Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

881یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر نیاز کے ذریعے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لئے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الا سباب طریقے سے پکارنا، ان سے استغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔ 882وجھہ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ 883یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔ 884تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو انکی بدیوں کی سزا دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢١] یہ وہ جملہ ہے کہ دعوت اسلام کا خلاصہ ہے۔ قرآن کریم کی اکثر سورتوں کا آغاز بھی شرک کی تردید اور توحید کی دعوت سے ہوتا ہے اور اختتام یعنی ایسی ہی آیات پر ہوتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا سب سے اہم موضوع یہی ہے۔- [١٢٢] جو چیز بھی مخلوق ہے وہ ضرور فنا ہونے والی ہے یہ فنا کب ہوگی۔ قیامت کو یہ اس سے بھی مدتوں بعد ؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے جس طرح اللہ خود مخلوق نہیں بلکہ ہر چیز کا خالق ہے اسی طرح اللہ کی صفات بھی مخلوق نہیں جیسے لوح محفوظ اور قلم جو کہ اللہ کی صفت علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا آٹھ چیزیں ایسی ہیں جو قیامت کو بھی فنا نہ ہوں گی۔ اللہ کا عرش اور کرسی، بہشت اور دوزخ، روح اور ریڑھ کی ہڈی کا نقطہ عجیب الذنب لوح محفوظ اور قلم۔ واللہ اعلم بالصواب - [١٢٣] چونکہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے لہذا کائنات کی ہر چیز ہر حکم بھی اس کا چلتا ہے۔ اور جنوں اور انسانوں میں بھی طبیعی امور میں اسی کا حکم چلتا ہے البتہ اختیاری امور میں بھی انھیں اللہ کے حکم کا پابند رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی میں ان کا بھلا ہے۔ رہا آخرت کو اللہ کی طرف لوٹنے کا حکم تو یہ اختیاری امر نہیں بلکہ اللہ کا ایسا حکم ہے جو ہو کر رہے گا۔ پھر اس دن حکم بھی صرف اسی کا چلے گا۔ اسی کی عدالت ہوگی اور اسی کے فیصلے نافذ ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ : یہ پانچواں حکم ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار۔ یہ پانچوں حکم ہر انسان کے لیے ہیں، مگر آپ کو مخاطب کرنے سے ایک تو آپ کے لیے ان احکام کی تاکید مراد ہے اور ایک یہ کہ سنایا آپ کو جا رہا ہے مگر خبردار دوسرے تمام لوگوں کو کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان احکام پر عمل کر ہی رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے آپ کو رسالت کے لیے چن لینے کے بعد آپ سے شرک کا امکان ہی نہیں تھا، جیسا کہ دوسری جگہ یہی بات بہت سخت لہجے میں کہی گئی ہے : (قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الزمر : ٦٤، ٦٥ ] ” کہہ دے پھر کیا تم مجھے غیر اللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی) عبادت کروں اے جاہلو اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔ “ مقصد یہ ہے کہ جب اس مسئلے میں کسی پیغمبر کے لیے کوئی رعایت نہیں تو کسی اور کے لیے کیا ہوگی۔- لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : یہ وہ جملہ ہے جو اسلام کی دعوت کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی اکثر سورتوں کا آغاز بھی شرک کی تردید اور توحید کی دعوت سے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔ یہاں اس دعوے کی تین دلیلیں بیان فرمائی ہیں۔- كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ : یہ اس بات کی پہلی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، کیونکہ وہی ہے جو دائم، باقی اور حی قیوم ہے۔ اس کے سوا سب کو مرنا ہے، سب فانی ہیں۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے : ( أَعُوْذُ بِعِزَّتِکَ الَّذِيْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ الَّذِيْ لاَ یَمُوْتُ ، وَالْجِنُّ وَالإِِْنْسُ یَمُوْتُوْنَ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و ھو العزیز الحکیم ) ۔۔ : ٧٣٨٣ ]” میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں، تُو وہ ہے کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور تو کبھی نہیں مرتا، جبکہ جن اور انسان مرجاتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : (كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ) [ الرحمٰن : ٢٦، ٢٧ ] ” ہر ایک جو اس ( زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا، جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔ “ اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَصْدَقُ کَلِمَۃٍ قَالَہَا الشَّاعِرُ کَلِمَۃُ لَبِیْدٍ : أَلاَ کُلُّ شَيْءٍ مَا خَلا اللّٰہَ بَاطِلٌ ) [ بخاري، مناقب الأنصار، باب أیام الجاہلیۃ : ٣٨٤١ ] ” سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی لبید کی بات ہے کہ سن لو اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔ “- لَهُ الْحُكْمُ : یہ اللہ تعالیٰ کے معبود واحد ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ کائنات میں اسی کا حکم جاری و ساری ہے، اس کے سوا ” کُنْ “ کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔- وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : یہ توحید کی تیسری دلیل ہے کہ تمام لوگوں کو اسی کے پاس واپس جانا اور اسی کے سامنے پیش ہونا ہے۔ دوسرے سب تو خود پیش ہونے والے ہیں، پھر وہ معبود کیسے بن گئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ، اس آیت میں وجھہ سے مراد ذات حق سبحانہ و تعالیٰ ہے اور معنے یہ ہیں ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک و فنا ہونے والی ہے اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ وجہہ سے مراد وہ عمل ہے جو خالص اللہ کے لئے کیا جائے، تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ جو عمل اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے ساتھ کیا جائے وہ ہی باقی رہنے والا ہے باقی سب فانی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- الحمد للہ سورة قصص آج 9 ذیقعدہ 1391 ھ کو ایسے حالات میں تمام ہوئی کہ پاکستان پر ہندوستان اور دوسری بڑی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے شدید حملہ ہوا اور چودہ روز کراچی پر روزانہ بمباری ہوتی رہی، شہری آبادی کو جا بجا سخت نقصان پہنچا، سینکڑوں مسلمان شہید اور مکانات منہدم ہوئے اور چودہ دن کی جنگ اس حادثہ جانکاہ پر ختم ہوئی کہ مشرقی پاکستان پاکستان سے کٹ گیا اور تقریباً نوے ہزار پاکستانی فوج نے وہاں محصور ہو کر ہتھیار ڈال دیئے اور اس وقت تک وہاں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، ہر مسلمان کا دل اس صدمہ سے پاش پاش اور دماغ ماؤف ہے، فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ والیہ المشتکی ولا ملجا ولا منجا من اللہ الا اللہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝ ٠ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۣ كُلُّ شَيْءٍ ہَالِكٌ اِلَّا وَجْہَہٗ۝ ٠ۭ لَہُ الْحُكْمُ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٨٨ۧ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- وجه ( ذات باري)- عبّر عن الذّات بالوجه في قول اللہ : وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] قيل : ذاته . وقیل : أراد بالوجه هاهنا التّوجّه إلى اللہ تعالیٰ بالأعمال الصالحة، وقال :- فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة 115] ، كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص 88] ، يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم 38] ، إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان 9] قيل : إنّ الوجه في كلّ هذا زائد، ويعنی بذلک : كلّ شيء هالك إلّا هو، وکذا في أخواته . وروي أنه قيل ذلک لأبي عبد اللہ بن الرّضا «1» ، فقال : سبحان اللہ لقد قالوا قولا عظیما، إنما عني الوجه الذي يؤتی منه «2» ، ومعناه : كلّ شيء من أعمال العباد هالک و باطل إلا ما أريد به الله، وعلی هذا الآیات الأخر، وعلی هذا قوله : يُرِيدُونَ وَجْهَهُ [ الكهف 28] ، تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم 39]- نیز ہر چیز کے اشرف حصہ اور مبدا پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے وھہ کذا اس کا اول حصہ ۔ وجھہ النھار دن کا اول حصہ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات ( بابرکت ) جو صاحب جلال و عظمت ہے ۔ باقی رہ جائے گی ۔ میں بعض نے وجہ سے ذات باری تعالیٰ مراد لی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وجھ ربک سے اعمال صالحہ مراد ہیں ۔ جن سے ذات باری تعالیٰ کی رجا جوئی مقصود ہوتی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة 115] تو جدھر تم رخ کروا ادھر اللہ کی ذات ہے ۔ كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص 88] اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم 38] جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں ۔ إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان 9] اور کہتے ہیں کہ ہم تو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں ۔ ان تمام آیات میں بعض نے کہا ہے کہ وجہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے لہذا آیت کل شئی ھالک کے معنی یہ ہیں کہ باستثنا ذات باری تعالیٰ ہر چیز نابود ہونے والی ہے ۔ اور اسی قسم کی دوسری آیات میں بھی یہی معنی ہیں ۔ مروی ہے کہ ابی عبد اللہ بن الر ضائے نے کہا ہے سبحان اللہ لوگ بہت بڑا کلمہ کہتے ہیں - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٨) اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی معبود کی عبادت نہ کرنا اور نہ مخلوق کو غیرہ اللہ کی طرف بلانا، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کی ذات کے سب چیزیں فانی ہیں یعنی جو کام بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نہ کیا جائے وہ ناپاک ہے اسی طرح اس کی بادشاہت اور سلطنت کے علاوہ اور تمام سلطنتیں فانی ہیں وہی مخلوق کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور مرنے کے بعد سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ٧ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَقف) ” - جیسے کہ پہلے بھی کئی بار اس نکتے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس نوعیت کے احکام میں اگرچہ صیغہ واحد میں خطاب بظاہر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوتا ہے لیکن حقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمام امت مخاطب ہوتی ہے۔- (کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ط) ” - کیا اللہ کا چہرہ بھی ہے ؟ اور اگر اس کے چہرے کو فنا نہیں ہے تو کیا اس کے کوئی اور اعضاء بھی ہیں جن کو فنا ہے ؟ معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ - یہ بہت اہم اور حساسّ مسئلہ ہے جس کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بتایا جا چکا ہے۔ یہاں پھر ذہن نشین کرلیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ عالم برزخ ‘ عالم غیب اور عالم آخرت جیسے موضوعات کے بارے میں آیات سے جس قدر مفہوم سمجھ میں آجائے اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسے معاملات میں اگر انسان عقل اور منطق کے سہارے ایک ایک کر کے قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا تو غلط راستے پر چل نکلے گا۔ حضرت ابوبکرصدیق (رض) کا قول ہے : العِجزُ عن درک الذّات ادراک کہ اللہ کی ذات کے بارے میں ادراک سے عجز ہی اصل ادراک ہے۔ یعنی جب انسان یہ سمجھ لے کہ میں اس کی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو بس یہی ادراک ہے اور یہی اللہ کی معرفت ہے۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکاتیب میں یہ الفاظ بار بار لکھے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس بارے میں کوئی تصور بنانا انسانی ذہن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ وَجْہَہٗسے کئی لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی بھی مراد لی ہے ‘ جیسے ہمارے ہاں جب یہ کہا جاتا ہے کہ میں یہ کام فلاں کے منہ کو کر رہا ہوں تو اس اس کا معنی ہوتا ہے کہ اس کی رضا جوئی کے لیے کر رہا ہوں۔ یعنی اس سے شخص کی ذات مراد ہوتی ہے نہ کہ صرف اس کا منہ یا چہرہ۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہرچیز فانی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 112 یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ فرمانروائی اسی کے لیے ہے ، یعنی اس کا حق رکھتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani