مکڑی کا جالا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی پرستش اور پوجاپاٹ کرتے ہیں ان کی کمزوری اور بےعلمی کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ ان سے مدد روزی اور سختی میں کام آنے کے امیدوار رہتے ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مکڑی کے جالے میں بارش اور دھوپ اور سردی سے پناہ چاہے ۔ اگر ان میں علم ہوتا تو یہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے امیدیں وابستہ نہ کرتے ۔ پس ان کا حال ایمانداروں کے حال کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ ایک مضبوط کڑے کو تھامے ہوئے ہیں اور یہ مکڑی کے جالے میں اپنا سرچھپائے ہوئے ہیں ۔ اس کا دل اللہ کی طرف ہے اس کا جسم اعمال صالحہ کی طرف مشغول ہے اور اس کا دل مخلوق کی طرف اور جسم اس کی پرستش کی طرف جھکا ہوا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈرا رہا ہے کہ وہ ان سے ان کے شرک سے اور ان کے جھوٹے معبودوں سے خوب آگاہ ہے ۔ انہیں ان کی شرارت کا ایسا مزہ چھکائے گا کہ یہ یاد کریں ۔ انہیں ڈھیل دینے میں بھی اس کی مصلحت وحکمت ہے ۔ نہ یہ کہ وہ علیم اللہ ان سے بےخبر ہو ۔ ہم نے تو مثالوں سے بھی مسائل سمجھا دئے ۔ لیکن اس کے سوچنے سمجھنے کا مادہ ان میں غور و فکر کرنے کی توفیق صرف باعمل علماء کو ہوتی ہے ۔ جو اپنے علم میں پورے ہیں ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ کی بیان کردہ مثالوں کو سمجھ لینا سچے علم کی دلیل ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے ایک ہزار مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں ( مسند احمد ) اس سے آپ کی فضیلت اور آپ کی علمیت ظاہر ہے ۔ حضرت عمرو بن مروۃ فرماتے ہیں کہ کلام اللہ شریف کی جو آیت میری تلاوت میں آئے اور اس کا تفصیلی معنوں کامطلب میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا دل دکھتا ہے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرنے لگتا ہوں کہ کہیں اللہ کے نزدیک میری گنتی جاہلوں میں تو نہیں ہوگئی کیونکہ فرمان اللہ یہی ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن سوائے عالموں کے انہیں دوسرے سمجھ نہیں سکتے ۔
4 1 1یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہوجاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بےفائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انھیں نہیں بچا سکے۔
[٦٦] یعنی اوپر جن جن اقوام کا ذکر آیا ہے یہ سب ہی شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھیں۔ انھیں چیزوں کو انہوں نے اپنا مشکل کشا سمجھ رکھا تھا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ان کے سامنے قربانیاں بھی پیش کی جائیں اور نذروں و نیازوں کے چڑھاوے بھی چڑھائے جاتے تھے، اس امید پر ہمارے یہ سرپرست حضرات ہم سے خوش رہیں۔ اور مصیبت کے وقت ہمارے کام آئیں مگر ان مشرکوں کے معبودوں یا سرپرستوں کی مثال تو لکڑی کے گھر جیسی ہے جو اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ انگلی کی ایک ہلکی سی جنبش سے تار تار ہوجاتا ہے اور گرپڑتا ہے۔ اسی طرح ان مشرکوں پر جب اللہ کا عذاب آیا تو اس عذاب کی پہلی اور ہلکی سی ضرب سے ہی ان کی تمام تر توقعات کا قصر تار تار ہوگیا اور ان کے معبود جہاں تھے وہیں پڑے کے پڑے رہ گئے۔
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ ۔۔ : اللہ کے عذاب کے ساتھ ہلاک ہونے والی تمام اقوام اور تمام افراد کا اصل جرم اور اپنی جان پر ظلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور مددگار اور مشکل کشا بنا رکھے تھے، اب مکہ کے مشرکوں نے بھی انھی کی روش اپنا رکھی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر واضح فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی کو مددگار سمجھنے والوں کی مثال مکڑی کی ہے جو گھر بناتی ہے، گھر کا فائدہ یہ ہے کہ وہ سردی، گرمی، بارش، آندھی اور حملہ آور سے بچاتا ہے، مگر مکڑی کا گھر نہ اسے سردی سے بچاتا ہے نہ گرمی سے، نہ بارش یا طوفان سے نہ ہی کسی حملہ آور سے، بلکہ اتنا بودا اور ناپائیدار ہوتا ہے کہ ہاتھ کے معمولی سے اشارے سے نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بالکل ایسے ہی بےفائدہ ہے، کیونکہ وہ کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اللہ کے سوا تمام سہارے بیکار ہیں، اگر وہ کوئی مدد کرسکتے تو گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے، مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انھیں نہیں بچا سکے۔
وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ، عنکبوت مکڑی کو کہا جاتا ہے، اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ بعض ان میں سے زمین میں گھر بناتی ہیں، بظاہر وہ یہاں مراد نہیں، بلکہ مراد وہ مکڑی ہے جو جالا تانتی ہے اور اس میں معلق رہتی ہے اس جالے کے ذریعہ مکھی کو شکار کرتی ہے، یہ ظاہر ہے کہ جانوروں کی جتنی قسم کے گھونسلے اور گھر معروف ہیں، یہ جالے کے تار ان سب سے زیادہ کمزور ہیں کہ معمولی ہوا سے بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔ اس آیت میں غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں اور ان پر اعتماد کرنے والوں کی مثال مکڑی کے اس جالے سے دی ہے جو کہ نہایت کمزور ہے۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کے سوا بتوں پر یا کسی انسان وغیرہ پر بھروسہ کرتے ہیں ان کا بھروسہ ایسا ہی ہے جیسا یہ مکڑی اپنے جالے کے تاروں پر بھروسہ کرتی ہے۔