Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شہادت اور بشارت چونکہ احد والے دن ستر مسلمان صحابی شہید ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دیندار لوگ مال و جان کا نقصان اٹھاتے رہے لیکن بالآخر غلبہ انہی کا ہوا تم اگلے واقعات پر ایک نگاہ ڈال لو تو یہ راز تم پر کھل جائے گا ۔ اس قرآن میں لوگوں کیلئے اگلی امتوں کا بیان بھی ہے اور یہ ہدایت و وعظ بھی ہے ۔ یعنی تمہارے دلوں کی ہدایت اور تمہیں برائی بھلائی سے آگاہ کرنے والا یہی قرآن ہے ، مسلمانوں کو یہ واقعات یاد دلا کر پھر مزید تسلی کے طور پر فرمایا کہ تم اس جنگ کے نتائج دیکھ کر بد دل نہ ہو جانا نہ مغموم بن کر بیٹھ رہنا فتح و نصرت غلبہ اور بلند و بالا مقام بالآخر مومنو تمہارے لئے ہی ہے ۔ اگر تمہیں زخم لگے ہیں تمہارے آدمی شہید ہوئے تو اس سے پہلے تمہارے دشمن بھی تو قتل ہو چکے ہیں وہ بھی تو زخم خوردہ ہیں یہ تو چڑھتی ڈھلتی چھاؤں ہے ہاں بھلا وہ ہے جو انجام کار غالب رہے اور یہ ہم نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ۔ یہ بعض مرتبہ شکست بالخصوص اس جنگ احد کی اس لئے تھی کہ ہم صابروں کا اور غیر صابروں کا امتحان کرلیں اور جو مدت سے شہادت کی آرزو رکھتے تھے انہیں کامیاب بنائیں کہ وہ اپنا جان و مال ہماری راہ میں خرچ کریں ، اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ جملہ معترضہ بیان کر کے فرمایا یہ اس لئے بھی کہ ایمان والوں کے گناہ اگر ہوں تو دور ہو جائیں اور ان کے درجات بڑھیں اور اس میں کافروں کا مٹانا بھی ہے کیونکہ وہ غالب ہو کر اتر آئیں گے سرکشی اور تکبر میں اور بڑھیں گے اور یہی ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گا اور پھر مر کھپ جائیں گے ان سختیوں اور زلزلوں اور ان آزمائشوں کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا جیسے سورۃ بقرہ میں ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم سے پہلے لوگوں کی جیسی آزمائش ہوئی ایسی تمہاری نہ ہو اور تم جنت میں چلے جاؤ یہ نہیں ہو گا اور جگہ ہے آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:2 ) کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم صرف ان کے اس قول پر کہ ہم ایمان لائے انہیں چھوڑ دیں گے اور انکی آزمائش نہ کی جائے گی؟ یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ جب تک صبر کرنے والے معلوم نہ ہو جائیں یعنی دنیا میں ہی ظہور میں نہ آجائیں تب تک جنت نہیں مل سکتی پھر فرمایا کہ تم اس سے پہلے تو ایسے موقعہ کی آرزو میں تھے کہ تم اپنا صبر اپنی بہادری اور مضبوطی اور استقامت اللہ تعالیٰ کو دکھاؤ اللہ کی راہ میں شہادت پاؤ ، لو اب ہم نے تمہیں یہ موقعہ دیا تم بھی اپنی ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ ، حدیث شریف میں ہے دشمن کی ملاقات کی آرزو نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب میدان پڑ جائے پھر لو ہے کی لاٹ کی طرح جم جاؤ اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے پھر فرمایا کہ تم نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ لیا کہ نیزے تنے ہوئے ہیں تلواریں کھچ رہی ہیں بھالے اچھل رہے ہیں تیر برس رہے ہیں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ادھر ادھر لاشیں گر رہی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

137۔ 1 جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا جس میں 50 تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبد اللہ بن جبیر (رض) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کردی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا لیکن مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال اسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا کچھ کہنے لگے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چناچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال و اسباب جمع کرنا شروع کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق وہاں صرف دس آدمی رہ گئے جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور اچانک حملہ کردیا جس میں مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی۔ جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی و بربادی اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] یہ مضمون قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آیا ہے اور ایسی آیات میں لوگوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جن لوگوں نے انبیاء کو اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا تھا۔ ان کا کیا انجام ہوا تھا اور اس انجام کی تفصیل بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔ مثلاً قوم عاد کا کیا حشر ہوا۔ قوم ثمود کا کیا، اور قوم نوح، اصحاب مدین، اصحاب الحجر، قوم سبا وغیرہ وغیرہ کا کیا حشر ہوا۔ اسی طرح بعض اشخاص کا بھی ذکر آتا ہے۔ مثلاً فرعون اور آل فرعون، کا کیا حشر ہوا۔ اس مضمون کو شرعی اصطلاح میں تذکیر بایام اللہ کہتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں یا قوموں پر انبیاء اور آیات الٰہی کو جھٹلانے کی وجہ سے عذاب آیا تھا۔ اس سے عبرت حاصل کرنا ایسے سب واقعات سے اللہ تعالیٰ کی جو عادت جاریہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی میں انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسا عذاب نازل کرتا ہے جو اسے تباہ و برباد کردیتا ہے اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور یہ اللہ کی ایسی سنت ہے جو پوری ہو کے رہتی ہے۔ یقین نہ آئے تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔ لہذا تمہیں بھی اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ ۔۔ : اوپر کی آیات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر اور ان کی نافرمانی سے توبہ پر بخشش اور جنت کا وعدہ فرمایا، اب یہاں اطاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور و فکر کا حکم دیا ہے، تاکہ ان میں سے مطیع اور نافرمان کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامان عبرت حاصل کرے۔ سُنَنٌ کا مفرد ” سُنَّۃٌ“ ہے اس کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کی اتباع کی جاتی ہے۔ یہ ” فُعْلَۃٌ“ بمعنی ” مَفْعُوْلَۃٌ“ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل چونکہ مسلمان کے لیے نمونہ اور طریق مستقیم ہوتا ہے، اس لیے اسے سنت کہتے ہیں۔ - جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ اس شکست سے افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو پہلی امتوں اور انبیاء کے متبعین میں بھی ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکا لیف سے دو چار ہونا پڑا اور بالآخر جھٹلانے والے ذلیل و خوار ہوئے۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ۝ ٠ ۙ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۝ ١٣٧- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- سنن - وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ :- طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو :- سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ- [ البقرة 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» .- سنن - تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت :- مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ - سار - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ.- والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، - والتَّسْيِيرُ ضربان :- أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] .- والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، - والسِّيرَةُ :- الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا .- ( س ی ر ) السیر - ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور - دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ - اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے - ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٧) پہلی امتوں سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ توبہ کرنے والے کے لیے مغفرت وثواب ہے اور جو توبہ نہ کرے اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہے، غور کرو جن لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور اپنی اس تکذیب سے توبہ نہیں کی، ان کا آخری انجام کیا ہوا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٧ (قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا) (فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ) (فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ) - قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے تو راستے میں قوم ثمود کا مسکن بھی آتا تھا اور وہ بستیاں بھی آتی تھیں جن میں کبھی حضرت لوط (علیہ السلام) نے تبلیغ کی تھی۔ ان کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani