حروف مقطعہ کی بحث سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں گزرچکی ہے ۔ امتحان اور مومن پھر فرماتا ہے یہ ناممکن ہے کہ مومنوں کو بھی امتحان سے چھوڑ دیا جائے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے پھر صالح نیک لوگوں کا پھر ان سے کم درجے والے پھر ان سے کم درجے والے ۔ انسان کا امتحان اس کے دین کے انداز پر ہوتا ہے اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے تو مصیبتیں بھی سخت نازل ہوتی ہیں ۔ اسی مضمون کا بیان اس آیت میں بھی ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16ۧ ) 9- التوبہ:16 ) کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے مجاہد کون ہے؟ اور صابر کون ہے؟ اسی طرح سورۃ برات اور سورہ بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم جنت میں یونہی چلے جاؤ گے؟ اور اگلے لوگوں جیسے سخت امتحان کے موقعے تم پر نہ آئیں گے ۔ جیسے کہ انہیں بھوک ، دکھ ، درد وغیرہ پہنچے ۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے؟ یقین مانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے ۔ یہاں بھی فرمایا ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی انہیں بھی سرد گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صڑف زبانی دعوے کرتے ہیں ان میں تمیز ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ اسے جانتا نہ تھا وہ ہر ہوچکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے ۔ اس پر اہل سنت والجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے ۔ پس یہاں علم رویت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لنعلم کے معنی لنری کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کا تعلق موجود چیزوں سے ہوتا ہے اور عم اس سے عام ہے ۔ پھر فرمایا ہے جو ایمان نہیں لائے وہ بھی یہ گمان نہ کریں کہ امتحان سے بچ جائیں گے بڑے بڑے عذاب اور سخت سزائیں ان کی تاک میں ہیں ۔ یہ ہاتھ سے نکل نہیں سکتے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ان کے یہ گمان نہایت برے ہیں جن کا برا نتیجہ یہ عنقریب دیکھ لیں گے ۔
الۗمّۗ: حروف مقطعات کی بحث سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔
خلاصہ تفسیر - الۗمّۗ، اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں، بعضے مسلمان جو کفار کی ایذاؤں سے گھبرا جاتے ہیں تو) کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے میں چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو (انواع مصائب سے) آزمایا نہ جائے گا، (یعنی ایسا نہ ہوگا بلکہ اس قسم کے امتحانات بھی پیش آئیں گے) اور ہم تو (ایسے ہی واقعات سے) ان لوگوں کو بھی آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے (مسلمان) ہو گذرے ہیں (یعنی اور امتوں کے مسلمانوں پر بھی یہ معاملے گذرے ہیں) سو (اسی طرح ان کی آزمائش بھی کی جائے گی اور اس آزمائش میں) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو (ظاہری علم سے) جان کر رہے گا جو (ایمان کے دعویٰ میں) سچے تھے، اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا (چنانچہ جو صدق و اعتقاد سے مسلمان ہوتے ہیں وہ ان امتحانات میں ثابت رہتے ہیں بلکہ اور زیادہ پختہ ہوجاتے ہیں اور جو دفع الوقتی کے لئے مسلمان ہوجاتے ہیں وہ ایسے وقت میں اسلام کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ یعنی یہ ایک حکمت ہے امتحان کی کیونکہ مخلص اور غیر مخلص کے خلط ملط میں بہت سی مضرتیں ہوتی ہیں، خصوص ابتدائی حالات میں یہ مضمون تو مسلمانوں کے متعلق ہوا آگے ان ایذا دینے والے کفار کی نسبت فرماتے ہیں کہ) ہاں کیا جو لوگ برے برے کام کر رہے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم سے کہیں نکل بھاگیں گے، ان کی یہ تجویز نہایت ہی بیہودہ ہے (یہ جملہ معترضہ کے طور پر تھا جس میں کفار کی بد انجامی سنا کر مسلمانوں کی ایک گونہ تسلی کردی کہ ان ایذاؤں کا ان سے بدلہ لیا جاوے گا، آگے پھر مسلمانوں کی طرف روئے سخن ہے کہ) جو شخص اللہ سے ملنے کی امید رکھتا ہو سو (اس کو تو ایسے ایسے حوادث سے پریشان ہونا ہی نہ چاہئے کیونکہ اللہ (کے ملنے) کا وہ معین وقت ضرور ہی آنے والا ہے (جس سے سارے غم غلط ہوجائیں گے۔ کقولہ تعالیٰ وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ) اور وہ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (نہ کوئی قول اس سے مخفی نہ کوئی فعل پس لقاء کے وقت تمہاری سب طاعات قولیہ و فعلیہ کا صلہ دے کر سب غم دور کر دے گا) اور (یاد رکھو کہ ہم جو تم کو ترغیب دے رہے ہیں مشقتوں کے برداشت کرنے کی سو اس میں ظاہر اور مسلم ہے کہ ہماری کوئی منفعت نہیں بلکہ) جو شخص محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لئے محنت کرتا ہے (ورنہ) اللہ تعالیٰ کو (تو) تمام جہان والوں میں کسی کی حاجت نہیں (اس میں بھی ترغیب ہے) تحمل مشاق کی کیونکہ اپنے نفع پر متنبہ ہونے سے وہ فعل زیادہ آسان ہوجاتا ہے) اور (وہ نفع جو اطاعت سے پہنچتا ہے اس کا بیان یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ہم ان کے گناہ ان سے دور کردیں گے (جس میں بعض گناہ جیسے کفر و شرک تو ایمان سے زائل ہوجاتے ہیں اور بعض گناہ توبہ سے کہ اعمال صالحہ میں داخل ہے اور بعضے گناہ صرف حسنات سے اور بعضے گناہ محض فضل سے معاف ہوجائیں گے اور کوئی گناہ بعد قدرے سزا کے، یہاں تکفیر سب کو عام ہے اور ان کو ان کے (ان) اعمال (ایمان و اعمال صالحہ) کا (استحقاق سے) زیادہ اچھا بدلہ دیں گے۔ (پس اتنی ترغیبات پر اطاعت اور مجاہدہ پر استقامت کا اہتمام ضروری ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الۗمّۗ ١ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ٢- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔
(١۔ ٢) اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے کیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان کی نجات اتنا کہنے پر ہوجائے گی کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو خواہشات اور بدعات اور ہتک محارم کے ذریعے آزمایا نہ جائے گا۔
سورة العنکبوت: نام: آیت 41 کے فقرہ مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ عنکبوت آیا ہے ۔ زمانہ نزول: آیات 56 تا 60 سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی ۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے ، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانہ کے حالات جھلکتے نظر آتے ہیں ، بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے ، یہ قیاس قائم کرلیا کہ اس سورۃ کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورۃ مکی ہے ، حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کر رہے تھے اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ ہی میں ہوسکتا تھا نہ کہ مدینہ میں ، اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر اس سورہ میں مسلمانوں کی ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دے دیا ہے ، حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے ، یہ تمام قیاسات دراصل کسی روایت پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادت پر ان کی بنا رکھی گئی ہے ، اور یہ اندرونی شہادت اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے ، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقعہ ہوئی تھی ۔ موضوع و مضمون: سورۃ کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا ، کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور شور سے ہورہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جارہے تھے ، ان حالات میں اللہ تعالی نے یہ سورۃ ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لیے اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لیے نازل فرمائی ۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آرہے تھے ۔ مثلا ان کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو ، جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے ، تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے ۔ اس کا جواب آیت 8 میں دیا گیا ہے ۔ اسی طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر ، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہوجاؤ ، اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب ، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں ، ان کو ہم نے ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا ، اس لیے آپ ہمیں پکڑ لیں ، اس کا جواب آیات 12 ۔ 13 میں دیا گیا ہے ۔ جو قصے اس سورے میں بیان کیے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیاء کو دیکھو ، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے ، پھر آخر کار اللہ تعالی کی طرف سے ان کی مدد ہوئی ، اس لیے گھبراؤ نہیں ، اللہ کی مدد ضرور آئے گی ، مگر آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے ، مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں ۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمہارے سامنے ہیں ، دیکھ لو کہ آخر کار ان کی شامت آکر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی ۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم تمہارے لیے ناقابل برداشت ہوجائے تو ایمان چھوڑنے کے بجائے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ ، خدا کی زمین وسیع ہے ، جہاں خدا کی بندگی کرسکو وہاں چلے جاؤ ۔ ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے ۔ توحید اور معاد ، دونوں حقیقتوں کو دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، شرک کا ابطال کیا گیا ہے اور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ۔