Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تمام نشانیاں دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ تھے پھر اللہ نے پیدا کردیا تاہم مر کر جینے کے قائل نہیں حالانکہ اس پر کسی دلیل کی ضروت نہیں کہ جو ابتداءاً پیدا کرسکتا ہے اس پر دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان ہے ۔ پھر انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ زمین اور نشانیوں پر غور کرو ۔ آسمانوں کو ستاروں کو زمینوں کو پہاڑوں کو درختوں کو جنگلوں کو نہروں کو دریاؤں کو سمندروں کو پھلوں کو کھیتوں کو دیکھو تو سہی کہ یہ سب کچھ نہ تھا پھر اللہ نے سب کچھ کردیا کیا یہ تمام نشانیاں اللہ کی قدرت کو تم پر ظاہر نہیں کرتیں؟ تم نہیں دیکھتے کہ اتنا بڑا صانع وقدیر اللہ کیا کچھ نہیں کرسکتا ؟ وہ تو صرف ہوجا کے کہنے سے تمام کو رچا دیتا ہے وہ خود مختار ہے اسے اسباب اور سامان کی ضرورت نہیں ۔ اسی مضمون کو اور جگہ فرمایا کہ وہی نئی پیدائش میں پیدا کرتا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت آسان ہے ۔ پھر فرمایا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے ابتدائی پیدائش کس طرح کی تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ قیامت کے دن کی دوسری پیدائش کی کیا کیفیت ہوگی ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جیسے فرمایا ہم انہیں دنیا کے ہر حصے میں اور خود ان کی اپنی جانوں میں اپنی نشانیاں اس قدر دکھائیں گے کہ ان پر حق ظاہر ہوجائے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ 35؀ۭ ) 52- الطور:35 ) کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے یا وہی اپنے خالق ہیں؟ یا وہ آسمان وزمین کے خالق ہیں ؟ کچھ نہیں بےیقین لوگ ہیں ۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ جسے چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے وہ حاکم ہے قبضے والاہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے جاری کردیتا ہے ۔ کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا کوئی اس کے ارادے کو بدل نہیں سکتا ۔ کوئی اس سے چوں چرا نہیں کرسکتا کوئی اس سے سوال نہیں کرسکتا اور وہ سب پر غالب ہے ۔ جس سے چاہے پوچھ بیٹھے سب اس کے قبضے میں اس کی ماتحتی میں ہیں ۔ خلق کا خالق امر کا مالک وہی ہے ۔ اس نے جو کچھ کیا سراسر عدل ہے اس لیے کہ وہی مالک ہے وہ ظلم سے پاک ہے ۔ حدیث شریف میں ہے اگر اللہ تعالیٰ ساتوں آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب کرے تب بھی وہ ظالم نہیں ۔ عذاب رحم سب اس کی چیزیں ہیں ۔ سب کے سب قیامت کے دن اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اسی کے سامنے حاضر ہو کر پیش ہونگے ۔ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی اسے ہرا نہیں سکتا ۔ بلکہ سب پر وہی غالب ہے ۔ ہر ایک اس سے کانپ رہا ہے سب اس کے درد کے فقیر ہیں اور سب سے غنی ہے ۔ تمہارا کوئی ولی اور مددگار اس کے سوا نہیں ۔ اللہ کی آیتوں سے کفر کرنے والے اس کی ملاقات کو نہ ماننے والے اللہ کی رحمت سے محروم ہیں اور ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک الم افزا عذاب ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191توحید اور رسالت کے اثبات کے بعد یہاں معاد (آخرت) کا اثبات کیا جا رہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مر کر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام و نشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ 192یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣١] اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کارنامے لاتعداد ہیں۔ زمین پر بسنے والے جانداروں کی دس لاکھ انواع کا تاحل پتہ چل چکا ہے۔ آئندہ کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر نوع کی تخلیق جداگانہ ہے۔ اب مثلاً ہم ایک نوع انسان ہی کو لیتے ہیں اس لئے کہ اس کے متعلق زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی سے اس کا پتلا اپنے ہاتھ سے بنایا۔ اس وقت وہ مردہ تھا۔ اس میں روح پھونکی تو زندہ ہوگیا۔ پھر اس کی نسلی توالد و تناسل سے چلی۔ انسان نے زمین سے حاصل ہونے والی غذائیں کھائیں یہ غذائین مردہ اور بےجان تھیں۔ انھیں سے مرد میں منی بن گئی جس میں لاتعداد جرثومے ہوتے ہین۔ یہی منی مادہ کے رحم میں پہنچتی تو اس کے مادہ سے مل کر نطفہ بنی، نطفہ سے عقلقہ، علقہ سے مقنہ یعنی گوشت کا لوتھڑا بنی۔ اب تک یہ سب کچھ مردہ اور بےحرکت تھا۔ بعد میں اللہ نے اس لوتھڑے کو روح عطا کی تو یہ لوتھڑا جاندار اور متحرک بن گیا۔ اب انسان کی شکل و صورت کی باری آئی۔ رحم مادر میں اتنے خلیے ( ) ہوتے ہیں جن کی تعداد صرف اللہ کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر ایک خلیہ اپنے ہی کام لگا ہوتا ہے نہ یہ اپنے راستے سے ہٹتا ہے کہ راستہ بھولتا ہے نہ کسی دوسرے خلیے کے کام میں دخل دیتا ہے۔ ناک کا خلیہ اسی جگہ پہنچے گا جہاں ناک کی جگہ ہے، آنکھ کا آنکھ کی جگہ، کان کا کان کی جگہ اور ایڑی کا ایڑی کی جگہ پر پہنچے گا۔ اور یہ خلیے براہ راست اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاآنکہ انسان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے اور رحم مادر میں یہ ایسا منضبوط اور مضبوط نظام ہے جس میں خلف نہیں ہوتا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی انسان کی ناک کا ایک نتھنا چھوٹا ہو، دوسرا بڑا ہو، یا ایک نتھنا لمبوترا ہو تو دوسرا چپٹا ہو۔ یہی حال دوسرے اعضا کا ہے۔ پھر ایک مقررہ مدت کے بعد انسان زندہ اور شکل و صورت والا بن کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ گویا مردہ غذاؤں سے اللہ نے زندہ چیز بنادی۔ اور یہ عمل حیوانات اور نباتات اور انسان غرضیکہ تمام انواع میں ہمہ وقت جاری وساری ہے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ توالد و تناسل کے ذریعہ پیدائش ہر نوع کے ابتدائی جاندار کی نسبت اللہ کے لئے زیادہ آسان ہے۔- اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان زندہ تھا وہ مرگیا۔ اور مٹی میں مل گیا۔ اور قیامت کو وہی انسان دوبارہ اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ مٹی کے اندر جو تغیرات ہوں گے اور جس طرح انسان دوبارہ پیدا ہوگا یہ باتیں انسان کی تحقیق سے باہر ہیں۔ تاہم یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس کے لئے ضرورت نہیں کہ نقش ثانی کا نقش ماول کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور دوسری عقلی دلیل یہ ہے کہ جو ہستی رحم مادر میں اس قدر منضبط اور مربوط نظام قائم کرکے مردہ اشیاء سے زندہ انسان نما کھڑا سکتی ہے وہ یقیناً مٹی میں بھی ملے ہوئے اجزا سے بھی ہر انسان کو دوبارہ پیدا کرسکتی ہے۔ اور یہ دوسری بار کی پیدائش اس کے لئے یہ نسبتًا آسان چیز ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَــلْقَ ۔۔ : ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین کے مطابق یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب ہے اور یہاں سے آگے اللہ تعالیٰ کا کفار قریش سے خطاب ہے جو ” لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ“ تک چلا گیا ہے۔ اس کے بعد ” فَمَاکَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ “ سے پھر ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ جبکہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ” فَمَاکَانَ جَوَابَ “ تک یہ سارا کلام ہی ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ مجھے بھی یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس میں نہ سلسلہ کلام توڑنا پڑتا ہے، نہ مطلب میں کوئی خلل آتا ہے، بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کو توحید کے بعد آخرت کے دلائل سنا رہے ہیں جن کے جواب کا ذکر اس آیت میں ہے : (فَمَاکَانَ جَوَابَ ۔۔ ) ویسے ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ خطاب کفار قریش کے بھی عین حسب حال ہے، کیونکہ مشرک اقوام کے عقائد ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔- 3 ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اور کفار مکہ دو بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے، ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، دوسری آخرت کا انکار۔ پہلی گمراہی کا رد اوپر کی آیات میں آچکا ہے، یہ دوسری گمراہی کا رد ہے۔- 3 ابراہیم (علیہ السلام) نے دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت کے لیے خود ان کے وجود کو پیش فرمایا، جس کا مشاہدہ وہ ہر وقت کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس وقت پیدا فرمایا جب کہیں ان کا ذکر تک نہ تھا۔ وجود میں آنے کے بعد وہ سننے دیکھنے والے انسان بن گئے، تو جس نے انھیں شروع میں پیدا فرمایا وہ انھیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے، (”إِنَّ “ تعلیل کے لیے آتا ہے) کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ) [ الروم : ٢٧ ] ” اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” شروع تو دیکھتے ہو، دہرانا اسی سے سمجھ لو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مخلوق کو اول بار پیدا کرتا ہے (عدم محض سے وجود میں لاتا ہے) پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا، یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی آسان بات ہے (بلکہ ابتدائی نظر میں دوبارہ پیدا