اپنی عقل ودانش پہ مغرور قارون قوم کے علماء کی نصیحتوں کو سن کر قارون نے جو جواب دئیے اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے دیجئے میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو دے رکھا ہے اسی کا مستحق میں تھا ، میں ایک عقلمند زیرک ، دانا شخص ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی اللہ جانتا ہے اسی لئے اس نے مجھے یہ دولت دی ہے ۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے کہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت وراحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ آیت ( قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ۭ اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَكْثَرُ جَمْعًا ۭ وَلَا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ 78 ) 28- القصص:78 ) یعنی اللہ جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لئے اس نے مجھے یہ دیا ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ اگر ہم اسے کوئی رحمت چھکائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہہ اٹھتا ہے کہ ھذا لی اس کا حقدار تو میں تھاہی ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے ۔ بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کے عین کو بدل دینا یہ اللہ ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر نہیں ۔ فرمان الٰہی ہے کہ اگر تمام مخلوق بھی جمع ہوجائے تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے کہ میری طرح پیدائش کرے ۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادے ۔ یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں ۔ ان کے لئے تو یہ فرمایا پھر جو دعویٰ کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی کایا پلٹ کرسکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنادیتا ہے مثلا لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے اور بالکل محال ہے اور جہالت وضلالت ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رنگ وغیرہ بدل کر دھوکے بازی کرے ۔ لیکن حقیقتا یہ ناممکن ہے ۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ محض دعوے کرکے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں ۔ ہاں یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہوجاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان کے بس کا نہیں ہوتا ، نہ ان کے قبضے کا ہوتا ہے ، نہ کوئی کاری گری ، صنعت یا علم ہے ۔ وہ محض اللہ کے فرمان کا نتیجہ ہے جو اللہ اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے ۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت حیوہ بن شریح مصری سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ تھا اور اسکی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں بہت آزردہ ہو رہے تھے ۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کرکے فقیر کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا ۔ معجزے اور کرامات احادیث اور آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں ۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث طول ہوگا ۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند ہوگیا ۔ قارون کے اس جواب کی رد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں اسے دولت مند کردیتا ہوں نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ حال لوگوں کو میں نے تباہ کردیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی نشانی ہے ، محض غلط ہے ۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے ۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا ۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لئے اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ دیتا ۔
7 8 1ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب و تجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اسکا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اسکا کیا تعلق ہے ؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے ( اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ) 28 ۔ القصص :78) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے، ، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھٰذَا لِي) (41 ۔ فصلت :50) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کرلیتا۔ 7 8 2یعنی قوت اور مال کی فروانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اسلئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔ 7 8 3یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کرلیا جاتا ہے۔
