Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

184۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بددل نہ ہوں، ایسا معاملہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوچکا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٢] اس آیت میں (بینات) سے مراد معجزات۔ زبر سے چھوٹی چھوٹی کتابیں اور نصیحت نامے اور کتاب منیر سے مراد ایسی جامع کتاب ہے جس میں اوامرو نواہی، اخلاقیات، قصص اور مواعظ سب کچھ موجود ہو۔ جیسے تورات اور قرآن کریم ہیں۔ یعنی یہود نے آتشیں قربانی پیش کرنے والے انبیاء کو قتل کیا اور بہت سے رسول جو معجزات، نصیحت نامے اور جامع کتابیں لے کر آئے تھے انہیں بھی جھٹلاتے رہے ہیں۔ پھر اگر آپ کو بھی جھٹلا رہے ہیں تو تعجب نہ ہونا چاہئے بلکہ آپ صبر سے کام لیجئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہود کے تمسخر اور اعتراضات کا جواب دینے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ اس قسم کے شبہات پیدا کر کے اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ غم کی بات نہیں، کیونکہ آپ سے پہلے بہت سے انبیاء کے ساتھ وہ یہ سلوک کرچکے ہیں۔ ” البینات “ سے دلائل عقلیہ اور معجزات دونوں مراد ہیں۔ ” الزبر “ یہ زبور کی جمع ہے۔ اس سے وہ چھوٹے چھوٹے صحیفے مراد ہیں جن میں نیکی کی نصیحت، برائی سے روکنے اور حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی تھیں۔ داؤد (علیہ السلام) کو جو کتاب دی گئی تھی، قرآن نے اسے بھی ” زبور “ کہا ہے، کیونکہ اس میں بھی انہی چیزوں کا پہلو نمایاں ہے اور قرآن کی اصطلاح میں ” الکتاب “ سے مراد وہ بڑی کتاب ہے جس میں مسائل و احکام اور دوسری سب چیزیں ہوں، مگر ان کتابوں میں قرآن مجید کے سوا کسی کتاب کو اعجازی حیثیت حاصل نہیں ہوئی (کہ اس کی کسی سورت کے مقابلے میں اس جیسی ایک سورت لانے کا چیلنج ہو) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کی تکذیب پر آپ غمگین نہ ہوں، کیونکہ یہ معاملہ تو سبھی انبیاء کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَاۗءُوْ بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ۝ ١٨٤- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔- منیر - وتخصیص الشّمس بالضّوء، والقمر بالنّور من حيث إنّ الضّوء أخصّ من النّور، قال : وَقَمَراً مُنِيراً [ الفرقان 61] أي : ذا نور . ومما هو عامّ فيهم - اور نور حسبی کے متعلق فرمایا : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جسنے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ یہاں خاص کر سورج کو ضیاء اور قمر کو نور کہنے کیوجہ یہ ہے کہ ضوء نور سے اخص ہے ۔ وَقَمَراً مُنِيراً [ الفرقان 61] اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا ۔ یعنی روشنی بنایا ۔ اور بعض آیات میں نور عام معنی ہیں استعمال ہوا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٤ (فَاِنْ کَذَّبُوْکَ ) - تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ معاملہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ نہیں ہوا۔- (فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ ) - یہ تو اس راستے کا ایک عام تجربہ ہے ‘ جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو بھی گزرنا پڑے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani