نیکیوں کی کوشش جنہیں آخرت کے بدلوں کی امید ہے اور اسے سامنے رکھ کر وہ نیکیاں کرتے ہیں ۔ ان کی امیدیں پوری ہونگی اور انہیں نہ ختم ہونے والے ثواب ملیں گے ۔ اللہ دعاؤں کا سننے والا اور کل کائنات کا جاننے والا ہے اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت ٹلتا نہیں ۔ پھر فرماتا ہے ہر نیک عمل کرنے والا اپنا ہی نفع کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال سے بےپرواہ ہے ۔ اگر سارے انسان متقی بن جائیں تو اللہ کی سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں جہاد تلوار چلانے کاہی نام نہیں ۔ انسان نیکیوں کی کوشش میں لگا ہے یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تمہاری نیکیاں اللہ کے کسی کام نہیں آتیں لیکن بہر حال اس کی یہ مہربانی کہ وہ تمہیں نیکیوں پر بدلے دیتا ہے ۔ انکی وجہ سے تمہاری برائیں معاف فرمادیتا ہے ۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی قدر کرتا ہے اور اس پر بڑے سے بڑا اجر دیتا ہے ایک ایک نیکی کا سات سات سوگنا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بدی کو یا تو بالکل ہی معاف فرمادیتا ہے یا اسی کے برابر سزا دیتا ہے ۔ وہ ظلم سے پاک ہے ، گناہوں سے درگزر کرلیتا ہے اور ان کے اچھے اعمال کا بدل عطا فرماتا ہے ۔
5 1یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر وثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقینا برپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہوگی۔ 5 2وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اسکے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقینا دے گا۔
[ ٥] اور جو لوگ دین اسلام کی سربلندی کے لئے ہر طرح کے مصائب و مشکلات بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں اس توقع پر کہ موت کے بعد یفیناً انھیں ان باتوں کا اجر ملنے والا ہے تو انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی موت کا وقت آنے ہی والا ہے۔ دنیا کی زندگی بس چند روزہ زندگی ہے۔ اس کے بعد یقینا ان کی اللہ سے ملاقات ہوگی اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ کیونکہ ان کے تمام اعمال و اقوال اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ ۔۔ : اس آیت میں ایمان والوں کے لیے خوش خبری ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے وہ اس چند روزہ آزمائش پر صبر کرنے اور زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کرے، تو اس کی امید ضرور پوری ہوگی، کیونکہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آنے والا ہے اور وہ بندے کی دعا کو اور اس کے عمل کو بلکہ کائنات کی ہر آواز اور ہر کام کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ قرآن مجید میں دو قسم کے لوگ بیان ہوئے ہیں، ایک وہ جو قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید رکھتے ہیں، ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور سورة کہف کی آخری آیت میں بھی، فرمایا : (فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا) [ الکہف : ١١٠ ] ” پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ “ دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید اور اس کا شوق رکھنے والے کو خوش خبری ہو کہ اس کی امید ضرور پوری ہوگی اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو وقت مقرر کر رکھا ہے وہ ضرور آنے والا ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اس وقت سے پہلے ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اخلاص کے ساتھ اپنے رب کو راضی کرنے والے صالح اعمال کرلے۔ عبادہ بن صامت (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہُ ، وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہُ ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہِ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ ، قَالَ لَیْسَ ذَاکَ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہُ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہُ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَ عُقُوْبَتِہِ فَلَیْسَ شَيْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہُ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہُ ) [ بخاري، الرقاق، باب من أحب لقاء اللہ أحب اللہ لقاء ہ : ٦٥٠٧ ] ” جو شخص اللہ کی ملاقات محبوب رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات ناپسند کرتا ہے۔ “ اس پر عائشہ (رض) یا آپ کی کسی اور بیوی نے کہا : ” ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ بات نہیں، بلکہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی اور اس کے باعزت ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اسے اس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی جو اس کے آگے آنے والی ہے اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی سزا کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اسے اس سے زیادہ ناپسندیدہ چیز کوئی نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات ناپسند کرتا ہے۔ “ عمار بن یاسر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوئی دعا نماز میں پڑھی، جس میں اللہ تعالیٰ سے کئی چیزیں مانگی گئی ہیں، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں : ( وَ أَسْأَلُکَ لَذَّۃَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ إِلٰی لِقَاءِکَ فِيْ غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّۃٍ وَلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ ) [ نساءي، السھو، نوع آخر : ١٣٠٦ ]”(اے اللہ ) اور میں تجھ سے تیرے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا اور تیری ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں، کسی تکلیف کے بغیر جو نقصان پہنچانے والی ہے اور کسی فتنے کے بغیر جو گمراہ کرنے والا ہے۔ “ - لوگوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی نہ امید رکھتا ہے نہ شوق، ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِهَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) [ یونس : ٧، ٨ ] ” بیشک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کمایا کرتے تھے۔ “
مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللہِ لَاٰتٍ ٠ۭ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٥- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔
(٥) جو شخص بعث بعد الموت سے ڈرتا ہے تو بعث بعد الموت ضرور ہو کر رہے گی وہ بدر کے دن کی ان دونوں جماعتوں کی سب باتوں کو سننے والا اور جو کچھ ان کو پیش آئے گا سب کا جاننے والا ہے۔
آیت ٥ (مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآء اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ط) ” - یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک بندۂ مؤمن دنیا میں اپنا تن من دھن اس کی راہ میں کھپا دے گا تو اس کی اس قربانی کا صلہ اسے آخرت کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔ لیکن اللہ کا یہ وعدہ بہر حال ادھار کا وعدہ ہے۔ دوسری طرف دنیا کے ظاہری معاملات کو دیکھتے ہوئے انسان ” نو نقد نہ تیرہ ادھار “ کے اصول پر زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ انسان کی اسی کمزوری سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اس کے یقین کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں حضرت بلال ‘ حضرت ابو فکیہہ اور حضرت خباب جیسے صحابہ (رض) اور ان کی قائم کردہ مثالوں کی قیامت تک کے لیے پیروی کرنے والے جاں نثاروں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اے شمع توحید کے پروانو شیطان تمہارے دلوں میں کسی قسم کا وسوسہ پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے ‘ تم اطمینان رکھو تمہارے ساتھ کیے گئے اللہ کے تمام وعدے ضرور پورے ہوں گے اور آخرت کا وہ دن ضرور آکر رہے گا جس دن تمہاری تمام قربانیوں کا بھر پور صلہ تمہیں دیا جائے گا۔- (وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) ” - وہ تمہارے حالات سے بخوبی آگاہ ہے ‘ تمہاری کوئی تکلیف اور کوئی قربانی اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے ‘۔۔ اب اگلی آیت میں پھر سرزنش کا انداز ہے :
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 6 یعنی جو شخص حیات اخروی کا قائل ہی نہ ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی نہیں ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں آنا ہے جب ہم سے ہمارے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے ، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے ۔ وہ اپنی غفلت میں پڑا رہے اور بے فکری کے ساتھ جو کچھ چاہے کرتا رہے ۔ اپنا نتیجہ اپنے اندازوں کے خلاف وہ خود دیکھ لے گا ۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی پانی ہے ، انہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے ۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہے آلگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتی ہے ۔ اس لیے جو کچھ بھی وہ اپنی عاقبت کی بھلائی کے لیے کرسکتے ہوں کرلیں ۔ طویل حیات کے بے بنیاد بھروسے پر اپنی اصلاح میں دیر نہ لگائیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 7 یعنی ان کو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا چاہیے کہ ان کا سابقہ کسی شہ بے خبر سے ہے ، جس خدا کے سامنے انہیں جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے وہ بے خبر نہیں بلکہ سمیع و علیم خدا ہے ، ان کی کوئی بات بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