[١٠٤] قارون اس نصیحت کے جواب میں کہنے لگا : میری دولت میں دوسروں کا حق کیسے آگیا۔ یہ ساری دولت میں نے خود کمائی ہے۔ محنت کرکے کمائی ہے۔ اپنے ہنر، تجربہ اور قابلیت کی بنا پر کمائی ہے۔ پھر اس میں دوسروں کا حق کیوں کر شامل ہوگیا ؟ جو تم مجھے دوسروں کا حق ادا کرنے کی تلقین کرنے لگے ہو۔ - [١٠٥] قارون کو یہ جواب دیتے وقت اتنا بھی خیال نہ آیا کہ جس ہنر، تجربہ اور قابلیت کا وہ ذکر کر رہا ہے وہ اسے اللہ نے ہی بخشی ہے۔ لہذا وہ اپنے حقیقی محسن کو بھول کر اپنی ہی دولت اور لیاقت پر ناز کرنے لگا۔ پھر اسے یہ بھی خیال نہ آیا کہ دولت ڈھلتی چھاؤں ہے اس کے پاس اگر جمع ہوگئی ہے تو اس سے چھن بھی سکتی ہے۔ پھر یہ دولت کیا امن و سلامتی کی بھی ضامن بن سکتی ہے ؟ کتنے ہی لوگ تھے جو اس سے طاقت اور دولت میں بڑھ کر تھے لیکن جب انہوں نے سرکشی دکھلائی تو اللہ نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اور اپنی ساری دولت اور خزانے اپنے پیچھے چھوڑ کر انتہائی بےبسی اور حسرت و یاس کی موت مرگئے۔- [١٠٦] یعنی مجرموں کے تمام اعمال و اقوال کا ریکارڈ اللہ کے ہاں پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مجرموں سے ان کے گناہوں کے سوال کیا جائے اور اگر وہ ان کا اعتراف کرلیں تو تب ہی ان کے جرم ثابت ہوں گے۔ اور قیامت کے دن ان سے پوچھا بھی جائے گا تو ان کو خلق خدا کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے اور زجر و توبیخ کے طور پر پوچھا جائے گا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے مجرموں کے اعمال کے اچھا یا برا ہونے کا معیار مجرموں کی اپنے خیال پر منحصر نہیں۔ مجرم تو ہمیشہ یہی دعویٰ کریں گے کہ وہ بڑے اچھے لوگ ہیں اور ان میں کوئی برائی نہیں۔ جیسے کہ قارون بھی اپنے آپ کو درست ہی سمجھتا تھا۔ لہذا مجرموں کو جو سزا ملے گی اسی کا انحصار اس بات پر نہیں ہوگا کہ آیا مجرم خود بھی اس کام کو جرم سمجھتا ہے یا نہیں۔
قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ : اس نے کہا اللہ کا مجھ پر کوئی احسان نہیں، یہ سب کچھ تو مجھے صرف اس علم کی وجہ سے دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ یہ اس طرح کی بات ہے جیسے آج کل کے دہر یہ سائنس دان کہتے ہیں کہ ہماری تمام تر ترقی ہمارے علوم کی وجہ سے ہے، اللہ تعالیٰ کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ یہ عقل، ذہانت اور مہارت عطا کرنے والا کون ہے ؟ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” عندی “ کو ” علم “ کے متعلق ماننے کے بجائے ” اُوْتِيْتُهٗ “ کے متعلق مانا جائے، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ” میرے نزدیک یہ سب کچھ مجھے اللہ تعالیٰ کے میرے اعمال و اوصاف کو جاننے کی بنا پر ملا ہے۔ “ یعنی اسے معلوم تھا کہ میں اس قابل ہوں، اگر میں اس کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہوتا تو وہ مجھے یہ مال کیوں دیتا۔- 3 وہ علم جو قارون کو دیا گیا تھا، کیا تھا ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ علم کیمیا تھا، جس کے ساتھ وہ سونا بنا لیتا تھا، مگر اس کی کوئی دلیل نہیں۔ اللہ تعالیٰ بندے کو تجارت، صنعت، زراعت، غرض جس ذریعے سے بھی رزق دے وہ اس ذریعے کو رزق کا باعث قرار دے لیتا ہے اور اس مالک کو بھول جاتا ہے جس نے اس کے لیے اس علم و ہنر کو ذریعہ بنایا۔- اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ ۔۔ : یعنی یہ شخص جو اپنے علم و ہنر پر اس قدر مغرور تھا، کیا اسے معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور زیادہ جمع شدہ مال اور زیادہ جماعتوں والے لوگوں کو ہلاک کردیا ؟ ان کا علم و ہنر انھیں ہلاک ہونے سے نہ روک سکا، تو اس کا وہ علم جس پر اسے ناز ہے اسے ہلاک ہونے سے کیسے بچا سکے گا ؟ اور اگر دنیا میں زیادہ مال و دولت اور زیادہ طرف داروں کا ہونا اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کی دلیل ہے تو پھر ان لوگوں پر عذاب کیوں آیا جو اس سے زیادہ قوت والے اور زیادہ تعداد والے تھے ؟- وَلَا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ : یعنی مجرم تو یہی دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ ہم بہت اچھے لوگ ہیں، مگر جب ان پر جرم ثابت ہوجاتا ہے اور اللہ کا عذاب آتا ہے تو ان سے پوچھ کر انھیں نہیں پکڑا جاتا کہ تمہارے گناہ کیا ہیں۔- 3 دوسرے مقام پر جو فرمایا ہے : (فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ الحجر : ٩٢، ٩٣ ] ( سو تیرے رب کی قسم ہے یقیناً ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے، اس کے بارے میں جو وہ کیا کرتے تھے) تو وہ اس آیت کے منافی نہیں، کیونکہ قیامت کا دن بہت لمبا ہے۔ مجرموں کو ہلاک کرنے کے وقت ان سے ان کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، ہاں دوسرے مقامات اور مواقع پر ان سے سوال کیا جاتا ہے۔
اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ، بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں علم سے مراد علم تورات ہے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ قارون تورات کا حافظ اور عالم تھا اور ان ستر اصحاب میں سے تھا جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے میقات کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ مگر اس کو اپنے اس علم پر ناز و غرور پیدا ہوگیا اس کو اپنی ذاتی کمال سمجھ بیٹھا اور اس کے اس کلام کا مطلب یہی تھا کہ مجھے جو کچھ مال و دولت ملا ہے میرے اپنے ذاتی کمال علمی کے سبب ملا ہے اس لئے میں اس کا خود حقدار ہوں اس میں مجھ پر کسی کا احسان نہیں۔ مگر ظاہر یہ ہے کہ یہاں علم سے مراد معاشی تدبیروں کا علم ہے مثلاً تجارت صنعت وغیرہ کا جن سے مال حاصل ہوتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو مال مجھے حاصل ہوا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے احسان کا کیا دخل ہے یہ تو میں نے اپنی ہوشیاری اور کارگزاری کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور جاہل نے یہ نہ سمجھا کہ یہ ہوشیاری اور کارگزاری اور صنعت یا تجارت کا تجربہ اور علم بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہوا تھا اس کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔- اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ ، قارون کے اس قول کا کہ میرا مال و دولت میرے ذاتی علم و ہنر سے حاصل کردہ ہے اصل جواب تو وہ تھا جو اوپر لکھا گیا ہے کہ اگر یہی تسلیم کرلیا جائے کہ اس کا سبب کوئی خاص علم و ہنر تھا تو بھی اللہ تعالیٰ کے احسان سے کیسے بری ہوا کیونکہ یہ علم و ہنر اور قوت کسب بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کی بخشی ہوئی ہے مگر اس کا جواب بوجہ غایت ظہور کے نظر انداز فرما کر قرآن نے یہ بتلایا کہ یہ مال و دولت فرض کرو کہ اس کو اپنے ہی ذاتی کمال سے حاصل ہوا ہو مگر خود اس مال و دولت کی کوئی حقیقت نہیں، مال کی فراوانی کسی انسان کے لئے نہ کوئی کمال اور فضیلت ہے اور نہ وہ ہر حال میں اس کے کام آتا ہے اس کے ثبوت میں پچھلی امتوں کے بڑے سرمایہ داروں کی مثال پیش فرمائی کہ جب انہوں نے سرکشی کی تو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو اچانک پکڑ لیا مال و دولت ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔
قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُہٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ٠ۭ اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللہَ قَدْ اَہْلَكَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ہُوَاَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَكْثَرُ جَمْعًا ٠ۭ وَلَا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِہِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ٧٨- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
(٧٨) قارون کہنے لگا کہ مجھ کو یہ جو کچھ مال ملا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا اہل سمجھ کردیا ہے اور یہ کیمیا سے سونا بنایا کرتا تھا کیا اس قارون نے یہ نہ جانا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے گزشتہ امتوں میں سے ایسے ایسوں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت جسمانی میں بھی ان سے کہیں بڑھے ہوئے تھے اور ان کا مال اور مجمع بھی زیادہ تھا اور قیامت کے دن مشرکین سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال کرنا نہیں پڑے گا ہر ایک اپنے نشان سے خود بخود پہچانا جائے گا۔
آیت ٧٨ (قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط) ” - یعنی تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ دولت مجھے اللہ نے دی ہے ؟ یہ تو میں نے اپنی ذہانت ‘ سمجھ بوجھ ‘ محنت اور اعلیٰ منصوبہ بندی کی وجہ سے کمائی ہے۔ یہ خالص مادہ پرستانہ سوچ ہے اور ہر زر پرست شخص جو عملی طور پر اللہ کے فضل کا منکر ہے ہمیشہ اسی سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے کاروبار کی سب کامیابیاں میرے علم اور تجربے کی بنیاد پر ہیں۔ میں نے مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا بروقت اندازہ لگا کر جو فلاں فیصلہ کیا تھا اور فلاں سودا کیا تھا اس کی وجہ سے مجھے یہ اتنی بڑی کامیابی ملی ہے۔- (وَلَا یُسْءَلُ عَنْ ذُنُوْبِہِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ) ” - م اللہ تعالیٰ ان کے حساب کتاب کی جزئیات تک سے باخبر ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے اعمال نامہ کی ایک ایک تفصیل اس کے سامنے ہے۔ اسے کسی تفتیش یا تحقیق کی ضرورت نہیں۔ یہی بات سورة الرحمن میں یوں بیان ہوئی ہے : (فَیَوْمَءِذٍ لَّا یُسْءَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ ) ” پھر اس دن نہیں پوچھا جائے گا کسی انسان یا جن سے اس کے گناہ کے بارے میں “۔ اس لیے کہ اللہ کے حضور پیشی کے وقت ہر فرد کی مکمل کار گزاری اس کی پیشانی پر نقش ہوگی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰہُمْ فَیُؤْخَذُ بالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ ) (الرحمن) ” مجرم اپنے چہروں سے ہی پہچان لیے جائیں گے ‘ تو انہیں دبوچ لیا جائے گا سر کے بالوں اور پیروں سے “۔ اس طریقے سے ان میں سے ایک ایک کو پکڑ کر جہنم کی طرف اچھال دیا جائے گا۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 97 اصل الفاظ ہیں اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ، اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ میں نے جو کچھ پایا ہے اپنی قابلیت سے پایا ہے ، یہ کوئٰ فضل نہیں ہے جو استحقاق کے بجائے احسان کے طور پر کسی نے مجھ کو دیا ہو اور اب مجھے اس کا شکریہ اس طرح ادا کرنا ہو کہ جن نااہل لوگوں کو کچھ نہیں دیا گیا ہے انہیں میں فضل و احسان کے طور پر اس میں سے کچھ دوں ، یا کوئی خیرات اس غرض کے لیے کروں کہ یہ فضل مجھ سے چھین نہ لیا جائے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے نزدیک تو خدا نے یہ دولت جو مجھے دی ہے میرے اوصاف کو جانتے ہوئے دیہے ، اگر میں اس کی نگاہ میں ایک پسندیدہ انسان نہ ہوتا تو یہ کچھ مجھے کیوں دیتا ۔ مجھ پر اس کی نعمتوں کی بارش ہونا ہی اس کی اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس کا محبوب ہوں اور میری روش اس کو پسند ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 98 یعنی یہ شخص جو بڑا عالم و فاضل اور دانا و باخبر بنا پھر رہا تھا اور اپنی قابلیت کا یہ کچھ غرہ رکھتا تھا اس کے علم میں کیا یہ بات کبھی نہ آئی تھی کہ اس سے زیادہ دولت و حشمت اور قوت و شوکت والے اس سے پہلے دنیا میں گزر چکے ہیں اور اللہ نے انہیں آخر کار تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ؟ اگر قابلیت اور ہنرمندی ہی دنیوی عروج کے لیے کوئی ضمانت ہے تو ان کی یہ صلاحیتیں اس وقت کہاں چلی گئی تھیں جب وہ تباہ ہوئے؟ اور اگر کسی کو دنیوی عروج نصیب ہونا لازما اسی بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالی اس شخص سے خوش ہے اور اس کے اعمال و اوصاف کو پسند کرتا ہے تو پھر ان لوگوں کی شامت کیوں آئی؟ سورة القصص حاشیہ نمبر : 99 یعنی مجرم تو یہی دعوی کیا کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے لوگ ہیں ، وہ کب مانا کرتے ہیں کہ ان کے اندر کوئی برائی ہے ، مگر ان کی سزا ان کے اپنے اعتراف پر منحرف ہوتی ، انہیں جب پکڑا جاتا ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں پکڑا جاتا کہ بتا تمہارے گناہ کیا ہیں ۔
46: ایک طرف تو قارون یہ دعوی کررہا تھا کہ میں نے جو مال ودولت حاصل کیا ہے اپنے علم وہنر سے حاصل کیا ہے، اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ علم کا کوئی اعلی درجہ تو درکنار اسے اتنی معمولی بات بھی معلوم نہیں تھی کہ اگر بالفرض اس نے اپنے علم وہنرہی سے یہ سب کچھ حاصل کیا تو وہ علم وہنر کس کا دیا ہوا تھا؟ نیز یہ بات بھی اس نے نظر انداز کردی کہ اللہ تعالیٰ ایسے بہت سے انسانوں کو ہلاک کرچکا ہے، جو اس سے زیادہ مضبوط تھے، اور اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو مجرموں کے حالات کا پورا علم ہے، اس لئے اس کو حالات جاننے کے لئے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں آخرت میں ان سے جو سوالات ہوں گے وہ ان کا جرم خود ان پر ثابت کرنے کے لئے ہوں گے۔