Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة بقرہ اور سورة آل عمران کو الزَّھْرَاوَیْنَ یعنی دو جگمگانے والی سورتیں، فرمایا اور امت کو ان کے پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں، اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کے لیے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب فضل، قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) - قرآن کریم کے علوم میں سے ایک علم مخاصمہ ہے۔ یعنی وہ علم جس کے ذریعہ باطل فرقوں کے عقائد و نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ نزول قرآن کے وقت اکثر تین فرقے قرآن پاک کے مخاطب رہے جو مسلمانوں کے حریف تھے : مشرکین، یہود اور نصاریٰ ، سورة بقرہ میں مشرکین کے علاوہ یہود پر اللہ کے انعامات، ان کی عہد شکنیوں اور ان کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر ذکر ہوا تھا جب کہ اس سورة آل عمران میں مشرکوں کے علاوہ نصاریٰ کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الۗـۗم۔ حروف مقطعات کی تشریح سورة بقرہ کی ابتدا میں گزر چکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - یہ قرآن کریم کی تیسری سورت (آل عمران) کا پہلا رکوع ہے پہلی سورت یعنی فاتحہ جو پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے آخر میں صراط مستقیم کی ہدایت طلب کی گئی تھی اس کے بعد سورة بقرہ الم ذلک الکتاب سے شروع کر کے گویا اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ سورة فاتحہ میں جو سیدھے راستے کی دعا کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے یہ قرآن بھیج دیا، جو صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے پھر سورة بقرہ میں اکثر احکامات شرعیہ کا جمالی اور تفصیلی بیان آیا ہے، جس کے ضمن میں جابجا کفار کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کا بھی ذکر آیا آخر میں اس کو (فانصرنا علی القوم الکافرین) کے جملہ دعائیہ پر ختم کیا گیا تھا، جس کا حاصل تھا کفار پر غلبہ پانے کی دعا، اس کی مناسبت سے سورة آل عمران میں عام طور پر کفار کے ساتھ معاملات اور ہاتھ اور زبان سے ان کے مقابلہ میں جہاد کا بیان ہے، جو گویا ( فانصرنا علی القوم الکافرین) کی تشریح و تفصیل ہے۔- خلاصہ تفسیر - سورة آل عمران کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس مقصد عظیم کا ذکر ہے جس کی وجہ سے کفر و اسلام اور کافر و مومن کی تقسیم اور باہمی مقابلہ شروع ہوتا ہے، اور وہ اللہ جل شانہ کی توحید ہے، اس کے ماننے والے مومن اور نہ ماننے والے کافر وغیر مسلم کہلاتے ہیں، اس رکوع کی پہلی آیت میں توحید کی عقلی دلیل مذکور ہے، اور دوسری آیت میں نفلی دلیل بیان فرمائی گئی ہے اس کے بعد کی آیت میں کفار کے کچھ شبہات کا جواب ہے۔- معارف و مسائل - توحید کی طرف دعوت تمام انبیاء کا وظیفہ رہا ہے - دوسری آیت میں جو نقلی دلیل توحید کی پیش کی گئی ہے، تشریح اس کی یہ ہے کہ جس بات پر بہت سے انسان متفق ہوں، خصوصاً جبکہ وہ مختلف ملکوں کے باشندے اور مختلف زمانوں میں پیدا ہوئے ہوں، اور درمیان میں سینکڑوں ہزاروں برس کا فاصلہ، اور ایک کی بات دوسرے تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں، اس کے باوجود جو اٹھتا ہے وہی ایک بات کہتا ہے جو پہلے لوگوں نے کہی تھی، اور سب کے سب ایک ہی بات اور ایک ہی عقیدہ کے پابند ہوتے ہیں تو فطرت اس کے قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی توحید کا مضمون انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) لے کر آئے اور ان کے بعد ان کی اولاد میں تو مسلسل اس بات کا چلنا کچھ بعید نہ تھا، لیکن زمانہ دراز گزر جانے اور اولاد آدم کے وہ تمام طریقے بدل جانے کے بعد پھر حضرت نوح (علیہ السلام) آتے ہیں، اس چیز کی دعوت دیتے ہیں جس کی طرف آدم (علیہ السلام) نے لوگوں کو بلایا تھا ان کے زمانہ دراز گزرنے کے بعد ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) ملک عراق و شام میں پیدا ہوتے ہیں، اور ٹھیک وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور ان کے سلسلہ کے انبیاء آتے ہیں، اور سب کے سب وہی ایک کلمہ توحید بولتے ہیں اور وہی دعوت دیتے ہیں، ان پر زمانہ دراز گزر جانے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، اور آخر میں سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی دعوت لے کر تشریف لاتے ہیں۔ اب اگر ایک خالی الذہن انسان جس کو اسلام اور توحید کی دعوت سے کوئی بغض اور بیر نہ ہو سادگی کے ساتھ ذرا اس سلسلہ پر نظر ڈالے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (علیہم السلام) مختلف زمانوں میں مختلف زبانوں میں، مختلف ملکوں میں پیدا ہوئے، اور سب کے سب یہی کہتے اور بتلاتے چلے آئے، اکثر ایک کو دوسرے کے ساتھ ملنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا، زمانہ تصنیف و تالیف اور کتابت کا بھی نہ تھا، کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر کی کتابیں اور تحریریں مل جاتی ہوں، ان کو دیکھ کر وہ اس دعوت کو اپنا لیتے ہوں، بلکہ انہی میں ہر ایک دوسرے سے بہت قرنوں کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس کو اسباب دنیا کے تحت پچھلے انبیاء کی کوئی خبر نہیں ہوتی، البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پاکر ان سب کے حالات و کیفیات سے مطلع ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کو اس دعوت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ اب کوئی آدمی ذرا سا انصاف کے ساتھ غور کرے کہ اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان مختلف زمانوں میں اور مختلف ملکوں میں ایک ہی بات کو بیان کریں تو قطع نظر اس سے کہ بیان کرنے والے ثقہ اور معتبر لوگ ہیں یا نہیں، اتنی عظیم الشان جماعت کا ایک ہی بات پر متفق ہونا ایک انسان کے لئے اس بات کی تصدیق کے واسطے کافی ہوجاتا ہے اور جب انبیاء (علیہم السلام) کی ذاتی خصوصیات اور ان کے صدق و عدل کے انتہائی بلند معیار پر نظر ڈالی جائے تو ایک انسان یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کا کلمہ صحیح اور ان کی دعوت حق اور فلاح دنیا و آخرت ہے۔- شروع کی دو آیتوں میں جو مضمون توحید کا ارشاد فرمایا گیا ہے اس کے متعلق حدیث کی روایات میں ہے کہ بعض نصاری آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے مذہبی گفتگو جاری ہوئی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ جل شانہ کی توحید کے ثبوت میں یہی دو دلیلیں باذن خدا وندی پیش فرمائی جن سے نصاری لاجواب ہوئے۔- اس کے بعد تیسری اور چوتھی آیت میں بھی اسی مضمون توحید کی تکمیل ہے تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم محیط کا بیان ہے جس سے کسی جہان کا کوئی ذرہ چھپا ہوا نہیں۔- اور چوتھی آیت میں اس کی قدرت کاملہ اور قادر مطلق ہونے کا بیان ہے کہ اس نے انسان کو بطن مادر کے تین اندھیریوں میں کیسی حکمت بالغہ کے ساتھ بنایا، اور ان کی صورتوں اور رنگوں میں وہ صنعتکاری فرمائی کہ اربوں انسانوں میں ایک کی صورت دوسرے سے ایسی نہیں ملتی کہ امتیاز نہ رہے، اس علم محیط اور قدرت کاملہ کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے اس کے سوا سب کے سب علم وقدرت میں یہ مقام نہیں رکھتے اس لئے وہ لائق عبادت نہیں۔- اس طرح توحید کے اثبات کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی چار اہم صفات ان چار آیتوں میں آگئیں پہلی اور دوسری آیت میں صفات حیات ازلی و ابدی اور قیامیت کا بیان ہوا تیسری سے چھٹی آیت تک علم محیط اور قدرت کاملہ مطلقہ کا اس سے ثابت ہوا کہ جو ذات ان چار صفات کی جامع ہو وہی عبادت کے لائق ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الۗمَّۗ۝ ١ ۙ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝ ٠ ۙالْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ۝ ٢ ۭ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - قَيُّومُ- وقوله : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة 255] أي : القائم الحافظ لكلّ شيء، والمعطی له ما به قِوَامُهُور آیت : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة 255] خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا ۔ میں قیوم ( اسمائے حسٰنی سے ہے یعنی ذات الہٰی ہر چیز کی نگران اور محافظ ہے اور ہر چیز کو اس کی ضرورت زندگی بہم پہنچاتی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) اللہ تعالیٰ ہی وفد بنی نجران (یعنی نجران کے عیسائیوں) کی حالت کو زیادہ جاننے والا ہے اور الم کے یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے، اولاد اور اس کے علائق سے پاک و برتر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

یہ حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں اجمالی گفتگو ہم سورة البقرۃ کے آغاز میں کرچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani