Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آیت الکرسی اور اسمِ اعظم آیت الکرسی کی تفسیر میں پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اسم اعظم اس آیت اور آیت الکرسی میں ہے اور الم کی تفسیر سورۃ بقرہ کے شروع میں بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں ، آیت ( اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ) 2 ۔ البقرۃ:255 ) کی تفسیر بھی آیت الکرسی کی تفسیر میں ہم لکھ آئے ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقینا وہ اللہ کی طرف سے ہے ، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے ، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے ۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں ، اس لئے کہ ان میں جو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی ۔ اسی نے حضرت موسیٰ بن عمران پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری ، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں ۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل ، ہدایت و ضلالت ، گمراہی اور راہِ راست میں فرق کرنے والا ہے ، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں ، حضرت قتادہ حضرت ربیع بن انس کا بیان ہے کہ فرقان سے مراد یہاں قرآن ہے ، گو یہ مصدر ہے لیکن چونکہ قرآن کا ذِکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اس لئے یہاں فرقان فرمایا ، ابو صالح سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے توراۃ ہے مگر یہ ضعیف ہے اس لئے کہ توراۃ کا ذِکر اس سے پہلے گزر چکا ہے واللہ اعلم ۔ قیامت کے دن منکروں اور باطل پرستوں کو سخت عذاب ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے بڑی شان والا ہے اعلیٰ سلطنت والا ہے ، انبیاء کرام اور محترم رسولوں کے مخالفوں سے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں سے جناب باری تعالیٰ زبردست انتقام لے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 حَیُّ اور قَیُوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں جن کا مطلب وہ ازل سے ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں قیوم کا مطلب سارے کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتے تھے گویا ان کو کہا جا رہا ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصہ بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہوسکتے ہیں نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے تھی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہوچکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔ ایک یہ آل عمران کی آیت۔ دوسری آیت الکرسی اور تیسری سورة طہٰ (ابن کثیر تفسیر آیت الکرسی)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقی الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو ہمیشہ سے زندہ و قائم ودائم ہو اور پوری کائنات کے انتظام کو سنبھالنے والا اور اس نظام میں قدرت و تصرف کے پورے اختیار رکھتا ہو۔ جس الٰہ میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ اس معیار کے مطابق تمام معبودان باطل خواہ وہ جاندار ہوں، موجود ہوں یا فوت ہوگئے ہوں اور خواہ بےجان ہوں سب کی نفی ہوگئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ : یہ اس سورت کا دعویٰ ہے اور وفد نجران کو دعوت کی مناسبت سے اس کے اثبات پر زور دیا گیا ہے۔- الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ : یہ اسمائے حسنیٰ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ حیات اور قیومیت اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں سے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسے موت اور فنا نہیں۔ ” الْقَيُّوْمُ “ کا مطلب ہے ساری کائنات قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ یا اللہ کا بیٹا یا تین میں سے ایک مانتے تھے۔ گویا ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کی پیدائش کا زمانہ بھی کائنات کے پیدا ہونے سے بہت بعد کا ہے، پھر ان پر موت بھی آئے گی اور عیسائیوں کے بقول تو ان پر موت آچکی، تو جب نہ ان کی حیات ہمیشہ، نہ انھیں قیومیت حاصل تو وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کیسے بن گئے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پہلی آیت میں ارشاد ہے (الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم) اس میں لفظ الم تو متشابہات قرآنیہ میں سے ہے جس کے معنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک راز ہیں جس کی تفصیل اس رکوع کی آخری آیتوں میں آتی ہے اس کے بعد (اللہ لا الہ الا ھو) میں مضمون توحید کو ایک دعوے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئی معبود بنانے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد (الحی القیوم) سے توحید کی عقلی دلیل بیان کی گئی جس کی تشریح یہ ہے کہ عبادت نام ہے اپنے آپ کو کسی کے سامنے انتہائی عاجز و ذلیل کر کے پیش کرنے کا اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے وہ عزت وجبروت کے انتہائی مقام کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو، اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز خود اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکے اپنے وجود اور اس کی بقاء میں دوسرے کی محتاج ہو اس کا عزت وجبروت میں کیا مقام ہوسکتا ہے اس لئے بالکل واضح ہوگیا کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں نہ خود اپنے وجود کی مالک ہیں اور نہ ہی اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہیں وہ خواہ پتھر کے تراشیدہ بت ہوں یا پانی اور درخت ہوں یا فرشتے اور پیغمبر ہوں ان میں کوئی بھی لائق عبادت نہیں لائق عبادت وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے زندہ موجود ہے اور ہمیشہ زندہ و قائم رہے گی اور وہ صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) اور (رب کریم) زندہ جاوید ہیں، تمام چیزوں کے سنبھالنے والے ہیں

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ لا الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ )- یہ الفاظ سورة البقرۃ میں آیت الکرسی کے آغاز میں آ چکے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسم اعظم ہے ‘ جس کے حوالے سے اگر اللہ سے کوئی دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ یہ تین سورتوں البقرۃ ‘ آل عمران اور طٰہٰ میں ہے۔ (١)- آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعینّ کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ اسم اعظم کون سا ہے ‘ البتہ کچھ اشارے کیے ہیں۔ جیسے رمضان المبارک کی ایک شب لیلۃ القدرجو ہزار مہینوں سے افضل ہے ‘ اس کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ کون سی ہے ‘ بلکہ فرمایا : (فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ ) (٢) اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو “۔ تاکہ زیادہ ذوق و شوق کا معاملہ ہو۔ اسی طرح اسم اعظم کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارات فرمائے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تین سورتوں سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة طٰہٰ میں ہے۔ ان تین سورتوں میں جو الفاظ مشترک ہیں وہ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ہیں۔ سورة البقرۃ میں یہ الفاظ آیت الکرسی میں آئے ہیں ‘ سورة آل عمران میں یہاں دوسری آیت میں اور سورة طٰہٰ کی آیت ١١١ میں موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :278 یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں ، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے ، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں ، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے ۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے ، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں ۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود ( الہ ) بنایا جا رہا ہے ، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani