Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْعَنْکَبُوْت نام : آیت کے فقرے مَثَلُ الَّذِیْنَ التَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْ لِیَاءَ کَمَثَلِ العَنْکَبُوْتِ سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ ” عنکبوت “آیا ہے ۔ زمانہ نزول : آیات۵٦ تا ٦۰ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورة ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی ۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے ، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانے کے حالات جھلکتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے ، یہ قیاس قائم کر لیا کہ اس سورة کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورة مکی ہے ۔ حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کررہے تھے ، اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ ہی میں ہوسکتا تھا نہ کہ مدنیہ میں ۔ اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر کہ اس سورة میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دیا ہے ۔ حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے ۔ یہ تمام قیاسات دراصل کسی روات پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادت پر ان کی بنا رکھی گئی ہے ۔ اور یہ اندرونی شہادت ، اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے ، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی ۔ موضوع ومضمون : سورة کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا ۔ کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور و شور سے ہو رہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جارہے تھے ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورة ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لئے ، اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لئے نازل فرمائی ۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آرہے تھے ۔ مثلا ان کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو ۔ جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے ۔ تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے ۔ اس کا جواب آیت ۸ میں دیا گیا ہے ۔ اسی طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر ، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہوجاؤ ۔ اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب ، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں ، ان کو ہم نے ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا ، اس لئے آپ ہمیں پکڑلیں ۔ اس کا جواب آیات ١۲ ۔ ١۳ میں دیا گیا ہے ۔ جو قصے اس سورة میں بیان کئے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیاء کو دیکھو ، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے ۔ پھر آخر کار اللہ کی طرف سے اس کی مدد ہوئی ۔ اس لئے گھبراؤ نہیں ۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی ، مگر آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے ۔ مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں ۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمہارےسامنے ہیں ۔ دیکھ لو آخر کار ان کی شامت آکر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی ۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم تمہارے لئے ناقابل برداشت ہوجائے تو ایمان چھوڑنے کے بجائے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ ۔ خدا کی زمین وسیع ہے ۔ جہاں خدا کی بندگی کر سکو وہاں چلے جاؤ ۔ ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے ۔ توحید اور معاد ، دونوں حقیقتوں کو دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے ، شرک کا ابطال کیا گیا ہے ، اور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ تمہارے سامنے پیش کررہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

سورۃ عنکبوت تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی تھیں، بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جو جنت تیار فرمائی ہے وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہوجائے۔ ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں، اور آخرکار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہے گی، اور غلبہ اسلام اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا ہے کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو برباد کیا اور مظلوم مومنوں کو فتح عطا فرمائی۔ مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے، اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین و مزہب کے معاملے میں میں بھی ان کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ اس سورت کی آیت نمبر ٨ میں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے، لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ جن مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم و ستم ناقابل برداشت ہورہا تھا، ان کو اس سورت میں نہ صرف اجازت، بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو، اور اگر اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے۔ اس سورت کی آیات ١٢ و ١٣ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر ٤١ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کر رکھا ہو، اس لیے اس سورت کا نام سورۃ عنکبوت ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں انہتر آیتیں اور سات رکوع ہیں