- مسئلہ : مکڑی کو مارنے اور اس کے جالے صاف کردینے کے متعلق علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض حضرات اس کو پسند نہیں کرتے، کیونکہ یہ جانور بوقت ہجرت غار ثور کے دہانے پر جالا تان دینے کی وجہ سے قابل احترام ہوگیا، جیسا کہ خطیب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس کے قتل کی ممانعت نقل کی ہے۔ مگر ثعلبی نے اور ابن عطیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی سے یہ روایت نقل کی ہے طھروا بیوتکم من نسج العکنبوت فان ترکہ یورث الفقر، یعنی مکڑی کے جالوں سے اپنے مکانات کو صاف رکھا کرو، کیونکہ اس کے چھوڑ دینے سے فقرو فاقہ پیدا ہوتا ہے، سند ان دونوں روایتوں کی قابل اعتماد نہیں اور دوسری روایت کی دوسری احادیث سے تائید ہوتی ہے جن میں مکانات اور فناء دار کو صاف رکھنے کا حکم ہے۔ (روح المعانی)
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ٠ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا ٠ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ٠ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ٤١- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - وهن - الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي - [ مریم 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ- [ النساء 104] ، - ( و ھ ن ) الوھن - کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا
(٤١) جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ بتوں وغیرہ میں سے اور کار ساز تجویز کر رکھے ہیں ان لوگوں کی مثال مکڑی کی سی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور کچھ شک نہیں کہ سب گھروں میں زیادہ کمزور اور پھس پھسا مکڑی کا گھر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نہ اس گھر میں گرمی کا بچاؤ ہوسکتا ہے اور نہ اس سے سردی کی حفاظت ہوسکتی ہے اسی طرح یہ جھوٹے معبود اپنے پجاریوں کو نہ دنیا ہی میں کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کے کام آسکتے ہیں کاش وہ حقیقت جانتے لیکن نہ وہ حقیقت کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق ہی کرتے ہیں۔
آیت ٤١ (مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط) ” - اس تمثیل کے اعتبار سے یہ آیت سورت کے اس حصے کی بہت اہم آیت ہے۔ اس تمثیل میں اللہ کے سوا جن مددگاروں کا ذکر ہوا ہے وہ غیر مرئی بھی ہوسکتے ہیں ‘ جیسے کوئی کہے کہ مجھے فلاں دیوی کی کرپا چاہیے یا کوئی کسی ولی اللہ کی نظر کرم کے سہارے کی بات کرے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری و معنوی طاقت یا مادی وسائل کی بنیاد پر کوئی شخص کسی فرد ‘ قوم یا چیز پر ایسا بھروسا کرے کہ وہ اللہ کے اختیار اور اس کی قدرت کو بھلا بیٹھے۔ جیسے ہم امریکہ کو اپنا پشت پناہ سمجھ کر اس کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں ایسے تمام سہاروں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دے کر یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اصل اختیار اور قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہے۔ اس کے سہارے اور اس کے توکلّ کو چھوڑ کر کسی اور کا سہارا ڈھونڈنا گویا مکڑی کے گھر میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 73 اوپر جتنی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب شرک میں مبتلا تھیں اور اپنے معبودوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ہمارے حامی و مددگار اور سرپرست ( ) ہیں ، ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتے ہیں ، ان کی پوجاپاٹ کر کے اور انہیں نذر و نیاز دے کر جب ہم ان کی سرپرستی حاصل کرلیں گے تو یہ ہمارے کام بنائیں گے اور ہم کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھیں گے ۔ لیکن جیسا کہ اوپر کے تاریخی واقعات میں دکھایا گیا ہے ، ان کے یہ تمام عقائد و اوہام اس وقت بالکل بے بنیاد ثابت ہوئے جب اللہ تعالی کی طرف سے ان کی بربادی کا فیصلہ کردیا گیا ۔ اس وقت کوئی دیوتا ، کوئی اوتار ، کوئی ولی ، کوئی روح اور کون جن یا فرشتہ ، جسے وہ پوچتے تھے ، ان کی مدد کو نہ آیا اور اپنی باطل توقعات کی ناکامی پر کف افسوس ملتے ہوئے وہ سب پیوند خاک ہوگئے ۔ ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالی مشرکین کو متنبہ کر رہا ہے کہ کائنات کے حقیقی مالک و فرمانروا کو چھوڑ کر بالکل بے اختیار بندوں اور سراسر خیالی معبودوں کے اعتماد پر جو توقعات کا گھروندا تم نے بنا رکھا ہے اس کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ جس طرح مکڑی کا جالا ایک انگلی کی چوٹ بھی برداشت نہیں کرسکتا اسی طرح تمہاری توقعات کا یہ گھروندا بھی خدائی تدبیر سے پہلا تصادم ہوتے ہی پاش پاش ہوکر رہ جائے گا ۔ یہ محض جہالت کا کرشمہ ہے کہ تم اوہام کے اس چکر میں پڑے ہوئے ہو ۔ حقیقت کا کچھ بھی علم تمہیں ہوتا تو تم ان بے بنیاد سہاروں پر اپنا نظام حیات کبھی تعمیر نہ کرتے ۔ حقیقت بس یہ ہے کہ اختیارات کا مالک اس کائنات میں ایک رب العالمین کے سوا کوئی نہیں ہے اور اسی کا سہارا وہ سہارا ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ۔ ( البقرہ ۔ آیت 256 ) جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے وہ مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔
24: یعنی کاش یہ لوگ جانتے کہ جن جھوٹے خداؤں پر انہوں نے بھروسہ کیا ہوا ہے وہ مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہیں، اور انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