کرنا اول آفرینش سے زیادہ سہل ہے، گو قدرت ذاتیہ کے اعتبار سے دونوں مساوی ہیں اور یہ لوگ امر اول یعنی اللہ تعالیٰ کے خالق کائنات ہونے کا تو اعتراف کرتے تھے، لقولہ تعالیٰ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ الخ اور امر ثانی یعنی دوبارہ پیدا کرنا اسی کے مماثل ہے اس کا داخل قدرت ہونا اور زیادہ واضح ہے اس لئے اَوَلَمْ يَرَوْا اس سے بھی متعلق ہوسکتا ہے اور زیادہ اہتمام کے لئے آگے پھر یہی مضمون قدرے تفاوت عنوان سے سنانے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہیں کہ) آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ تم لوگ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کس طور پر اول بار پیدا کیا ہے، پھر اللہ پچھلی بار بھی پیدا کرے گا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے (پہلے عنوان میں ایک عقلی استدلال ہے اور دوسرے عنوان میں حسی، جس کا تعلق احوال کائنات کے مشاہدہ سے ہے، یہ تو قیامت کا اثبات تھا آگے جزاء کا بیان ہے کہ بعد بعث کے) جس کو چاہے گا عذاب دے گا (یعنی جو اس کا مستحق ہوگا) اور جس پر چاہے رحمت فرما دے گا، یعنی جو اس کا اہل ہوگا) اور (اس تعذیب و رحمت میں اور کسی کا دخل نہ ہوگا، کیونکہ) تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے، (نہ کہ اور کسی کے پاس) اور (اس کی تعذیب سے بچنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے) تم نہ زمین میں (چھپ کر خدا کو) ہرا سکتے ہو (کہ اس کے ہاتھ نہ آؤ) اور نہ آسمان میں (اڑ کر) اور نہ خدا کے سوا تمہارا کوئی کارساز ہے اور نہ کوئی مددگار، (پس نہ اپنی تدبیر سے بچ سکے نہ دوسرے کی حمایت سے) اور (اوپر جو ہم نے کہا تھا يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ اب قاعدہ کلیہ سے اس کا مصداق بتلاتے ہیں کہ) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے اور (بالخصوص) اس کے سامنے جانے کے منکر ہیں وہ لوگ (قیامت میں) میری رحمت سے ناامید ہوں گے (یعنی اس وقت مشاہدہ ہوجائے گا کہ ہم محل رحمت نہیں ہیں) اور یہی ہیں جن کو عذاب درد ناک ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللہُ الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ۝ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝ ١٩- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، - ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو - بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) کیا کفار مکہ کو بذریعہ قرآن کریم یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مخلوق کو پہلی بار نطفہ سے پیدا کرتا ہے پھر وہی قیامت کے دن اس کو دوبارہ پیدا کرے گا یہ پہلی بار اور دوبارہ پیدا کرنا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان بات ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 31 یہاں سے لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ( ان کے لیے دردناک سزا ہے ) تک ایک جملہ معترضہ ہے جو حضرت ابراہیم کے قصے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالی نے کفار مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے ۔ اس اعتراضی تقریر کی مناسبت یہ ہے کہ کفار مکہ جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے وہ بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے ۔ ایک شرک و بت پرستی ، دوسرے انکار آخرت ۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیم کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے ۔ اب دوسری گمراہیم کے رد میں یہ چند فقرے اللہ تعالی اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تاکہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسلہ کلام میں ہوجائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 32 یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں ، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں ۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفت خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے ۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا ، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے ، اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر ایک ہی دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لاتا چلا جاتا ہے ، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مرجانے کے بعد وہ پھر تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا نہیں کرسکتا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نمل حاشیہ 80 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani