Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بےنیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہوگا اور سب نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہوگی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] جہاد بمعنی کسی انسان کی مقدور بھر کوشش جو اسلام کے نفاذ اور اس کی سربلندی کے لئے کی جائے۔ پھر اس جہاد کی اقسام بھی متعدد ہیں اور محاذ بھی متعدد ہیں۔ اقسام سے مراد مثلاً زبان سے جہاد ایک دوسرے کو سمجھانا اور تلقین کرنا یا تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کرنا اور قلم سے جہاد یعنی اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا جواب لکھنا اور پھر اس کے بعد اجتماعی جہاد یا جہاد بالسیف یا قتال فی سبیل اللہ ہے۔ اور جہاد کا سب سے پہلا محاذ انسان کا اپنا نفس ہے۔ پھر اس کے بعد عزیزواقارب پھر اس کے بعد پورا معاشرہ ہے۔ اور آخری محاذ قتال فی سبیل اللہ یعنی ان کافروں نے جنگ کرنا ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہوں یا اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہوں۔- جہاد اگر نفس سے کیا جائے گا تو جہاد کرنے والے کی اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوگی اگر اجتماعی جہاد اپنے معاشرہ سے کیا جائے گا تو پورا معاشرہ بےحیائیوں سے اور ظلم و جور سے پاک ہوگا اور اگر جہاد بالسیف کیا جائے گا تو اس سے مسلمانوں کو سیاسی فائدے حاصل ہوں گے۔ جس قسم کا بھی جہاد کیا جائے گا، بالآخر اس کا فائدہ جہاد کرنے والے کی ذات کو ہی پہنچے گا۔- [ ٧] یعنی جہاد کرنے والا اگر جہاد نہ کرے تو اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر جہاد کرتا ہے تو بھی اللہ کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اللہ کی بےنیازی کا تو یہ عالم ہے کہ اللہ فرماتے ہیں اے میرے بندو اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح بن جاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہیں ہوگا اور اے میرے بندو اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح ہوجاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ میرا نافرمان اور بدکار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی کمی واقع نہ ہوگا (مسلم۔ کتاب البروالصلہ۔ باب تحریم القلم)- پھر یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی سربلندی کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو اس ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اللہ پر کچھ احسان کر رہا ہے بلکہ اسے اللہ کا ممنون احسان ہونا چاہئے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسے جہاد کی توفیق بخشی جس میں ہر پہلو سے اس کا اپنا ہی بھلا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی سرکاری افسر ایک شخص کو اپنے ماتحت ملازم رکھ لیتا ہے تو ملاسم کو اس افسر کا ممنون احسان ہونا چاہئے۔ چہ جائیکہ ملازم یہ کہنا شروع کردے کہ میں نے ملازم ہو کر افسر پر احسان کیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ : ” جَھَدَ یَجْھَدُ “ کا معنی کوشش کرنا ہے اور ” جاھد “ (مفاعلہ) میں مقابلے کا مفہوم بھی ہے اور مبالغے کا بھی، یعنی کسی کے مقابلے میں پوری کوشش لگا دینا۔ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر کاربند رہنے کے لیے بہت سی چیزوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے اپنے نفس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو ہر وقت اسے اپنی خواہش کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے، شیطان کا بھی جس نے اس کی دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے اور اپنے گھر سے لے کر تمام دنیا کے ان انسانوں کا بھی جو اسے راہ حق سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسے اس کوشش میں لڑائی بھی کرنا پڑتی ہے، جس میں وہ دشمن کو قتل کرتا ہے اور خود بھی قتل ہوجاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاد کا لفظ اکثر اسی معنی میں آیا ہے۔ سب سے اونچا درجہ اس کا وہ ہے، جب وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر قربان ہوجاتا ہے۔ عبداللہ بن حُبْشی (رض) بیان کرتے ہیں (لمبی حدیث ہے) : ( قِیْلَ فَأَيُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ مَنْ جَاہَدَ الْمُشْرِکِیْنَ بِمَالِہِ ، وَنَفْسِہِ ، قِیْلَ فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ ؟ قَالَ مَنْ أُہْرِیْقَ دَمُہُ ، وَعُقِرَ جَوَادُہُ ) [ مسند أحمد : ٣؍٤١١، ٤١٢، ح : ١٥٤٠٧، قال محقق المسند إسنادہ قوي۔ أبوداوٗد : ١٤٤٩، قال الألباني صحیح ]”(نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) سوال کیا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو مشرکین کے ساتھ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے۔ “ پوچھا گیا : ” پھر کون سا قتل سب سے اونچی شان والا ہے ؟ “ فرمایا : ” جس کا خون بہا دیا جائے اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا جائے۔ “ - 3 فرمایا، جو شخص اپنے نفس یا شیطان یا کسی بھی دشمن کے مقابلے میں اپنی آخری کوشش لگا دیتا ہے اس کا فائدہ خود اس کو ہے، اللہ تعالیٰ کو نہ کسی کی عبادت سے کوئی فائدہ ہے نہ کسی کے گناہ سے کوئی نقصان، بلکہ اگر کسی کو توفیق ملی ہے تو اسے مزید اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورة حم السجدہ کی آیت (٤٦) : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) ” جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی۔ “ اور سورة بنی اسرائیل کی آیت (٧) : (اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا)” اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانوں کے لیے بھلائی کی اور اگر برائی کی تو انھی کے لیے۔ “- اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ : ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب تعالیٰ سے بیان کیا، لمبی حدیث ہے، اس میں ہے : ( یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذٰلِکَ فِيْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِيْ شَیْءًا ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٧٧ ] ” اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے انسان اور تمہارے جنّ سب تم میں سے ایک ایسے آدمی جیسے ہوجائیں جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوگا اور اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے انسان اور تمہارے جنّ سب تم میں سے ایک ایسے آدمی جیسے ہوجائیں جو تم میں سے سب سے زیادہ فاجر ہے تو اس سے میری بادشاہت میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوگا۔ “- 3 مفسر رازی نے فرمایا، اس آیت میں خوش خبری بھی ہے اور ڈرانا بھی۔ ڈرانا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جب سارے جہانوں سے غنی ہے تو اگر وہ تمام بندوں کو اپنے عذاب کے ساتھ ہلاک کر دے تو کوئی اسے پوچھنے والا نہیں اور خوش خبری اس لیے کہ اس نے جو کچھ پیدا کیا ہے اپنے بندوں میں سے کسی ایک بندے کو دے دے تو اس کا کچھ کم نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں سے کسی چیز کی اسے تو ضرورت نہیں، وہ سارے جہانوں سے بےپروا ہے، پھر ” کُنْ “ کہہ کر وہ جتنا چاہے اور پیدا کرسکتا ہے، یہ بات بہت امید دلانے والی اور بہت بڑی خوش خبری ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا يُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٦- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع .- وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» .- ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦) اب یہ آیت خاص حضرت علی (رض) اور ان کے دونوں ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ بدر کے دن جو اللہ کے رستہ میں جہاد کر رہا ہے اس کا ثواب اسی کو ملے گا اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں کے جہاد سے غنی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ) ” - دیکھو تم میں سے جو کوئی اللہ کی راہ میں جدوجہد کر رہا ہے ‘ اس کے لیے تکلیفیں اٹھا رہا ہے اور ایثار کر رہا ہے تو یہ سب کچھ وہ اپنے لیے کر رہا ہے ‘ اس کا فائدہ بھی اسی کو ملنے والا ہے۔ وہ اپنے ان اعمال کا اللہ پر احسان نہ دھرے۔ اللہ کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ ان چیزوں سے بہت بلند اور بےنیاز ہے۔ سورة الحجرات میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْاط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْج بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان مت دھرو ‘ بلکہ یہ تو تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ‘ اگر تم (اپنے ایمان کے دعوے میں) سچے ہو۔ “ ؂ منتّ منہَ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منتّ شناس ازو کہ بخدمت بدا شتت - یعنی تم بادشاہ پر احسان مت دھرو کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو ‘ بلکہ تم اس سلسلے میں بادشاہ کا احسان پہچانو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے۔- نوٹ کیجیے ان آیات کے مندرجات انسانی دل و دماغ کے احساسات و خیالات سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں ۔۔ اب اگلی آیت میں پھر دلجوئی کا انداز ہے۔ گویا پہلے رکوع میں ترہیب کا رنگ بھی ہے اور ترغیب کا انداز بھی اور یہ دونوں مضامین پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں۔ آغاز سرزنش سے ہوا تھا ‘ پھر دلجوئی فرمائی گئی ‘ اس کے بعد پھر سرزنش اور اب پھر دلجوئی :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 8 مجاہدہ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کش مکش اور جدوجہد کرنے کے ہیں ، اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقا مجاہدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے ، مومن کو اس دنیا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے ۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے ۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے ۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے ان تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات ، رجحانات ، اصول اخلاق ، رسم و رواج ، طرز تمدن اور قوانین معیشت و معاشرت دین حق سے متصادم ہوں ۔ اور اس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے ، یہ مجاہدہ ایک دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا ، اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کا ہے ۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں ، زندگی کے ہر پہلو میں ہر محاذ پرہے ۔ اسی کے متعلق حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ان الرجل لیجاھد و ما ضرب یوما من الدھر بسیف آدمی جہاد کرتا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 9 یعنی اللہ تعالی اس مجاہدہ کا مطالبہ تم سے اس لیے نہیں کر رہا ہے کہ اپنی خدائی قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اسے تمہاری کسی مدد کی ضرورت ہے اور تمہاری اس لڑائی کے بغیر اس کی خدائی نہ چلے گی ۔ بلکہ وہ اس لیے تمہیں اس کش مکش میں پڑنے کی ہدایت کرتا ہے کہ یہی تمہاری ترقی کا راستہ ہے ۔ اسی ذریعہ سے تم بدیا ور گمراہی کے چکر سے نکل کر نیکی اور صداقت کی راہ پر بڑھ سکتے ہو ۔ اسی سے تم میں یہ طاقت پیدا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں خیر و صلاح کے علمبردار اور آخرت میں خدا کی جنت کے حق دار بنو ۔ تم یہ لڑائی لڑ کر خدا پر کوئی احسان نہ کرو گے ۔ اپنا ہی بھلا کروگے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اس میں دین کے راستے میں کی ہوئی ہر محنت داخل ہے، چاہے وہ نفس اور شیطان کا مقابلہ کرنے کی محنت ہو یا تبلیغ ودعوت کی محنت یا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کی محنت۔