161۔ 1 جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال دوسرے لپیٹ کرلے جائیں گے اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے یہ تصور کیسے کرلیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا کیا تمہیں قائد غزوہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت پر اطمینان نہیں۔ یاد رکھو کہ ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں کیونکہ خیانت، نبوت کے منافی ہے۔ اگر نبی ہی خائن ہو تو پھر اس کی نبوت پر یقین کیونکر کیا جاسکتا ہے ؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔
[١٥٧] حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک سرخ رنگ کی روئی دار چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر کے دن اموال غنیمت میں سے گم ہوگئی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا، شاید چادر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے لیے رکھ لی ہو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اور بعض روایات میں یہ ہے کہ یہ آیت بھی غزوہ احد ہی سے متعلق ہے۔ جب ابتداًء اس غزوہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور وہ غنیمت کا مال اکٹھا کرنے لگے تو حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمیں بھی اب درہ چھوڑ کر لوٹ مار حاصل کرنے میں شامل ہوجانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اموال غنیمت میں ہمارا حصہ ہی نہ لگائیں۔ تو اس شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی سے ایسی ناانصافی یا خیانت ممکن ہی نہیں۔ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امین ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے یمن سے ایک رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا بھیجا۔ جس سے ابھی مٹی بھی علیحدہ نہیں کی گئی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سونے کو چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار تھے۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اطمینان نہیں۔ حالانکہ میں آسمان والے (اللہ تعالیٰ ) کا امین ہوں۔ اور میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا، اپنا تہبند اپنی پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول اللہ سے ڈرئیے آپ نے فرمایا : تیری بربادی ہو، کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں ؟ ( اور مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدل کیجئے۔ آپ نے فرمایا : تیری بربادی ہو اگر میں نے ہی عدل نہ کیا تو اور کون کرے گا ؟ ) وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کی گردن نہ اڑا دوں ؟ مگر آپ نے اسے قتل کرنے کی اجازت نہ دی۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جارہا تھا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے لے کر پڑھیں گے۔ مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کردوں گا (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب اعطاء المؤلفۃ القلوب وبیان الخوارج، بخاری، کتاب المغازی، باب بعث علی ابن ابی طالب خالد بن ولید) نیز کتاب استتابہ المعاندین والمرتدین۔۔ الخ)- گویا اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر رسول اللہ غنائم اور صدقات کو تقسیم کرنے کی کوئی مصلحت ملحوظ رکھیں یا قوم یا رفاہ عامہ کے لیے کچھ حصہ بیت المال میں جمع کریں یا کسی وجہ سے تقسیم غنائم میں دیر ہو تو نبی کے متعلق انہیں ہرگز کسی قسم کی بدگمانی نہ ہونا چاہئے۔ نبی سے متعلق ایسی بدگمانی کرنا نفاق کی علامت ہے۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ایسے ہی مواقع پر مسلمانوں کے دلوں میں بدگمانی ڈالا کرتے تھے، ایسی بدگمانیوں سے قوم میں پھوٹ پڑجاتی ہے۔ ملت کا شیرازہ بکھرتا ہے اور اس کا انجام بغاوت ہوتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس معاملہ میں بالخصوص اور عام حالات میں بھی بدظنی سے اجتناب کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔- غل کا معنی دراصل ایسے خزانہ سے چوری کرنا ہے جو سب کی مشترکہ ملکیت ہو۔ لہذا اس کا معنی چوری بھی ہوسکتا ہے اور خیانت بھی۔ پھر غل کا لفظ دل میں کدورت، بغض وعناد کو چھپائے رکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چناچہ اسی مناسبت سے بعض علماء نے یہ معنی بھی کیا ہے کہ نبی کی یہ شان نہیں کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو معاف کردینے کے بعد اس کے دل میں کچھ کدورت باقی رہ جائے۔- [١٥٧۔ ١] مسلمانوں کے مشترکہ اموال سے کوئی چیز چرانا یا اس میں خیانت کرنا (جو کہ غل کا لغوی مفہوم ہے) کتنا بڑا گناہ ہے۔ اس کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے : ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں جنگ خیبر کی غنیمت میں سونا چاندی تو ملا نہیں بس اونٹ بکریاں اور کپڑے وغیرہ ہی تھے۔ ایک شخص رفاعہ بن زید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک غلام تحفۃً دیا تھا جس کا نام مدعم تھا۔ اس کے بعد آپ وادی القریٰ کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچنے پر مدعم آپ کو سواری سے اتار رہا تھا کہ اسے ایک تیر آلگا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ لوگوں نے کہا اسے جنت مبارک ہو۔ آپ نے فرمایا : ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اس نے خیبر کے دن اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ایک کملی چرائی تھی جو آگ کے شعلے بن کر اس کے گرد لپٹ رہی ہے۔ جب لوگوں نے آپ کا یہ ارشاد سنا تو ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر حاضر ہوگیا۔ آپ نے اسے فرمایا : کہ اگر تم انہیں داخل نہ کراتے تو قیامت کو یہ تسمے آگ بن کر تمہیں جلاتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر، نیز کتاب الایمان والنذور باب ھل یدخل فی الایمان والنذور الارض والغنم)
وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ ۭ۔۔ : اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب ہے اور اس آیت میں جہاد کے احکام کا بیان ہے۔ - 2 جنگ احد کے دوران میں جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال غنیمت دوسرے لوگ سمیٹ کرلے جائیں گے، اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے یہ تصور کیسے کرلیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تمہیں نہیں دیا جائے گا۔ کیا تمہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت پر اطمینان نہیں یاد رکھو ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ خیانت نبوت کے منافی ہے۔ معلوم ہوا غلول (خیانت) کے معنی ” تقسیم میں ناانصافی “ کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی غلول ہے کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت سے کوئی چیز بلا اجازت اٹھا لی جائے۔ - شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” طمع کے کام تو ادنیٰ نبیوں سے بھی سرزد نہیں ہوسکتے، (چہ جائیکہ سید الانبیاء سے) “ (موضح)
معارف و مسائل - مال غنیمت میں چوری گناہ عظیم ہے کسی نبی سے ایسے گناہ کا احتمال نہیں :- آیت ماکان لنبی ان یغل، ایک خاص واقعہ کے متعلق آئی ہے، اس کے ضمن میں غلول، یعنی مال غنیمت کی چوری کا مسئلہ بھی آ گیا۔- واقعہ حسب روایت ترمذی یہ ہے کہ غزوہ بدر میں مال غنیمت میں ایک چادر گم ہوگئی، بعض لوگوں نے کہا کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لی ہو، یہ کہنے والے یہ سمجھا ہوگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح کا اختیار ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں غلول کا گناہ عظیم ہونا اور قیامت کے روز اس کی سزائے شدید کا ذکر ہے اور یہ کہ کسی نبی کے متعلق یہ گمان کرنا کہ اس نے یہ گناہ کیا ہوگا نہایت بیہودہ جسارت ہے، کیونکہ انبیاء ہر گناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ لفظ غلول مطلق خیانت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور خاص کر مال غنیمت کی خیانت کے لئے بھی اور مال غنیمت میں چوری اور خیانت کا جرم عام چوریوں اور خیانتوں سے زیادہ اشد ہے، کیونکہ مال غنیمت میں پورے لشکر اسلام کا حق ہوتا ہے، تو جس نے اس میں چوری کی اس نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی چوری کی، اگر کسی وقت اس کو تلافی کا خیال بھی آوے تو بہت مشکل ہے کہ سب کو ان کا حق پہنچائے یا معاف کرائے۔ بخلاف دوسری چوریوں کے کہ مال کا مالک معلوم و متعین ہے، کسی وقت اللہ نے توبہ کی توفیق دی تو اس کا حق ادا کر کے یا معاف کرا کر بری ہوسکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ ایک غزوہ میں ایک شخص نے اون کا کچھ حصہ چھپا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا، مال غنیمت تقسیم ہونے کے بعد اس کو خیال آیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے باوجود رحمتہ للعالمین ہونے اور امت پر ماں باپ سے زیادہ شفیق ہونے کے اس کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اب میں اس کو کس طرح سارے لشکر میں تقسیم کروں، اب تو قیامت کے روز ہی تم اس کو لے کر حاضر ہو گے۔ اسی لئے غلول کی سزا بھی عام چوریوں سے زیادہ اشد ہے کہ میدان حشر میں جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی، سب کے سامنے اس کو اس طرح رسوا کیا جائے گا کہ جو مال چوری کیا تھا وہ اس کی گردن پر لدا ہوا ہوگا، صحیحین میں بروایت حضرت ابوہریرہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو ایسا نہ ہو کہ قیامت میں کسی کو اس طرح دیکھوں کہ اس کی گردن پر ایک اونٹ لدا ہوا ہو (اور یہ اعلان ہوتا ہے کہ اس نے مال غنیمت کا اونٹ چرایا تھا) وہ شخص اگر مجھ سے شفاعت کا طالب ہوگا تو میں اس کو صاف جواب دے دوں گا کہ میں نے حکم الہی پہنچا دیا تھا اب میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اللہ بچائے یہ میدان حشر کی رسوئی ایسی ہوگی کہ بعض روایات میں ہے کہ جن کے ساتھ یہ معاملہ ہوگا وہ تمنا کریں گے کہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے مگر اس رسوائی سے بچ جائیں۔- اموال اوقاف اور سرکاری خزانہ میں چوری بحکم غلول ہے :۔- یہی حال مساجد، مدارس، خانقاہوں اور اوقاف کے اموال کا ہے جس میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا چندہ ہوتا ہے، اگر معاف بھی کرائے تو کس کس سے معاف کرائے، اسی طرح حکومت کے سرکاری خزانے (بیت المال) کا حکم ہے، کیونکہ اس میں پورے ملک کے باشندوں کا حق ہے، جو اس میں چوری کرے اس نے سب کی چوری کی، مگر چونکہ یہی اموال عموماً ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی شخص مالک نہیں ہوتا، نگرانی کرنے والے بےپروائی کرتے ہیں، چوری کے مواقع بکثرت ہوتے ہیں، اس لئے آج کل دنیا میں سب سے زیادہ چوری اور خیانت انہی اموال میں ہو رہی ہے اور لوگ اس کے انجام بد اور وبال عظیم سے غافل ہیں کہ اس جرم کی سزا علاوہ عذاب جہنم کے میدان حشر کی رسوائی بھی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاع سے محرومی بھی (نعوذ باللہ منہ)
وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ ٠ ۭ وَمَنْ يَّغْلُلْ يَاْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ٠ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰي كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ١٦١- غل ( خيانت)- : ما يلبس بين الثّوبین، فالشّعار : لما يلبس تحت الثّوب، والدّثار : لما يلبس فوقه، والْغُلَالَةُ : لما يلبس بينهما . وقد تستعار الْغُلَالَةُ للدّرع کما يستعار الدّرع لها، والْغُلُولُ : تدرّع الخیانة، والغِلُّ : العداوة . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] ، وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ الحشر 10] . وغَلَّ يَغِلُّ : إذا صار ذا غِلٍّ أي : ضغن، وأَغَلَّ ، أي : صار ذا إِغْلَالٍ. أي : خيانة، وغَلَّ يَغُلُّ : إذا خان، وأَغْلَلْتُ فلانا : نسبته إلى الغُلُولِ. قال : وَما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَ [ آل عمران 161] ، وقرئ : أَنْ يَغُلَ أي : ينسب إلى الخیانة، الغلالتہ اس کپڑے کو کہتے ہیں کو دوکپڑوں کے درمیان میں پہنا جاتا ہے چناچہ شعار وہ کپڑا ہے جو غلالہ کے نیچے پہنا جائے مگر کبھی بطور استعارہ غلالتہ کا لفظ درع پر بھی بوجاتا ہے جسطرح کہ درع کا لفظ مجاز اغلالتہ کے معنی میں آجاتا ہے ۔ اور غل کے معنی ( کینہ وپوشیدہ ) اثمنی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43 اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ الحشر 10] اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دلوں میں کینہ ( وحسد ) نہ پیدا ہونے دے ۔ غل یغل کسی کے متعلق دل کینہ رکھنا اور الغلول کے معنی ہیں خیانت کرنا اور یہ غل یغل سے ہے جس کے معنی ہیں خیانت کرنا اور اغل ( افعال ) کے معنی خیانت کے ساتھ متصف ہونے کے ہیں اور اغللت فلان کے معنی دوسرے کو خیانت کے ساتھ متہم کر نیکے قرآن میں ہے : ۔ وَما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَ [ آل عمران 161] اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر ( خدا ) خیانت کریں ۔ ایک قرات میں ایغل ہے جو کہ اغللتہ سے ہے یعنی اسے خیانت کے ساتھ متہم کیا جائے ۔ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ آل عمران 161] اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز ( خدا کے روبرو ) حاضر کرنی ہوگی ۔ ایک روایت میں ہے ( 20 ) لااغلال ولااسلال یعنی خیانت اور چوری نہیں ہے اور حدیث میں ہے ( 26 ) ثلاث لایغل علیھن قلب المومین یعنی باتوں پر مومن کا دل کینہ وری سے کام نہیں لیتا ۔- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
خیانت بہت بڑاجرم ہے - قول باری ہے (وماکان لنبی ان یغل ۔ کسی نبی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ خیانت کرجائے) ایک قرات، می لفظ (یغل) کو حرف یاء کی رفع کے ساتھ پڑھاگیا ہے جس کے معنی یخان ، خیانت کیا جائے کے ہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیانت کیے جاتے کا خصوصی طور سے ذکر ہوا ہے۔ اگرچہ سب انسانوں کے ساتھ خیانت ممنوع ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ساتھ خیانت کرنا کسی اور کے ساتھ خیانت کرنے کے مقابلے میں بہت بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ قول بارے ہے (فاجتنبوالرجس من الاوثان واجتنبواقول الزور۔ تبوں کی گندگی سے بچو اورجھوٹ بولنے سے پرہیز کرو) اگرچہ برقسم کی گندگی سے ہمیں بچنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن بت برستی کی گندگی، دوسری تمام گندگیوں سے بڑھ کر ہے، اس لیے اس سے بچنازیادہ فروری ہے ۔ حسن سے یہی تاویل مروی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور سعیدبن جبیر کا قول باری (یغل) حرف یار کی رفع کے ساتھ قرات کی صورت میں، قول ہے کہ اس کے معنی یخون ، کے ہیں یعنی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کی طرف خیانت کی نسبت کی جائے، ان کا کہنا ہے کہ غزوہ بدر کے موقعہ پر مال غنیمت میں سے سرخ رنگ کی ایک چھوردارچادرغائب ہوگئی ، کچھ لوگوں نے کیا کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ چادرلے لی ہو، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی جن حضرات نے لفظ (یغل) کی قرات حرف یاء کی زبر کے ساتھ کی ہے ان کے نزدیک اس کے معنی یخون کے ہیں یعنی خیانت کرے، غلول، عمومی طورپر خیانت کو کہتے ہیں لیکن بعد میں اس کا اطلاق مال غنیمت میں خیانت پر ہونے لگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلول کو اتنا بڑا گناہ قراردیا کہ آپ نے اسے کبائر کے درجے میں رکھا۔- قتادہ نے سالم بن ابی الجعد سے، انھوں نے معدان بن ابی طلحہ سے، انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام چوبان سے روایت کی ہے کہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے (من فارق الروح جسدہ وھوبرئی من ثلاث دخل الجنۃ الکبو والغلول والدین، جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حالت میں پرواز کرجائے کہ دہ تین باتوں ، تکبر، غلول اور قرض سے بری ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمدنے میں ایک شخص تھا جو، کرکرہ، کے نام سے پکاراجاتا تھا۔ جب اس کی وفات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں ہے، لوگوں نے اسے جاکر دیکھا تو اس کے جسم پر ایک چادریا ایک لمباکرتاتھاج سے اس نے مال غنیمت سے اڑالیا تھا۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کا کوئی دھاگہ یاسوئی ہو تو وہ بھی واپس کردے۔ اس لیے کہ یہ چیز قیامت کے دن اس کے لیے عار جہنم کی آگ اور ذلت کا باعث بنے گی۔ ، غلول کے جرم کی پاداش کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی حدیثیں منقول میں تاھم خوردنی شے کو استعمال میں لے آنے اور مویشیوں کا چارہ لے لینے کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم م، صحابہ کرام اور تابعین سے بکثرت روایات منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں۔ خیبر کی جنگ میں ہمیں کھانے پینے کی چیزہاتھ آگئی۔ پھر لوگ آتے اور اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے جاتے، مسلمان سے منقول ہے کہ مدائن کی جنگ میں انھیں میدے کی روٹیاں، پینر اور ایک چھری ساتھ آگئی۔ انھوں نے چھری سے پنیر کے ٹکڑے کیے اور لوگوں سے کہا بسم اللہ کرکے کھالو۔ روبفع بن ثابت (رض) انصاری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا (لا یحل لاحد یومن باللہ والیوم الاخران یرکب دابۃ من فئی المسلمین حتی اذا اعجقھاردھا فیہ ولایحل لامریء یومن باللہ والیوم الاخران یلیس ثوبامن فئی المسلمین حتی اذا اخلقہ ردہ فیہ۔ کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہویہ جائز نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے مال غنیمت سے کوئی سواری کا جانورہتھیاکرا سے اپنے استعمال میں لے آئے ۔ اگر اس نے یہ حر کرلی ہوتوخواہ وہ جانوربڈیوں کا ڈھانچہ ہی کیوں نہ رہ گیا ہو، پھر بھی وہ اسے مال غنیمت میں واپس کردے۔ اسی طرح جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے مسلمانوں کے مال غنیمت سے کوئی کپڑاچراکرپہنناحلال نہیں ہے۔ اگر کسی نے ایسا کر بھی لیاتوخواہ کپڑابوسیدہ کیوں نہ ہوچکا ہو پھر بھی وہ اسے واپس کردے - اس حدیث کے حکم کو اس حالت پر محمول کیا جائے گا جب اس شخص کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اگر وہ ضرورت مندہوتو فقہاء کے نزدیک اس چیز کو وہ اپنے استعمال میں رکھ سکتا ہے۔ حضرت براء بن مالک سے مروی ہے کہ انھوں نے یمامہ کی جنگ میں ایک مشرک کو ضرب لگائی جس سے وہ اپنی گدی کے بل زمین پر گرپڑا۔ پھر انھوں نے اس کی تلوارلے لی اور اسے اسی تلوار سے قتل کردیا۔
(١٦١) مجاہدین نے احد کے دن غنیمت کے حاصل کرنے میں جو مورچہ چھوڑ دیا تھا اور بعض منافقوں کا گمان تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں کچھ تقسیم نہیں کرتے، اس کی تردید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کسی بھی نبی کے لیے یہ چیز ہرگز جائز نہیں کہ وہ مال غنیمت میں اپنی امت کے ساتھ خیانت کرے اور اگر کوئی بھی غنیمت میں سے کسی چیز کو رکھ لے گا تو وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر لاد کر لائے گا اور وہاں اس کی سزا ملے گی، جہاں نہ کسی کی نیکیاں کم کی جائیں گی اور نہ گناہوں میں اضافہ کیا جائے گا ،- شان نزول : (آیت) ” وما کان لنبی ان یغل “۔ (الخ)- ابوداؤد (رح) اور ترمذی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ غزوہ بدر میں ایک سرخ چادر گم ہوگئی تو بعض لوگ کہنے لگے کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لی ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- کہ نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ خیانت کرے اور طبرانی نے کبیر میں سند صحیح کے ساتھ حضرات ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ کیا، اس کا جھنڈا لوٹا دیا گیا پھر دوبارہ روانہ کیا پھر لوٹا دیا گیا، تیسری مرتبہ روانہ کیا تو ہرنی کے سر کے برابر سونے کی خیانت کی بنا پر جھنڈا قائم نہ ہوسکا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١٦١ (وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ط) - غَلَّ یَغُلُّ غُلُوْلًا کے معنی ہیں خیانت کرنا اور مال غنیمت میں سے کسی چیز کا چوری کرلینا ‘ جبکہ غَلَّ یَغِلُّ غلاًّ کے معنی دل میں کینہ ہونا کے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر منافقوں نے الزام لگایا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت میں کوئی خیانت کی ہے (معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ) یہ اس الزام کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کا ارتکاب کرے۔ البتہ مولانا اصلاحی صاحب نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس لفظ کو صرف مالی خیانت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دراصل منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انہوں نے احد کی شکست کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگایا تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا ‘ اس کے ہاتھ پر بیعت کی ‘ اپنے نیک و بد کا اس کو مالک بنایا ‘ لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان و مال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ عرب پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہماری جانوں کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری و بےوفائی ہے۔ قرآن نے ان کے اس الزام کی تردید فرمائی ہے کہ تمہارا یہ الزام بالکل جھوٹ ہے ‘ کوئی نبی اپنی امت کے ساتھ کبھی بےوفائی اور بدعہدی نہیں کرتا۔ نبی جو قدم بھی اٹھاتا ہے رضائے الٰہی کی طلب میں اور اس کے احکام کے تحت اٹھاتا ہے۔- (وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ج) - اللہ تعالیٰ کے قانون جزا و سزا سے ایک نبی سے بڑھ کر کون باخبر ہوگا ؟ - (ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ )- نوٹ کیجیے لفظ تُوَفّٰییہاں بھی پور اپورا دیے جانے کے معنی میں آیا ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :114 جن تیرا ندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کےلیے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن کا لشکر لوٹا جارہا ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کو نہ مل جائے جو اسے لوٹ رہے ہیں اور ہم تقسیم کے موقع پر محروم رہ جائیں ۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ نے ان لوگوں کو بلا کر اس نافرمانی کی وجہ دریافت کی ۔ انہوں نے جواب میں کچھ عذرات پیش کیے جو نہایت کمزور تھے ۔ اس پر حضور نے فرمایا بل ظننتم انا نغل ولا نقسم لکم ۔ ”اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا ، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو حصہ نہیں دیں گے ۔ “ اس آیت کا اشارہ اسی معاملہ کی طرف ہے ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری فوج کا کمانڈر خود اللہ کا نبی تھا اور سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے تو تمہارے دل میں اندیشہ پیدا کیسے ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں تمہارا مفاد محفوظ نہ ہوگا ۔ کیا خدا کے پیغمبر سے یہ توقع رکھتے ہو کہ جو مال اس کی نگرانی میں ہو وہ دیانت ، امانت اور انصاف کے سوا کسی اور طریقہ سے بھی تقسیم ہو سکتا ہے؟
55: شاید اس بات کو یہاں ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مال غنیمت اکھٹا کرنے کے لئے اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی ؛ کیونکہ جو مال بھی حاصل ہوتا خواہ وہ کسی نے جمع کیا ہو بالآخر آنحضرتﷺ ہی اسے شرعی قاعدے سے انصاف کے ساتھ تقسیم فرماتے اور ہر شخص کو اس کا حصہ مل جاتا ؛ کیونکہ کوئی نبی مال غنیمت میں خیانت نہیں کرسکتا۔