فرعون سے کہا تھا کہ تو موسیٰ کو کھلی چھٹی دے دے گا کہ وہ اور اس کے پیرو کار تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے (٧: ١٢٧) فراعنہ مصر دراصل اپنے آپ کو سورج دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ اپنی رعایا سے اپنے مجسموں کی پوجا بھی کرواتے تھے۔ علاوہ ازیں ان لوگوں میں گائے بیل کی پرستش کا عام رواج تھا۔- [٥٠] یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو الو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کہی تھی۔ اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے چند برس پیشتر روس نے جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، نے کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنگ طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں۔ مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور اسی دلیل کو بھی انہوں نے لوگوں کو الو بنانے کے لئے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا۔ کیونکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتلاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے ـ۔ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے ثابت مشاہدہ کئے جاچکے ہیں۔ اور یہ ستارے یا سورج جسامت کے لحاظ سے ہمارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک سورج موجود ہے جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام الفاقنطورس ( ) ہے۔ ایسے ہی دوسرے سورج اس سے دو ہیں۔ اسی طرح ایک ستارے کا نام قلب عقرب ہے ( ) ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا۔ جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل دور ہے۔ گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو سببت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ میل ہے۔ روشنی کا یہ سفر ٨ منٹ کا سفر ہے۔ گویا سورج ہم سے ٨ نوری منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلہ پر ہیں۔- یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور سب سے اوپر ہے کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے ؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے۔ جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ (قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 30؀) 9 ۔ التوبہ :30)- اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی اس سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا۔ تو ایک لڑکی کے منہ سے بےساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک یہ سپوتنک میزائل پہنچا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔- فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی سے شک میں مبتلا کردے۔ ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینارہ بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ : سرکش اور مغرور فرعون پر موسیٰ (علیہ السلام) کی اتنی نرم اور حلم والی بات کا کچھ اثر نہیں ہوا، بلکہ اس نے اپنے سرداروں کو مخاطب کر کے لاف زنی شروع کردی، کہ ” اے سردارو میں نے اپنے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں جانا۔ “ اس سے فرعون کے تکبر کا اور اس کی حماقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ گویا وہ انھیں کہہ رہا تھا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود ہو اور جو مجھے معلوم نہیں وہ ہے ہی نہیں۔ بتائیے اس سے بڑی بےوقوفی کیا ہوگی۔ تمہیں تو یہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ تمہارے گھر میں کس کی پرورش ہو رہی ہے ؟ اس کی قوم کے سرداروں نے بھی اس کی اس یا وہ گوئی پر خاموش رہ کر اس کی تائید کی، جو ان کی جہالت اور بزدلی کی انتہا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ) [ الزخرف : ٥٤ ] ” غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بےوزن) کردیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقیناً وہ نافرمان لوگ تھے۔ “- 3 استاذ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” شاہ صاحب (رض) نے یہاں ” الٰہ “ (خدا) کا ترجمہ حاکم کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماء کا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا، بلکہ وہ خود بہت سے دیوتاؤں کی پرستش کرتا تھا۔ پس فرعون کا مطلب یہ تھا کہ میں ہی تمہارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں، میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، جس کی فرماں برداری کی جائے۔ “ (اشرف الحواشی) فرعون کے رب اعلیٰ ہونے کے دعوے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٢٧) کی تفسیر۔- فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ ۔۔ : اپنے اس دعوے کے ساتھ کہ مجھے اپنے سوا تمہارا کوئی الٰہ معلوم نہیں، فرعون نے یہ دکھانے کے لیے کہ واقعی اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ وہ پکی اینٹیں تیار کرے۔ یہاں قرآن مجید کے الفاظ کے انتخاب پر توجہ فرمائیں، عربی زبان میں پکی اینٹ کے لیے ” آجُرٌّ، طُوْبٌ“ اور ” قَرْمَدٌ“ وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مگر ان سب کی ادائیگی میں ایک قسم کا ثقل پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بجائے فرمایا : (فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ ) ” تو اے ہامان میرے لیے مٹی پر آگ جلا “ اس جملے میں پختہ اینٹ بنانے کا طریقہ بھی بیان ہوگیا، ہامان کو اس کی تیاری کا حکم بھی اور اس جملے کے کسی لفظ میں کسی قسم کا کوئی ثقل بھی نہیں آیا، سب حروف متناسب اور سلیس ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پختہ اینٹ بنانے کی ابتدا ہامان نے فرعون کے حکم سے کی، مگر اس کی کوئی پختہ دلیل نہیں کہ اس سے پہلے پختہ اینٹیں نہیں بنتی تھیں۔- فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا ۔۔ : لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے اس نے یہ حکم دیا کہ پختہ اینٹیں تیار کر کے میرے لیے ایک بلند و بالا محل بنا، تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے رب کو دیکھوں، کیونکہ میں تو اسے جھوٹا ہی گمان کرتا ہوں۔ فرعون کی یہ بات سورة مومن (٣٦، ٣٧) میں بھی بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید یا حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ اس نے وہ محل بنایا یا نہیں۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ ہامان نے کاریگر اور مزدور جمع کیے، حتیٰ کہ پچاس ہزار مستری جمع ہوگئے۔ مزدور اور کارکن اس کے علاوہ تھے۔ اسی طرح اینٹیں پکانے والے، چونا بنانے والے، لکڑی اور لوہے کا کام کرنے والے بھی ان کے علاوہ تھے۔ ان سب نے وہ عمارت بنائی جو اتنی بلند تھی کہ مخلوق میں سے کسی نے اتنی بلند عمارت نہیں بنائی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو فرعون اس کے اوپر چڑھا اور اس نے آسمان کی طرف تیر پھینکنے کا حکم دیا، وہ واپس آیا تو خون سے لت پت تھا۔ کہنے لگا، میں نے موسیٰ کے معبود کو قتل کردیا۔ فرعون گھوڑے کے ساتھ اس پر چڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورج غروب ہونے کے قریب جبریل (علیہ السلام) کو بھیجا، انھوں نے اس عمارت پر اپنا پر مارا اور اسے تین ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ ایک ٹکڑا فرعون کے لشکر پر گرا، جس نے ان میں سے دس لاکھ آدمیوں کو ہلاک کردیا، ایک ٹکڑا سمندر میں گرا اور ایک ٹکڑا مغرب میں جا گرا اور اس عمارت کے بنانے میں جس نے کچھ بھی کام کیا تھا، کوئی باقی نہ رہا۔ طبری نے اسے اختصار کے ساتھ سدی سے بیان کیا ہے۔ قرطبی نے اسے ذکر کر کے اس کے کمزور ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے : ” وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِصِحَّۃِ ذٰلِکَ “ کہ اس روایت کی صحت کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اسرائیلی روایات کی یہی مصیبت ہے کہ ان کی کوئی سند ہوتی ہے نہ ان کا سرا کہیں جا کر ملتا ہے۔ اس زمانے میں صرف مصر کے اندر دس لاکھ کے لشکر کی بات بھی قابل توجہ ہے۔ حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ یہ فرعون کی محض گیدڑ بھبکی تھی، جس کے ساتھ وہ اپنی قوم کو بیوقوف بنا رہا تھا۔ اینٹیں بنانے کا حکم بھی اس نے معاملے کو لٹکانے کے لیے دیا، ورنہ مصری لوگوں کو اینٹوں کی ضرورت ہی نہ تھی، جو لوگ اہرام مصر اتنے بڑے بڑے پتھروں سے بنا سکتے ہیں، جن میں سے ہر پتھر کا حجم عام کمرے کے مکمل حجم کے برابر ہے، انھیں اینٹیں پکانے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ صرف وقت گزاری کی کارروائی تھی، ویسے بلند و بالا پہاڑوں کے ہوتے ہوئے اینٹوں سے عمارت بنانے کا حکم دینا، جو کسی طرح بھی پہاڑوں جتنی بلند نہیں ہوسکتی، محض دھوکا تھا۔ جیسا کہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا تھا : (ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّهٗ ) [ المؤمن : ٢٦ ] ”(اور فرعون نے کہا) مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ “ بندہ پوچھے تمہیں کس نے پکڑا ہوا ہے، جسے چھوڑنے کے لیے کہہ رہے ہو ہمت ہے تو ہاتھ بڑھا کر تو دیکھو۔ - 3 مفسر عبدالرحمان کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو اُلّو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کہی تھی اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسی چند برس پیشتر روس نے، جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنک طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں، مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہوسکتی ہے اور اس واقعہ کو بھی انھوں نے لوگوں کو اُلّو بنانے کے لیے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا، حالانکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے۔ یہ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے، جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے یا ثوابت مشاہدہ کیے جا چکے ہیں اور یہ ستارے یا سورج ہمارے سورج سے جسامت کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سورج موجود ہے، جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام قلب عقرب ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا، جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل ہے، گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو ہیئت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے، روشنی کا یہ سفر آٹھ منٹ کا سفر ہے، گویا سورج ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر ہیں۔- یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا، وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور ان سب سے اوپر ہے، کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے ؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے، جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ [ قٰتَلَھُمُ اللہ انی یوفکون ] اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی کہ اپنی سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا، تو ایک لڑکی کے منہ سے بےساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک سپوتنک میزائل پہنچا تھا اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔ فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی، جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی کے بارے میں شک میں مبتلا کر دے، ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینار بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔ “- وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ : یعنی موسیٰ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کو پالنے والا ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ ، فرعون نے بہت اونچا بلند محل تیار کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے وزیر ہامان کو اس کی تیاری کے لئے پہلے یہ حکم دیا کہ مٹی کی اینٹوں کو پکا کر پختہ کیا جائے کیونکہ کچی اینٹوں پر کوئی بڑی اور اونچی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ فرعون کے اس واقعہ سے پہلے پختہ اینٹوں کی تعمیر کا رواج نہ تھا سب سے پہلے فرعون نے یہ ایجاد کرائی۔ تاریخی روایات میں ہے کہ ہامان نے اس محل کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار معمار جمع کئے مزدور اور لکڑی لوہے کا کام کرنے والے ان کے علاوہ تھے اور محل کو اتنا اونچا بنایا کہ اس زمانے میں اس سے زیادہ بلند کوئی تعمیر نہیں تھی۔ پھر جب یہ تیاری مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو حکم دیا، انہوں نے ایک ضرب میں اس محل کے تین ٹکڑے کر کے گرا دیا جس میں فرعونی فوج کے ہزاروں آدمی دب کر مر گئے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۝ ٠ۚ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰہَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓى اِلٰہِ مُوْسٰي۝ ٠ۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝ ٣٨- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ - صرح - الصَّرْحُ : بيت عال مزوّق سمّي بذلک اعتبارا بکونه صَرْحاً عن الشّوب أي : خالصا . قال اللہ تعالی: صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] ، يلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ [ النمل 44] ، ولبن صَرِيحٌ بيّن الصَّرَاحَةِ ، والصَّرُوحَةِ ، وصَرِيحُ الحقّ : خلص عن محضه، وصَرَّحَ فلان بما في نفسه، وقیل : عاد تعریضک تَصْرِيحًا، وجاء صُرَاحاً جهارا .- ( ص ر ح ) الصرح ؛بلند منقش ومزین مکان ۔ ہر قسم کے عیب سے پاک ہونے کے اعتبار سے اسے صرح کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] ایسا محل ہے جس کے ( نیچے بھی ) شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔ يلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ [ النمل 44]( پھر اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے ۔ لبن صریح : خالص دودھ ۔ صریح الحق : خالص حق جس میں باطل کی آمیزش نہ ہو صرح فلان فی نفسہ فلاں نے اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کردی ۔ محاورہ ہے ۔ عاد تعریضک تصریحا ۔ تمہاری تعریض نے تصریح کا کام دیا ۔ جاء صراحا : وہ کھلے بندوں آیا ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- طَلَعَ- طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ.- ( ط ل ع ) طلع - ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) فرعون نے کہا اے مصر والو مجھے تو تمہارا اپنے سوا کوئی اللہ معلوم نہیں ہوتا سو تم موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی مت کرنا اور اے ہامان تم ہمارے لیے مٹی کی اینٹیں بنوا کر ان کو آگ میں پکواؤ اور ان اینٹوں سے میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے اللہ کو دیکھوں اور میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو اس دعوے میں کہ کوئی اور اللہ بھی اوپر ہے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ج) ” - اس ملک میں میری حکومت ہے اور یہاں صرف میرا حکم چلتا ہے۔ چناچہ میں اپنے علاوہ کسی اور کو تمہار ١ ” الٰہ “ یا ” رب “ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔- (فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ ) ” - یعنی گارے سے اینٹیں بنا کر انہیں بھٹے میں پکانے کا بندوبست کرو۔- (فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ الآی اِلٰہِ مُوْسٰیلا) ” - موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے ‘ میں اس اونچی عمارت پر چڑھ کر آسمانوں میں جھانک کر اس الٰہ کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 52 اس قول سے فرعون کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں تھا کہ اور نہیں ہوسکتا تھا کہ میں ہی تمہارا اور زمین و آسمان کا خالق ہوں ، کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کے منہ سے نکل سکتی تھی ، اور اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، کیونکہ اہل مصر کے مذہب میں بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی اور خود فرعون کو جس بنا پر معبودیت کا مرتبہ دیا گیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سورج دیوتا کا اوتار مانا جاتا تھا ، سب سے بڑی شہادت قرآن مجید کی موجود ہے کہ فرعون خود بہ سے دیوتاؤں کا پرستار تھا: وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۔ اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسی اور اس کی قوم کو چھوٹ دے دے گا کہ ملک میں فساد برپا کریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں ۔ ( الاعراف ، آیت 127 ) اس لیے لامحالہ یہاں فرعون نے لفظ خدا اپنے لیے بمعنی خالق و معبود نہیں بلکہ بمعنی مطیع و حاکم مطلق استعمال کیا تھا ۔ اس کا مدعا یہ تھا کہ اس سرزمین مصر کا مالک میں ہوں ۔ یہاں میرا حکم چلے گا ، میرا ہی قانون یہاں قانون مانا جائے گا ۔ میری ذات ہی یہاں امر و نہی کا سرچشمہ تسلیم کی جائے گی ، کوئی دوسرا یہاں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے ، یہ موسی کون ہے جو رب العالمین کا نمائندہ بن کر ا کھڑا ہوا ہے اور مجھے اس طرح احکام سنا رہا ہے کہ گویا اصل فرمنروا یہ ہے اور میں اس کا تابع ہوں ۔ اسی بنا پر اس نے اپنے دربار کے لگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَهٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ ۔ اے قوم ، کیا مصر کی بادشاہی میری ہی نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے تحت جاری نہیں ہیں ( الزخرف ، آیت 51 ) اور اسی بنا پر وہ حضرت موسی سے بار بار کہتا تھا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ ۔ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے ہٹا دے جو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور اس ملک میں بڑائی تم دونوں بھائیوں کی ہوجائے ( یونس ، آیت 78 ) اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى ۔ اے موسی کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہماری زمین سے بے دخل کردے ( طہ ، آیت 57 ) اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ ۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ شخص تم لوگوں کا دین بدل ڈالے گا ، یا ملک میں فساد برپا کرے گا ۔ ( المومن ، آیت 26 ) اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کی پوزیشن ان ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو خدا کے پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت سے آزاد و خود مختار ہوکر اپنی سیاسی اور قانونی حاکمیت کی مدعی ہیں ۔ وہ خواہ سرچشمہ قانون اور صاحب امر و نہی کسی بادشاہ کو مانیں یا قوم کی مرضی کو ، بہرحال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اور اس کے رسول کا بلکہ ہمارا حکم چلے گا اس وقت تک ان کے اور فرعون کے موقف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بے شعور لوگ فرعون پر لعنت بھیجتے رہیں اور ان کو سند جواز عطا کرتے رہیں ، حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تو معنی اور روح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اور اصطلاحات کو ۔ آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے الہ کا لفظ استعمال کیا تھا ، اور یہ اسی معنی میں حاکمیت کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، سورہ طہ ، حاشیہ 21 ) سورة القصص حاشیہ نمبر : 53 یہ اسی قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانے کے ر وسی کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں ، یہ اسپٹنک اور لونک چھوڑ کر دنیا کو خبر دیتے ہیں کہ ہماری ان گیندوں کو اوپر کہیں خدا نہیں ملا ۔ وہ بے وقوف ایک مینارے پر چڑھ کر خدا کو جھانکنا چاہتا تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کے ذہن کی پرواز ساڑھے تین ہزار برس پہلے جہاں تک تھی آج بھی وہیں تک ہے ۔ اس اعتبار سے ایک انگل بھر ترقی بھی وہ نہیں کرسکے ہیں ۔ معلوم نہیں کسی احمق نے ان کو یہ خبر دی تھی کہ خدا پرست لوگ لوگ جس رب العالمین کو مانتے ہیں وہ ان کے عقیدے کی رو سے اوپر کہیں بیٹھا ہوا ہے ، اور اس اتھاہ کائنات میں زمین سے چند ہزار فیٹ یا چند لاکھ میل اوپر اٹھ کر اگر وہ انہیں نہ ملے تو یہ بات گویا بالکل ثابت ہوجائے گی کہ وہ کہیں موجود نہیں ہے ۔ قرآن یہاں یہ نہیں کہتا کہ فرعون نے فی الواقع ایک عمارت اس غرض کے لیے بنوائی تھی اور اس پر چڑھ کر خدا کو جھانکنے کی کوشش بھی کی تھی ، بلکہ وہ اس کے صرف اس قول کو نقل کرتا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عملا یہ حماقت نہیں کی تھی ، ان باتوں سے اس کا مدعا صرف بے وقوف بنانا تھا ۔ یہ امر بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ فرعون آیا فی الواقع خداوند عالم کی ہستی کا منکر تھا یا محض ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر دہریت کی باتیں کرتا تھا ۔ اس کے اقوال اس معاملہ میں اسی ذہنی الجھاؤ کی نشان دہی کرتے ہیں جو روسی کمیونسٹوں کی باتوں میں پایا جاتا ہے ۔ کبھی تو وہ آسمان پر چڑھ کر دنیا کو باتانا چاہتا تھا کہ میں اوپر دیکھ آیا ہوں ، موسی کا خدا کہیں نہیں ہے ، اور کبھی وہ کہتا فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ ۔ اگر موسی واقعی خدا کا بھیجا ہوا ہے تو کیوں نہ اس کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے ، یا اس کی اردلی میں ملائکہ نہ آئے ۔ یہ باتیں روس کے ایک سابق وزیر اعظم خروشچیف کی باتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو کبھی خدا کا انکار کرتا اور کبھی بار بار خدا کا نام لیتا اور اس کے نام کی قسمیں کھاتا تھا ۔ ہمارا قیاس ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے خلفاء کا دور اقتدار گزر جانے کے بعد جب مصر میں قبطی قوم پرستی کا زور ہوا اور ملک میں اسی نسلی و وطنی تعصب کی بنیاد پر سیاسی انقلاب رونما ہوگیا تو نئے لیڈروں نے اپنے قوم پرستانہ جوش میں اس خدا کے خلاف بھی بغاوت کردی جس کو ماننے کی دعوت حضرت یوسف اور ان کے پیرو اسرائیلی اور مصری مسلمان دیتے تھے ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ خدا کو مان کر ہم یوسفی تہذیب کے اثر سے نکل سکیں گے ، اور یہ تہذیب باقی رہی تو ہمارا سیاسی اثر بھی مستحکم نہ ہوسکے گا ۔ وہ کدا کے اقرار و مسلم اقتدار کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے ، اس لیے ایک سے پیچھا چھڑانے کی خاطر دوسرے کا انکار ان کے نزدیک ضروری تھا ، اگرچہ اس کا اقرار ان کے دل کی گہرائیوں سے کسی طرح نکالے نہ نکلتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: یہ اس نے محض مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا