Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

173۔ 1 کہا جاتا ہے کہ ابو سفیان نے بعض لوگوں کو معاوضہ دے کر یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں، لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کی بجائے مذید عزم اور ولولہ سے سرشار ہوگئے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔ اسی لئے حدیث میں حسبنا اللّٰہ و نَعْم الْوکِیْل پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧١] غزوہ احد سے واپسی کے وقت ابو سفیان نے مسلمانوں سے جو خطاب کیا تھا۔ (٣: ١٥٢) اس میں اس نے مسلمانوں کو چیلنج کیا تھا کہ ایک سال بعد پھر میدان بدر میں مقابلہ ہوگا اور اس چیلنج کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرما لیا۔ لیکن جب وعدہ کا وقت قریب آیا تو ابو سفیان خود ہی ہمت ہار بیٹھا۔ کیونکہ اس سال مکہ میں قحط پڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنی اس خفت و ندامت کو چھپانے اور الزام دوسرے کے سر تھوپنے کے لیے یہ تدبیر سوچی کہ خفیہ طور پر ایک شخص نعیم بن مسعود کو مدینہ بھیجا اور کچھ دے دلا کر اس کی ڈیوٹی یہ لگائی کہ وہاں جاکر یہ خبر مشہور کردے کہ اس دفعہ قریش نے اتنی زبردست تیاری کی ہے اور اتنا لشکر جرار جمع کر رہے ہیں کہ پورا عرب بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے گا۔ اور اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ مقابلہ کرنے کی انہیں ہمت ہی نہ رہے۔ چناچہ اس نے مدینہ جاکر یہ افواہ خوب پھیلائی۔ لیکن اس پروپیگنڈا کا اثر ابو سفیان کی توقع کے برعکس نکلا۔ اس خبر سے مسلمانوں کا ایمانی جوش اور بھی بڑھ گیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پندرہ سو صحابہ کو ساتھ لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔- اسی ضمن میں بخاری کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔- حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے (وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣۔ ) 3 ۔ آل عمران :173) کہا تھا اور جب لوگوں نے آنحضرت سے کہا کہ قریش کے کافروں نے آپ کے مقابلے کے لیے بڑا لشکر جمع کرلیا ہے تو آپ نے بھی یہی کلمہ کہا اور یہ خبر سن کر صحابہ کا ایمان بڑھ گیا اور انہوں نے بھی یہی کلمہ کہا۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- جب ابو سفیان کو یہ صورت حال معلوم ہوئی تو چار و ناچار نکلنا ہی پڑا۔ چناچہ وہ دو ہزار کی جمعیت لے کر مکہ سے روانہ ہوا۔ مگر دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔ اس سال لڑنا مناسب معلوم نہیں ہوتا آئندہ سال آئیں گے۔ اس کے ساتھی پہلے ہی یہی کچھ چاہتے تھے۔ چناچہ وہ وہیں سے واپس مکہ چلے گئے اور اس کی وجوہ کئی تھیں۔ مثلاً اس دفعہ اس کی فوج غزوہ احد کے مقابلہ میں صرف دو تہائی تھی۔ جبکہ مسلمانوں کی فوج دوگنا سے بھی زیادہ تھی۔ دوسرے وہ مسلمانوں کی جرات ایمان کو خوب ملاحظہ کرچکا تھا۔ تیسرے جو پروپیگنڈہ وہ پہلے کرچکا تھا اس مناسبت سے اس کے پاس لشکر نہایت قلیل تھا۔ چناچہ اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے واپس مڑ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اس غزوہ کو غزوہ سویق بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ ابو سفیان رسد کے طور پر ستو ہی ساتھ لایا تھا جو راستے میں گرتے بھی رہے اور واپسی پر اس رسد کو یہیں چھوڑ گئے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو سفیان کے انتظار میں آٹھ روز تک بدر کے مقام پر ٹھہرے رہے۔ اس دوران صحابہ کرام (رض) نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کرکے خوب فائدہ اٹھایا۔ پھر جب یہ پتہ چلا کہ ابو سفیان واپس چلا گیا ہے تو آپ بھی مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ ۔۔ : یہ آیت بھی واقعہ حمراء الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابوسفیان کو، جو اس وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا، مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلے کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ چیلنج بھیجا کہ میں نے بڑا لاؤ لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں، یہ سن کر مسلمانوں میں خوف اور کمزوری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے کہا : ( حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) ” ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ “ (ابن کثیر)- 2 عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) کا کلمہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کہا تھا جب انھیں آگ میں ڈالا گیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کہا، جب لوگوں نے کہا : (اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ ۔۔ الخ ) ” بیشک لوگوں نے تمہارے لیے (فوج) جمع کرلی ہے، سو ان سے ڈرو، تو اس بات نے انھیں ایمان میں زیادہ کردیا “ اور انھوں نے کہا : (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) ” ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( الذین قال لہم الناس۔۔ ) : ٤٥٦٣ ]- 3 فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا : اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کا ایمان مشرکین کے چیلنج کرنے سے بڑھ گیا، ظاہر ہے وہ پہلے نسبتاً کم تھا، تب ہی بڑھا۔ اس سے ایمان کی کمی بیشی ثابت ہوتی ہے اور ان لوگوں کی تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان جبریل (علیہ السلام) اور ابوبکر (رض) کے ایمان جیسا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان جس قدر بڑھتا ہے جذبۂ جہاد بھی بڑھتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے نہ جنگ کی نہ اپنے دل سے جنگ کی بات کی، وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔ “ [ أبو داوٗد، الجہاد، باب کراھیۃ ترک الغزو : ٢٥٠٢، عن أبی ہریرہ (رض) ۔ نسائی : ٣٠٩٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں اس جہاد کے لئے بڑھنے والے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مزید توصیف و تعریف اس طرح کی گئی۔- الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایماناً یعنی یہ وہ حضرات ہیں کہ جب ان لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف دشمنوں نے بڑا سامان اکٹھا کیا ہے ان سے ڈرو جنگ کا ارادہ نہ کرو تو اس خبر نے ان کا جوش ایمان اور بڑھا دیا درجہ یہ ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت جب ان حضرات نے قبول کی تھی تو پہلے ہی دن سے محسوس کرلیا تھا کہ ہم نے جس راستہ پر سفر شروع کیا ہے وہ خطرات سے پر ہے، قدم قدم پر مشکلات و موانع پیش آئیں گے، ہمارا راستہ روکا جائے گا اور ہماری انقلابی تحریک کو مٹانے کے لئے مسلح کوششیں کی جائیں گی اس لئے جب یہ حضرات اس قسم کی مشکلات کو دیکھتے تھے تو ایمان کی قوت پہلے سے زیادہ ہوجاتی تھی اور پہلے سے زیادہ جانفشانی اور فداکاری کے ساتھ کام کرنے لگتے تھے۔ ظاہر یہ ہے کہ ان حضرات کا ایمان تو اسلام لانے کے اول روز ہی سے کامل تھا، لہٰذا ان دونوں آیتوں میں ایمان کی زیادتی سے ایمان کی صفات اور ایمان کے ثمرات کی زیادتی مراد ہے اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر تیار ہوجانے والے صحابہ کی اس حالت کو بھی اس جگہ خصوصیت کے ساتھ بیان کیا کہ اس جہاد کے سفر میں تمام راستہ یہ جملہ ان کے ورد زبان رہا حسبنا اللہ و نعم الوکیل اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہتر کار ساز ہے - یہاں یہ بات خصوصیت سے قابل غور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام سے زیاد ہوتا دنیا میں کسی کا توکل و اعتماد اللہ تعالیٰ پر نہیں ہو سکتا، لیکن آپ کی صورت توکل یہ نہ تھی، کہ اسباب ظاہرہ کو چھوڑ کر بیٹھے رہتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ بیٹھے بیٹھائے ہمیں غلبہ عطا فرما دے گا، نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کو جمع کیا، زخم خوردہ لوگوں کے دلوں میں نئی روح پیدا فرمائی، جہاد کے لئے تیار کیا اور نکل کھڑے ہوئے جتنے اسباب و ذرائع اپنے اختیار میں تھے وہ سب مہیا اور استعمال کرنے کے بعد فرمایا کہ ہمیں اللہ کافی ہے، یہی وہ صحیح توکل ہے جس کی تعلیم قرآن میں دی گئی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر عمل کیا اور کرایا، اسباب ظاہرہ دنیویہ بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہیں، ان کو ترک کردینا اس کی ناشکری ہے، ترک اسباب کر کے توکل کرنا سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ہے، کوئی مغلوب الحال ہو تو وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے، ورنہ صحیح بات یہی ہے کہ برتوکل زانوے اشتر بہ بند - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ایک واقعہ میں اسی آیت حسبنا اللہ و نعم الوکیل کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے :- عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دو شخصوں کا مقدمہ آیا آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا، یہ فیصلہ جس شخص کے خلاف تھا اس نے فیصلہ نہایت سکون سے سنا اور یہ کہتے ہوئے چلنے لگا کہ حسبی اللہ ونعم الوکیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کو میرے پاس لاؤ اور فرمایا :- ” یعنی اللہ تعالیٰ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانے کو ناپسند کرتا ہے بلکہ تم کو چاہئے کہ تمام ذرائع اختیار کرو پھر بھی عاجز ہوجاؤ اس وقت کہو حسبی اللہ و نعم الوکیل۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝ ٠ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝ ١٧٣- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية،- وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] - الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ - نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (الذٰن قال لھم الناس ان الناس قد جمعوالکم۔ اور وہ، جن سے لوگوں نے کہا، تمہارے خلاف برفوجیں جمع ہوئی ہیں۔ ) تاآخرت آیت ۔ ابن عباس (رض) ، قتادہ اور ابن اسحاق سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے یہ خبردی تھی، وہ ایک قافلے والے تھے، اس قافلے میں ابوسفیان بھی تھا۔ مقصد یہ تھا کہ جب مسلمان احد سے واپس جانے لگیں تو انھیں روکاجائے۔ دوسری طرف مشرکین کا ارادہ یہ تھا کہ ایک بار پھر پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ ایک بدو تھا جسے معاوضہ دے کر مسلمانوں تک یہ خبرپہنچائے پر مامور کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص پر لفظ الناس کا اطلاق کیا یہ بات ان لوگوں کے بقول ہے جنھوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ دراصل یہ ایک شخص تھا۔ اس بناپران کے نزدیک عموم کے لفظ کا اطلاق کرکے خصوص مراد لیا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں چونکہ الناس کا لفظ اسم جنس ہے اور یہ بات تو واضح ہے کہ تمام لوگوں نے یہ اطلاق نہیں دی تھی اس لیے اسم جنس اپنے مدلول کے کم سے کم عددپر مشتمل ہے، جوان میں سے صرف ایک ہے۔ یہ گنجائش اس لیے پیداہوئی کہ لفظ الناس اسم جنس ہے اور صرف ایک فردمرادلینے پر اسم جنس کا تقاضاپورا ہوجاتا ہے۔ اسی بناپر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی نے یہ کہا : میں نے اگر لوگوں سے کلام کیا تو میراغلام آزاد ہے، تو اس صورت میں ایک شخص سے کلام کرنے پر بھی اسے غلام آزاد کرنا ہوگا اس لیے کہ الناس ، اسم جنس ہے اور یہ بات واضح ہے کہ یہاں استغراق یعنی تمام افراد نہیں ہیں اس بناپریہ صرف ایک فرد کو شامل ہوگا۔- آزمائش کے وقت ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے - قول باری ہے افاخشوھم فزادھم ایمانا، تم ان سے ڈروہ یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا) یہاں یہبات بتائی گئی ہے کہ خوف اور مشقت کے بڑھ جانے کے ساتھ ان کے یقین میں بھی اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ یہ خبرسن کر صحابہ کرام، اپنی پہلی حالت پر نہیں رہے بلکہ اس موقعہ پر ان کا یقین اور بڑھ گیا، اور دین کے متعلق ان کی بصیرت میں اور اضافہ ہوا۔ اس کی مثال وہ آیت ہے جس میں ارشادباری ہے (ولما رأی المؤمنوں الاحزاب قالواھذا ماوعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ۔ ومازادھم الاایمانا وتسلیما۔ جب اہل ایمان نے دشمنوں کی جماعتوں کو دیکھا تو کہنے لگے، اسی کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا۔ اس کی وجہ سے ان کا ایمان اور تسلیم و رضا کی کیفیت اور بڑھ گئی) دشمنوں کو دیکھ کر ان کے ایمان میں نیز اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے اور دشمنوں کے خلاف جہاد میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کرنے اور ڈٹ جانے کے جذبے میں اور اضافہ ہوگیا۔ ذرا اس اندازبیان پر غورکیجیے، کس بھرپورطریقے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے اور ان کی فضیلت وکمال کے اظہار کے لیے کیسا جامع پیرایہ بیان اپنایاگیا ہے۔ اس کا ایک پہلویہ ہے کہ ہمیں ان کے نقش قدم پرچلنے کی تعلیم دی جارہی ہے۔ نیز یہ بتایاجارہا ہے کہ ہم بھی اللہ کے حکم کی طرف رجوع کریں، اس کے حکم پر ڈٹ جائیں ، اسی پر بھروسہ کریں اور (حسبنا اللہ ونعم الوکیل اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے) ک اوردکریں نیز یہ کہ اگر ہم اس طریقے پر عمل پیراہوں گے تو اس کے نتیجے میں اللہ کی مدد اور تائید ہمارے شامل حال ہوجائے گی اور اس کی رضا اور ثواب کے حصول کے ساتھ ساتھ دشمن کے مکر اور شرارت کا رخ بھی موڑدیاجائے گا جیسا کہ قول باری ہے (فانقلبوابنعمۃ من اللہ وفضل لم لیسسھم سوء واتبعوارضوان اللہ۔ آخرکاروہ اللہ کی عنایت سے اس طرح پلٹ آئے کہ ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضاپرچلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٣) اگلی آیت بھی ان حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نعیم بن مسعود اشجعی نے ان حضرات سے کہہ دیا تھا کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے مکہ مکرمہ کے قریب لطیمہ نامی بازار میں ایک لشکر تمہارے مقابلے کے لیے تیار کیا ہے مگر صحابہ کرام (رض) میں یہ خبر سن کر اور جرأت پیدا ہوگئی، اور انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ اللہ تعالیٰ سب مہمات میں ہمارے لیے کافی ہیں اور جو کچھ کفار نے بازار میں اسباب جمع رکھے تھے، ان کو اور مال غنیمت اور اللہ تعالیٰ کی طرف ثواب لے کر لوٹ آئے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ )- اُسی کا سہارا سب سے اچھا سہارا ہے۔ چناچہ یہ لوگ بےخوف ہو کر مقابلے کے لیے نکلے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :123 یہ چند آیات جنگ احد کے ایک سال بعد نازل ہوئی تھیں مگر چونکہ ان کا تعلق احد ہی کے سلسلہ واقعات سے تھا اس لیے ان کو بھی اس خطبہ میں شامل کر دیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

59: جب کفار مکہ احد کی جنگ سے واپس چلے گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید ان کے ارادے سے باخبر ہو کر یا احد کے نقصان کی تلافی کے لیے جنگ احد کے اگلے دن سویرے صحابہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابہ کرام اگرچہ احد کے واقعات سے زخم خوردہ تھے، اور تھکے ہوئے بھی تھے، مگر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت پر لبیک کہا جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص معبد آپ سے ملا جو کافر ہونے کے باوجود آپ سے ہمدردی رکھتا تھا، اس نے مسلمانوں نے کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس کی ملاقات کفار مکہ کے سردار ابو سفیان سے ہوگئی، اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے لشکر اور اس کے حوصلوں کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ وہ لوٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے واپس چلا جائے۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس تو چلے گئے لیکن عبدالقیس کے ایک قافلے سے جو مدینہ منورہ جا رہا تھا یہ کہہ گئے کہ جب راستے میں ان کی ملاقات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو تو ان سے یہ کہیں کہ ابو سفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہونے والا ہے مقصد یہ تھا کہ اس خبر سے مسلمانوں پر رعب پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ جب حمراء الاسد پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو یہی بات کہی، لیکن صحابہ کرام نے اس سے مرعوب ہونے کے بجائے وہ جملہ کہا جو اس آیت میں تعریف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