Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انھیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کردیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انھیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] حضرت خباب بن ارت کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ کے پاس آیا اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ سے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر سیدھے) بیٹھ گئے۔ آپ کا چہرہ (غصہ سے) سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا : تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان پر رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیئے جاتے مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ اور اللہ اپنے اس کام (غلبہ حق) کو ضرور پورا کرکے رہے گا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مالقی النبی و اصحابہ من المشرکین بمکۃ)- [٣] فلیعلمن سے ایک گمراہ فرقہ نے یہ عقیدہ اخذ کیا کہ جوں جوں واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ کو ان کا علم ہوتا جاتا ہے۔ اور اس عقیدہ کو وہ لوگ اپنی اصطلاح میں بدا کہتے ہیں۔ حالانکہ بیشمار آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اور اس میں ظہور پذیر ہونے والے تمام واقعات کا پہلے سے ہی علم ہے۔ اور اس کا یہ علم بھی اس کی ذات کی طرح ازلی ابدی ہے۔ اور اس آیت یا اس جیسی بعض دوسری آیات سے جو اللہ تعالیٰ کے حدوث علم کا وہم پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کی تقسیم صرف صرف ہم انسانوں کے لئے ہے اللہ تعالیٰ کے لئے زمانہ کی یہ تقسیم کوئی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ ہر واقعہ خواہ وہ ہمارے خیال کے مطابق زمانہ سے تعلق رکھتا ہو یا حال سے یا استقبال سے اس کے لئے غیب نہیں بلکہ شہادت ہی شہادت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مستقبل کی خبروں کو بیشمار مقامات پر زمانہ ماضی کے صیغہ میں ذکر فرمایا ہے۔ جیسے ( وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۭقَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ 44؀ۙ ) 7 ۔ الاعراف :44) یا جیسے ( اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۝۽) 81 ۔ التکوير :1) لیکن یہ ایسے واقعات کے متعلق ہوتا ہے جو انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہ آسکتے ہوں۔ اور جو انسانوں کے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتے ہوں تو ان کا تعلق یفیناً حال اور استقبال سے ہوگا۔ لہذا ایسے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہی نہیں ہوتا تاکہ ہم جان لیں یا معلوم کرلیں بلکہ یہ بھی ہوتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے یا اور بھی کئی مقامات پر ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے۔- اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فی الواقع ہر شخص کے متعلق پہلے سے علم ہے کہ فلاں شخص کیسے خصائل کا مالک ہے۔ لیکن محض اللہ اپنے علم کی بنا پر کسی کو جزا یا سزا نہیں دیتا جب تک فی الواقعہ وہ بات عملی صورت نہ اختیار کرلے۔ مثلاً یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت چوری کرے گا۔ لیکن اس علم پر سزا مترتب نہ ہوگی۔ جب تک فی الواقعہ وہ شخص چوری نہ کرلے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ انداز بیان اس وقت اختیار کرتے ہیں جب اس کا تعلق دوسرے لوگوں کے علم سے ہو۔ ایسی آیات میں علم کا ترجمہ مشاہدہ یا دیکھنے سے کیا جاسکتا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) اس کا معنی لِیُرِیَنَّ ہی کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)- اور اگر علم کا ترجمہ جاننے سے ہی کیا جائے تو اس جاننے میں اللہ کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شریک ہوں گے۔ اور بعض علماء نے ایسے مقامات پر لفظ علم کا ترجمہ جاننے کے بجائے جتلانے سے کیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ پیش آیا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت رہی ہے اور پہلے لوگوں کی بھی آزمائشیں ہوتی رہی ہیں، خباب بن ارت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے کہا : ( أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا ؟ أَلاَ تَدْعُوْ لَنَا ؟ فَقَالَ قَدْ کَانَ مَنْ قَبْلَکُمْ یُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَیُحْفَرُ لَہُ فِي الْأَرْضِ فَیُجْعَلُ فِیْہَا فَیُجَاء بالْمِنْشَارِ فَیُوْضَعُ عَلٰی رَأْسِہِ فَیُجْعَلُ نِصْفَیْنِ وَ یُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیْدِ مَا دُوْنَ لَحْمِہِ وَعَظْمِہِ فَمَا یَصُدُّہُ ذٰلِکَ عَنْ دِیْنِہِ ، وَاللّٰہِ لَیَتِمَّنَّ ہٰذَا الْأَمْرُ حَتّٰی یَسِیْرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلٰی حَضْرَ مَوْتَ لاَ یَخَافُ إِلاَّ اللّٰہَ وَالذِّءْبَ عَلٰی غَنَمِہِ وَ لٰکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُوْنَ ) [ بخاري، الإکراہ، باب من اختار الضرب و القتل و الھوان علی الکفر : ٦٩٤٣ ] ” کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے ؟ کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم سے پہلے لوگوں میں آدمی کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے زمین میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھا جاتا اور اسے دو حصوں میں چیر دیا جاتا اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں سے نوچ دیا جاتا اور یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں روکتی تھی۔ اللہ کی قسم یہ کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا، یا اسے اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا (خوف ہوگا) ، لیکن تم بہت جلدی کا مطالبہ کرتے ہو۔ “ - فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۔۔ : ” سو اللہ تعالیٰ ہر صورت ان لوگوں کو جان لے گا جنھوں نے سچ کہا “ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ ماضی، حال اور مستقبل کی ہر بات کو جانتا ہے، پھر اس کا کیا مطلب کہ وہ سچوں اور جھوٹوں کو جان لے گا۔ مفسر ابن کثیر نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں علم سے مراد وہ علم ہے جو دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے، عام علم تو ان چیزوں کا بھی ہوتا ہے جو وجود میں نہ آئی ہوں، مگر دیکھنے سے حاصل ہونے والا علم (یا یہ علم کہ کوئی چیز وجود میں آچکی ہے) کسی چیز کے وجود میں آنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٤٢) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا، یعنی ان امتحانات اور شدائد کے ذریعہ مخلص اور غیر مخلص اور نیک و بد میں ضرور امتیاز کریں گے۔ کیونکہ مخلصین کے ساتھ منافقین کا خلط ملط بعض اوقات بڑے نقصانات پہنچا دیتا ہے مقصد اس آیت کا نیک و بد اور مخلص و غیر مخلص کا امتیاز واضح کردینا ہے، جس کو اس طرح تعبیر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے گا صادقین کو اور کا ذبین کو، اللہ تعالیٰ کو تو ہر انسان کا صادق یا کاذب ہونا اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی معلوم ہے، امتحانات اور آزمائشوں کے جان لینے کے معنی یہ ہیں کہ اس امتیاز کو دوسروں پر بھی ظاہر فرما دیں گے۔- اور حضرت سیدی حکیم الامت تھانوی نے اپنے شیخ مولانا محمد یعقوب صاحب سے اس کی توجیہ یہ بھی نقل فرمائی ہے کہ بعض اوقات عوام کے درجہ علم پر تنزل کر کے بھی کلام کیا جاتا ہے، عام انسان مخلص اور منافقت میں فرق آزمائش ہی کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں ان کے مذاق کے مطابق حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مختلف قسم کے امتحانات کے ذریعہ ہم یہ جان کر رہیں گے کہ کون مخل ہے کون نہیں، حالانکہ اس کے علم میں یہ سب کچھ ازل سے ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۝ ٣- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - صدق وکذب - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔ الکذب - یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اور ہم تو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد ان چیزوں کے ذریعے سے ان لوگوں کو بھی آزما چکے ہیں جو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزرے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ممتاز کردے جو اپنے دعوے ایمانی میں سچے ہیں کہ وہ خواہشات اور بدعات سے بچ رہے ہیں اور جھوٹوں کو بھی دکھا جو ان چیزوں میں مبتلا ہو کر اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ) ” - ہم ان سے پہلے بھی ایمان کے ہر دعویدار کو آزماتے رہے ہیں اور آزمائش کے بغیر ہم کسی کے ایمان کو تسلیم نہیں کرتے۔- (فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ) ” - اگرچہ ان الفاظ کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ ” اللہ جان کر رہے گا “ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم قدیم سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اور وہ انسانوں کی نیتوں اور دلوں کے حالات سے بخوبی واقف ہے ‘ اس لیے یہاں اللہ کے ” جان لینے “ کا مفہوم دراصل یہی ہے کہ اللہ ظاہر کر دے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے وہ ممیز کر دے گا کہ کون منافق ہے اور کون سچا مؤمن کون ضعیف الایمان ہے اور کون قوئ الایمان کون سچا جاں نثار ہے اور کون محض دودھ پینے والا مجنوں ہے - یہاں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ گزشتہ دو آیات میں اگر خفگی کا اظہار ہے تو اگلی دو آیات میں اہل ایمان کی دلجوئی کا سامان بھی ہے۔ گویا ترہیب اور ترغیب ساتھ ساتھ ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شفیق استاد اپنے شاگرد کو ایک وقت میں ڈانٹ پلاتا ہے لیکن پھر اس کے بعد تھپکی دے کر اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ اس نکتے کو اس حدیث کے حوالے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اَلْخَلْقُ عَیَال اللّٰہِ ) (١) کہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ یعنی اللہ اپنی مخلوق اور خصوصاً اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ چناچہ اس محبت اور شفقت کی جھلک اگلی آیت میں صاف نظر آرہی ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 2 یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو ۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے ، اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری خصوصیت ہے کہ تمہیں صرف زبانی دعوے پر نواز دیا جائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 3 اصل الفاظ ہیں فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ جن کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے اس پر ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے ، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے ، عملا اس کا ظہور نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزا کا مستحق ہوسکتا ہے نہ سزا کا ۔ مثلا ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت ، ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملا ظہور نہ ہوجائے ، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے ۔ اس لیے وہ علم ساق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے پہلے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے ، انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے ، اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رجحان رکھتا ہے اور چوری کرے گا یا کرنے والا ہے ، بلکہ اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخس نے چوری کر ڈالی ہے ۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلی درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا ، بلکہ اس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کردیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھا دی ہے ، اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اگرچہ اللہ تعالیٰ کو شروع ہی سے معلوم ہے کہ کون فرماں بردار ہوگا، اور کون نافرمان، لیکن اللہ تعالیٰ اس ازلی علم کی بنیاد پر جزا وسزا کا فیصلہ کرنے کے بجائے لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ہدایت یا گمراہی کا راستہ خود چنیں، اور یہاں یہی دیکھنا مراد ہے کہ کس نے کونسا راستہ عملاً چنا ہے۔