Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انبیاء کے قاتل بنو اسرائیل یہاں ان اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے جو گناہ اور حرام کام کرتے رہتے تھے اور اللہ کی پہلی اور بعد کی باتوں کو جو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ پہنچائیں جھٹلاتے رہتے تھے ، اتنا ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کو مار ڈالتے بلکہ اس قدر سرکش تھے کہ جو لوگ انہیں عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بےدریغ تہ تیغ کر دیا کرتے تھے ، حدیث میں ہے حق کو نہ ماننا اور حق والوں کو ذلیل جاننا یہی کبر و غرور ہے کہ مسند ابو حاتم میں ہے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب کسے ہو گا ؟ آپ نے فرمایا جو کسی نبی کو مار ڈالے یا کسی ایسے شخص کو جو بھلائی کا بتانے والا اور برائی سے بچانے والا ہو تکبر و غرور ہے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا اے ابو عبیدہ بنو اسرائیل نے تینتالیس نبیوں کو دن کے اول حصہ میں ایک ہی ساعت میں قتل کیا پھر ایک سو ستر بنو اسرائیل کے وہ ایماندار جو انہیں روکنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے انہیں بھلائی کا حکم دے رہے تھے اور برائی سے روک رہے تھے ان سب کو بھی اسی دن کے آخری حصہ میں مار ڈالا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انہی کا ذکر کر رہا ہے ، ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ بنو اسرائیل نے تین سو نبیوں کو دن کے شروع میں قتل کیا اور شام کو سبزی پالک بیچنے بیٹھ گئے ، پس ان لوگوں کی اس سرکشی تکبر اور خود پسندی نے ذلیل کر دیا اور آخرت میں بھی رسوا کن بدترین عذاب ان کے لئے تیار ہیں ، اسی لئے فرمایا کہ انہیں دردناک ذلت والے عذاب کی خبر پہنچا دو ، ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت اور آخرت میں بھی برباد اور ان کا کوئی مددگار اور سفارشی بھی نہ ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی ان کی سرکشی و بغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیا بلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالا جو عدل و انصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت و فضیلت بھی واضح کردی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] انبیاء اور صالحین کے قتل ناحق کا کام دور نبوی کے یہود نے نہیں کیا تھا بلکہ ان کے اسلاف نے کیا تھا اور یہ واقعات اتنے مشہور و معروف تھے کہ کسی کو مجال انکار نہ تھی۔ پھر چونکہ دور نبوی کے یہودی اپنے اسلاف کے ایسے کارناموں پر راضی اور خوش تھے۔ لہذا قرآن نے بجا طور پر انہیں مخاطب کیا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے تینتالیس (٤٣) پیغمبروں کو ایک ہی دن صبح کے وقت قتل کیا یہ کام بنی اسرائیل کے علماء اپنی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعہ سرانجام دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حکومت کے ذریعہ سولی پر چڑھانے کی مذموم کوشش کی تھی۔ جب یہ لوگ اتنے انبیاء کو قتل کرچکے تو ان کے متبعین اور اللہ سے ڈرنے والوں نے ان کے ایسے مذموم کارنامہ پر زبردست احتجاج کیا تو انہوں نے ان صالحین میں سے ایک سو ستر سر کردہ آدمیوں کو اسی شام قتل کردیا، اور یہ وہ لوگ تھے جو ان کو ایسی بری حرکتوں سے روکتے اور انصاف کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اور ان انبیاء کے قتل کرنے کا اصل سبب وہی تھا جو قرآن نے واضح الفاظ میں بتلا دیا ہے کہ انبیاء کی اطاعت کرنے سے ان کا اپنا جاہ و اقتدار خطرہ میں پڑجاتا تھا۔ لہذا انہوں نے اپنی سرداریاں اور چودھراہٹیں بحال رکھنے کی خاطر انبیاء اور صالحین کو قتل کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔- انبیاء کا قتل بہت بڑے کبیرہ گناہوں سے ہے۔ حضرت ابو عبیدہ نے ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب کس کو ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : جس نے کسی پیغمبر کو قتل کیا یا اچھی بات کہنے والے اور بری بات سے منع کرنے والے کو نیز حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے ہمیں بہت سی احادیث سنائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس قوم پر اللہ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے جو اللہ کے رسول کو قتل کریں۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب اشتداد غضب اللہ من قتلہ رسول اللہ) - [٢٦] یہود کے لیے خوشخبری کے لفظ کا استعمال تو بطور طنز ہے اور جو دردناک عذاب انہیں اس دنیا میں ملا اس کا اجمالاً ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ یہی قوم مغضوب علیہم قرار دی گئی اور ذلت و مسکنت ان کے مقدر کردی گئی۔ الا یہ کہ وہ دوسرے لوگوں کی پناہ میں آجائیں۔ رہا عذاب اخروی تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بتلادیا کہ ایسے ہی لوگ سب سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ ۔۔ : اس میں اہل کتاب کی مذمت ہے، جن کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے نہ صرف احکام الٰہی پر عمل کرنے سے انکار کیا بلکہ انبیاء اور ان لوگوں کو قتل کرتے رہے جنھوں نے کبھی ان کے سامنے دعوت حق پیش کی اور یہ تکبر کی آخری حد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ ایک آدمی نے عرض کیا : ” ایک آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا خوبصورت ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ “ [ مسلم،- الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١، عن ابن مسعود (رض) ]- اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن سب سے سخت عذاب اس شخص کو ہوگا جسے کسی نبی نے قتل کیا، یا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو۔ “ [ مسند أحمد : ١؍٤٠٧، ح : ٣٨٦٧، عن ابن مسعود (رض) : الصحیحۃ ٢٨١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ربط آیات - شروع سورة میں کلام کا زیادہ رخ نصاری کی طرف تھا، پھر آیت بالا میں (الذین اوتوا الکتاب) کا عنوان نصاری اور یہود دونوں کو شامل تھا، اب ان آیات میں یہود کے بعض خاص احوال کا بیان ہے، روح المعانی میں بروایت ابن ابی حاتم (رح) اس آیت کی تفسیر میں خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے تینتالیس (٤٣) نبیوں کو ایک وقت میں قتل کیا، ان کی نصیحت کے لئے ایک سو ستر (١٧٠) بزرگ کھڑے ہوئے، اسی دن ان کا بھی کام تمام کردیا۔ (بیان القرآن) - بیشک جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ ( جیسے یہود کہ انجیل اور قرآن کو نہیں مانتے تھے) اور قتل کرتے ہیں پیغمبروں کو ( اور وہ قتل کرنا خود ان کے خیال میں بھی) ناحق (ہوتا ہے) اور (نیز) قتل کرتے ہیں ایسے شخصوں کو جو ( افعال و اخلاق کے) اعتدال کی تعلیم دیتے ہیں، سو ایسے لوگوں کو خبر سنا دیجیے سزائے درد ناک کی (اور) یہ وہ لوگ ہیں کہ ( مجموعہ افعال مذکورہ کے سبب سے) ان کے سب اعمال ( صالحہ) غارت ہوگئے دنیا میں ( بھی) اور آخرت میں ( بھی) اور (سزا کے وقت) ان کا کوئی حامی و مددگار نہ ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ۝ ٠ ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ۝ ٠ ۙ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ٢١- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ان الذین یکفرون بایات اللہ ویقتلون النبیین بغیرحق و یقتلون الذین یامرون بالقسط من الناس فبشرھم یعذاب الیم، جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جو خلق خدا میں عدل اور راستی کا حکم دینے کے لیئے اٹھیں ان کو دردناک سزا کی خوشخبری سنادو) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ قیامت کے دن کس شخص کی سزاسب سے زیادہ سخت ہوگی ؟ آپ نے فرمایا (رجل قتل نبیا اور رجل ھوب معروف تھی عن منکرء اس شخص کی سزاسب سے سخت ہوگی جس نے کسی نبی کو یا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے شخص کو قتل کیا ہوگا) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا، ابوعبیدہ بنی اسرائیل نے دن کے اول حصے میں اچانک حملہ کرکے تینتا لیس انبیاء کو بیک وقت قتل کردیا تھا پھر بنی اسرائیل میں سے ایک سوبارہ عابدوزاہدلوگ میدان میں آگئے اور انہوں نے ان قاتلین کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی تبلیغ شروع کردی شام ہوتے ہوتے یہ تمام لوگ موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے یہ سب کچھ ایک دن میں ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان ہی لوگوں کا ذکر کیا ہے۔- اس آیت میں قتل کے خوف کے باوجود غلط اور ناجائز بات کی نزدید کا جواز موجود ہے۔ یہ ایسا اد نچامقام ہے جس کے لیئے اللہ کی طرف سے اجرحبزیل کا استحقاق ہوجاتا ہے اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے کہ جب انہوں نیامربالمعروف اور نہی عن المنکر کیا تو جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ حضرت ابوسعید خدری اور دوسرے حضرات نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے اس قول کی روایت کی ہے کہ (افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر، ظالم حاکم یاسلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ ) ایک روایت میں ہے کہ جس کی وجہ سے اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑجائے، امام ابوحنیفہ نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ (افضل الشھداء حمزۃ بن عبدالمطلب ورجل تکلم بکلمۃ حق عندسلطان جائر فقتل، افضل شہید حمزہ بن عبدالمطلب ہیں نیزوہ شخص جو کسی ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہدے اور پھر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ )- عمروبن عبید کا قول ہے کہ ہمیں بھلائی اور نیکی کے کاموں میں کسی ایسے کام کے بارے میں علم نہیں ہے جو عدل وانصاف قائم کرنے سے بڑھ کر افضل ہو جس پرا سے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑجائے۔ اللہ تعالیٰ نے (فبشرھم بعذاب الیم) فرمایا حالان کہ اس سے پہلے جس چیز کی خبردی گئی تھی اس کا تعلق ان کے اسلاف سے تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمان سے میں موجود کفار اپنے آباؤ واجدا کے قبیح افعال سے پوری طرح خوش اور ان پر رضامند تھے اس لیئے وعید کی خبرسنا نے میں انہیں بھی ان کے ساتھ شامل کرگیا۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلم تقتلون انبیاء اللہ من قبل ، تم اس سے پہلے اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے تھے ؟ (الذین قالوا ان اللہ عھدالینا الانؤمن یوسول حتی یا تینا بقربان تأکلہ النارقل قدجاء کم رسل من قبلی بالبینت بالذی قلتم فلم قتلتموھم ان کنم صادقین، جو لوگوں کہتے ہیں، اللہ نے ہمیں ہدایت کردی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ کرے جسے غیب سے آکر آگ کھالے۔ ان سے کہو، تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آچکے ہیں۔ جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا تم ذکر کرتے ہو۔ پھر اگر (ایمان لانے کے لیئے یہ شرط پیش کرنے میں) تم سچے ہو تو ان رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا)- اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو قتل کرنے کی نسبت ان کافروں کی طرف کردی جو آیت میں مخاطب تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلاف کے ان افعال قبیحہ پر راضی تھے اور ان سے اپنی محبت اور تعلق کا دم بھرتے تھے اس بناپر یہ بھی عذاب اور سزا کے استحقاق میں ان کے ساتھ اسی طرح شریک ہوگئے جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کے قتل پر رضا کے اظہار میں ان کے ساتھ شریک تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١) بیشک جو لوگ انکار کرتے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی برحق ہونے کا اور قرآن کریم کے کتاب الہی ہونے کا اور انبیاء کرام کو قتل کرتے ہیں حالانکہ یہ قتل کرنا خود ان کے نزدیک بھی برا ہے نیز ایسے مومنین کو بھی قتل کرتے ہیں جو انبیاء کرام پر ایمان لائے اور توحید کا حکم دیتے ہیں تو ایسے مومنین کے قاتلین کو ایک درد ناک سزا کی خبر سنا دیجیے کہ جس کی شدت ان کے جسموں سے گزر کر دلوں تک سرایت کرجائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ ) (وَّیَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِلا) - اس لیے کہ انصاف کی بات تو بالعموم کسی کو پسند نہیں ہوتی۔ اَلْحَقُّ مُرٌّ (حق بات کڑوی ہوتی ہے) ۔ بہت سے مواقع پر کسی حق گو انسان کو حق گوئی کی پاداش میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ یہاں پھر عدل و قسط کا معاملہ آیا ہے۔ اللہ خود قَآءِمًا بالْقِسْطِہے اور اللہ کے محبوب بندے وہی ہیں جو عدل کا حکم دیں ‘ انصاف کا ڈنکا بجانے کی کوشش کریں۔ تو فرمایا کہ جو ایسے لوگوں کو قتل کریں۔۔- (فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) ۔- لفظ بشارتیہاں طنز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :19 یہ طنزیہ انداز بیان ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani