Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انھیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انھیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] یہ سورت اس زمانہ میں نازل ہوئی جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دل سے تو اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے مگر مصائب و مشکلات سے گھبرا کر اپنے ایمان کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ کچھ ایسے بھی مسلمان تھے جو اسلام لانے کی حد تک تو بہت مخلص تھے مگر مشکلات کے وقت گھبرا جاتے تھے اور مسلمانوں کا ایک کثیر طبقہ ایسا راسخ الایمان لوگوں کا بھی تھا جو ان مصائب کو اللہ کی رضا کی خاطر بڑی فراخدلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کر رہا تھا۔ اس آیت میں ہر طرح کے لوگوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ یہی مصائب و مشکلات ہی ان کے ایمان کی کسوٹی ہیں اور انہی سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص کس حد تک اپنے ایمان کے دعویٰ میں پختہ ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا ۔۔ : ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان بہت سخت حالات سے گزر رہے تھے، کفار نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ انسانی فطرت کے مطابق مسلمان کبھی کبھار مصیبتوں کی تاب نہ لا کر گھبرا جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حوصلہ دینے کے لیے فرمایا : ” کیا لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ “ یہ استفہام انکار کے لیے ہے، یعنی ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ آزمائش ضرور ہوگی، تاکہ سچے کو جھوٹے سے اور مخلص کو منافق سے جدا کردیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق آزمائش ایمان کے حساب سے ہوتی ہے، جتنا ایمان مضبوط ہو اتنی ہی آزمائش سخت ہوتی ہے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلْأَنْبِیَاءُ ، ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ ، فَالْأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ ، یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِیْنِہِ ، فَإِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ صَلاَبَۃٌ زِیْدَ فِي بَلاَءِہِ ، وَ إِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ رِقَّۃٌ خُفِّفَ عَنْہُ ، وَمَا یَزَالُ الْبَلَاء بالْعَبْدِ حَتّٰی یَمْشِيَ عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ لَیْسَ عَلَیْہِ خَطِیْءَۃٌ ) [ مسند أحمد : ١؍١٧٢، ح : ١٤٨٥۔ ترمذي : ٢٣٩٨، و صححہ الألباني ] ”(آزمائش میں سب سے سخت) انبیاء ہوتے ہیں، پھر صالحین، پھر لوگوں میں سے جو افضل ہو، پھر جو اس کے بعد افضل ہو، آدمی کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس کی آزمائش میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو تو اس سے تخفیف کی جاتی ہے اور آدمی کی آزمائش جاری رہتی ہے، حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔ “ - اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (١٤٢ اور ١٧٩) ، بقرہ (٢١٤) ، توبہ (١٦) اور سورة محمد (٣١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ، فتنہ سے مشتق ہے جس کے معنی آزمائش کے ہیں، اہل ایمان خصوصا انبیاء و صلحاء کو دنیا میں مختلف قسم کی آزمائشوں سے گذرنا ہوتا ہے پھر انجام کار فتح اور کامیابی ان کی ہوتی ہے، یہ آزمائشیں مخالفین کبھی کفار و فجار کی دشمنی اور ان کی طرف سے ایذاؤں کے ذریعہ ہوتی ہیں، جیسا کہ اکثر انبیاء اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب کو اکثر پیش آیا ہے، جس کے بیشمار واقعات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مذکورہ ہیں اور کبھی یہ آزمائش امراض اور دوسری قسم کی تکلیفوں کے ذریعہ ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو پیش آیا اور بعض کے لئے یہ سب قسمیں جمع بھی کردی جاتی ہیں۔- شان نزول اس آیت کا اگرچہ ازروئے روایات وہ صحابہ ہیں جو ہجرت مدینہ کے وقت کفار کے ہاتھوں ستائے گئے، مگر مراد عام ہے ہر زمانے کے علماء و صلحاء اور اولیاء امت کو مختلف قسم کی آزمائشیں پیش آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

شان نزول : ( آیت ) ”۔ احسب الناس “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور شعبی (رح) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ یہ آیت چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور انہوں نے اسلام کا اقرار کرلیا تھا تو ان کی طرف اصحاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ سے لکھا کہ تم سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ ہجرت نہ کرو چناچہ یہ لوگ مدینہ منورہ کے ارادہ سے نکلے تو مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور پھر ان کو واپس لے گئے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ان کو پھر لکھا کہ تمہارے بارے میں ایسا حکم نازل ہوا ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم ضرور ہجرت کے لیے نکلیں گے اگر ہمارا کوئی تعاقب کرے گا تو ہم اس سے لڑیں گے چناچہ یہ لوگ مکہ مکرمہ سے نکلے، مشرکین مکہ نے ان کا پیچھا کیا انہوں نے ان سے قتال کیا بعض لوگ ان میں سے مارے گئے اور بعض بچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ ”۔ ثم ان ربک للذین ھاجروا “۔ (الخ)- اور قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ( آیت) ” الم، احسب الناس “۔ (الخ) کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور وہاں سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کے ارادہ سے چلے، مشرکین نے ان کا سامنا کیا تو یہ واپس ہوگئے، ان کے مسلمان بھائیوں نے جو ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی تھی وہ ان کو لکھ بھیجی، چناچہ یہ وہاں سے پھر چلے تو جن کے حق میں قتل ہونا لکھا ہوا تھا وہ قتل ہوگئے اور جن کو بچنا تھا وہ بچ گئے، اس پر قرآن حکیم کی یہ آیت نازل ہوئی ”۔ والذین جاھدوا فینا “۔ (الخ) اور ابن سعد (رض) نے بواسطہ عبداللہ بن عبید ابن عمیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ( آیت) ” الم، احسب الناس “۔ (الخ) یہ آیت حضرت عمار بن یاسر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ وہ اللہ کی راہ میں تکالیف اٹھا رہے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ) ” - تمہیدی کلمات میں بیان کی گئی حضرت خباب (رض) کی روایت کا مضمون ذہن میں رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آیت صحابہ کرام (رض) کی مذکورہ شکایت کا جواب ہے۔ اس میں خفگی کا بالکل وہی انداز پایا جاتا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کی شکایت کے جواب میں اختیار فرمایا تھا۔ اہل ایمان کا ذکر عمومی انداز میں ( ” النَّاس “ کے لفظ سے ) فرمانا بھی ایک طرح سے عتاب اور ناراضی ہی کا ایک انداز ہے۔ بہر حال دین میں تحریکی و انقلابی جدوجہد کے حوالے سے یہ بہت اہم مضمون ہے جس کی مزید وضاحت مدنی سورتوں میں ملتی ہے۔ چناچہ سورة البقرۃ میں یہی مضمون مزید واضح انداز میں بیان ہوا ہے : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم پر وہ حالات و واقعات تو وارد ہوئے ہی نہیں جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں مسلط کردی گئی تھیں ‘ اور وہ ہلا مارے گئے تھے ‘ یہاں تک کہ (وقت کا) رسول ( علیہ السلام) اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد آگاہ رہو اللہ کی مدد قریب ہی ہے “۔ اس کے بعد سورة آل عمران میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں فرمائی گئی ہے : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ ) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں یونہی داخل ہوجاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون واقعتا (اللہ کی راہ میں) جہاد کرنے والے اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں “۔ اور پھر سورة التوبہ میں اس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃًط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنََ ) ” کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون ہیں جو واقعی جہاد کرنے والے ہیں ‘ اور جو نہیں رکھتے اللہ ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان کے علاوہ کسی کے ساتھ دلی راز داری کا کوئی تعلق ‘ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ - مندرجہ بالا چاروں آیات میں یہ مضمون جس انداز میں بیان ہوا ہے اس کی مثال ایک خوبصورت پودے اور اس پر کھلنے والے خوبصورت پھول کی سی ہے۔ زیر مطالعہ مکی آیت اس پودے کی گویا جڑ ہے جبکہ مذکورہ بالا تینوں مدنی آیات اس پر کھلنے والے پھول کی تین پتیاں ہیں۔ یہاں پر جن تین آیات کا حوالہ دیا گیا ہے (البقرۃ : ٢١٤ ‘ آل عمران : ١٤٢ اور التوبۃ : ١٦) ان میں یہ عجیب مماثلت قابل توجہ ہے کہ نہ صرف ان آیات کے الفاظ میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ ان میں سے ہر آیت کے نمبر شمار کا حاصل جمع ٧ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 1 جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا ، کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں ، کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی ، کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے ۔ ان حالات نے مکے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے ، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہوکر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا ، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خباب بن ارت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری ، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے ، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں ، میں نے حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے ، کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے ، خدا کی قسم یہ کام پورا ہوکر رہے گا ، یہں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضر موت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے ۔ اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالی اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں ، کوئی شخص مجرد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا ، بلکہ ہر مدعی کو لازما آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے ۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں ۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے ، ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی ، جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا ، طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی ، خطرات ، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا ، خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی ، ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو ، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے ، ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی ، تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا ۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوا ہے ، ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات ، بیرون خطرات اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہل ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا ، اس وقت فرمایا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ( البقرہ: آیت 214 ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے ( اہل ایمان ) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے ، یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، ( تب انہیں مژدہ سنایا گیا کہ ) خبردار رہو ، اللہ کی مدد قریب ہے ۔ اسی طرح جنگ احد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ۔ ( آل عمران: آیت 142 ) کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پامردی دکھانے والے کون ہیں؟ قریب قریب یہی مضمون سورہ آل عمران ، آیت 179 ، سورہ توبہ آیت 16 ، اور سورہ محمد آیت 31 میں بھی بیان ہوا ہے ۔ ان ارشادات سے اللہ تعالی نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے ، کھوٹا خودبخود اللہ تعالی کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور کھڑا چھانٹ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ کے ان انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صادق الایمان لوگوں کا ہی حصہ ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani