Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔ 42یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگر ہم ان پر گرفت کرنا چاہیں تو یہ لوگ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی سرتوڑ مخالفانہ کوششوں اور سازشوں کے باوجود خود ہی ناکام رہیں گے اور غلبہ اسلام کی راہ روکنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گے، اور اگر وہ ایسا گمان کرتے ہیں کہ وہ یقینا کامیاب ہوجائیں گے تو یہ ان کی زبردست بھول اور غلط قسم کا فیصلہ ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں روئے سخن صرف کافروں کی طرف ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ اَنْ يَّسْبِقُوْنَا ۔۔ : اگرچہ ” الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ “ (جو لوگ برے کام کرتے ہیں) کے الفاظ عام ہیں، جن میں مومن و کافر دونوں آجاتے ہیں، مگر یہاں مراد کافر ہیں۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” پہلی دو آیتیں مسلمانوں کے متعلق تھیں جو کافروں کی ایذاؤں میں گرفتار تھے اور یہ آیت کافروں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو ستا رہے تھے۔ “ (موضح) یعنی ایمان والوں کی آزمائشوں اور امتحانات کو دیکھ کر کیا کافروں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہیں آئیں گے ؟ اگر انھوں نے عارضی مہلت سے یہ رائے قائم کرلی ہے کہ ہم ہمیشہ مزے میں رہیں گے، کبھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ نہیں آئیں گے، تو انھوں نے بہت بری رائے قائم کرلی ہے، کیونکہ مومنوں کی آزمائش تو ایک وقت تک ہے اور ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہے، جب کہ کفار کے لیے شدید عذاب تیار ہے جو مومنوں کی آزمائش کی طرح چند روزہ نہیں بلکہ دائمی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ اَنْ يَّسْبِقُوْنَا۝ ٠ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ۝ ٤- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - ساء - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال :- سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما - [ الأعراف 20] .- ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) اگلی آیت ابوجہل، ولید بن مغیرہ، عتبہ شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ لوگ بدر کے دن حضرت علی (رض) ، حضرت حمزہ (رض) ، اور حضرت عبیدہ بن الحارث (رض) کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے اور ایک دوسرے پر فخر کیا تھا، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا جو لوگ کفر و شرک میں مست ہیں وہ کہیں ہمارے عذاب سے چھوٹ جائیں گے ان کا اپنے بارے میں یہ خیال اور اپنے متعلق ان کی یہ تجویز نہایت ہی بری ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاط سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ ) ” - اس جملے کی روح کو سمجھنے کے لیے مکہ مکرمہ کے ماحول اور اس میں اہل ایمان کی دل دہلا دینے والی مظلومیت کے مناظر ایک دفعہ پھر اپنے تصور میں لائیے ‘ جہاں ابوجہل کو کھلی چھوٹ تھی کہ وہ حضرت یاسر اور حضرت سمیہ (رض) کو جس طرح چاہے بربریت کا نشانہ بنائے۔ اُمیہ بن خلف مالک و مختار تھا حضرت بلال (رض) کی قسمت کا کہ ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے۔ انہیں مار پیٹ کر لہو لہان کر دے اور گرم ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دے یا گلے میں رسیّ ڈال کر مردہ جانوروں کی طرح مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتا پھرے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کا مفہوم یوں ہوگا کہ کیا بربریت کا یہ بازار گرم کرنے والے درندوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ؟ کیا ابوجہل اور امیہ بن خلف کو خوش فہمی ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ جائیں گے ؟ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ہوگا انہیں اس سب کچھ کا حساب دینا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب بہت جلد یہ پانسہ پلٹ جائے گا اور انہیں لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ چناچہ چند ہی سال بعد غزوۂ بدر میں کفر اور ظلم کے بڑے بڑے علم برداروں کا حساب چکا دیا گیا۔ میدان بدر میں ہی امیہ بن خلف کو بھی مکافات عمل کے بےرحم شکنجے میں جکڑ کر حضرت بلال (رض) کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔ اس وقت اگرچہ حضرت عبدالرحمن (رض) بن عوف نے کوشش بھی کی کہ وہ امیہ کو قتل ہونے سے بچالیں اور اسے قیدی بنالیں لیکن حضرت بلال (رض) نے اسے جہنم رسید کر کے ہی چھوڑا : (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ ) ( البروج) ” بلاشبہ آپ کے رب کی گرفت بہت سخت ہے “ دراصل مکہ میں بارہ سال تک ایک خاص حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو ہاتھ باندھے رکھنے ‘ ہر طرح کا ظلم برداشت کرنے اور استطاعت کے باوجود بھی بدلہ نہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا تحریک کے اس مرحلے میں انہیں ظلم سہنے اور سخت سے سخت حالات میں عزم و استقلال کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی تربیت کے عمل سے گزارا جارہا تھا۔ اور ان خطوط پر مکمل تربیت اور تیاری سے قبل انہیں عملی طور پر تصادم کا میدان گرم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ حکمت عملی دراصل تحریکی و انقلابی جدوجہد کے فلسفے کا ایک اہم اور لازمی اصول ہے۔ علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے : - نالہ ہے بلبل شور یدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی - بعد میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق سورة الحج کی آیت ٣٩ کے اس حکم کے تحت اہل ایمان کے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دیے گئے : (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا ط) ” اب اجازت دی جا رہی ہے (قتال کی) ان لوگوں کو جن پر جنگ مسلط کردی گئی ہے ‘ اس لیے کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 4 اس سے مراد اگرچہ تمام وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالی کی نافرمانیاں کرتے ہیں لیکن یہاں خاص طور روئے سخن قریش کے ان ظالم سرداروں کی طرف ہے جو اسلام کی مخالفت میں اور اسلام قبول کرنے والوں کو اذیتیں دینے میں اس وقت پیش پیش تھے ، مثلا ولید بن مغیرہ ، ابو جہل ، عتبہ ، شیبہ ، عقبہ بن ابی معیط اور حنظلہ بن وائل وغیرہ ۔ سیاق و سباق خود یہاں تقاضا کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو آزمائشوں کے مقابلے میں صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد ایک کلمہ زجر و توبیخ ان لوگوں کو خطاب کر کے بھی فرمایا جائے جو ان حق پرستوں پر ظلم ڈھا رہے تھے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 5 یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ سکیں گے اصل الفاظ ہیں يَّسْبِقُوْنَا یعنی ہم سے سبقت لے جائیں گے ، اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں ( یعنی اپنے رسول کے مشن کی کامیابی ) وہ تو نہ ہوسکے اور جو کچھ یہ چاہتے ہیں ( یعنی ہمارے رسول کو نیچا دکھانا ) وہ ہو جائے ، دوسرا یہ کہ ہم ان کی زیادتیوں پر انہیں پکڑنا چاہتے ہوں اور یہ بھاگ کر ہماری دسترس سے دور نکل جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani