66۔ 1 تمہارے علم اور دیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے۔ یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے بےاصل بھی ہیں اور بےعقلی کا مظہر بھی تو پھر تم اس بات پر کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شان اور ان کی ملت حنفیہ کے بارے میں جس کی اساس توحید و اخلاص پر ہے۔
[٥٩] یعنی ایسی باتوں میں تو تمہیں جھگڑا کرنے کا کسی حد تک حق پہنچتا ہے۔ جن کے متعلق تمہیں کچھ علم ہے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو تورات اور انجیل میں بشارات دی گئی ہیں۔ مگر جن باتوں کا تمہیں علم ہی نہیں ان میں تمہیں جھگڑا کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ تم دونوں فرقوں میں سے کسی نے بھی حضرت ابراہیم کو دیکھا نہ ان کا زمانہ پایا نہ ان کے حالات زندگی اور ان کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ یہودی تھے ؟ یا نصرانی تھے ؟
لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ: یعنی اس دین ابراہیمی سے متعلق۔ مراد یہ ہے کہ جب تم تورات و انجیل ہی کے مسائل میں بھٹکے اور کیسے بھٹکے، حالانکہ وہاں کچھ علم تمہیں حاصل تھا، تو اب دین ابراہیمی کے بارے میں کیوں کٹ حجتی پر تلے ہو، جس کے بارے میں تو تمہیں علم کا شائبہ بھی حاصل نہیں ؟ (ماجدی) اس آیت میں نہ صرف غلط طور پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ مطلقاً جھگڑے سے گریز کی نصیحت بھی کی ہے۔ (ابن کثیر، فتح القدیر )
ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ٦٦- حاجَّة- والمُحاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- يحجّ مأمومة في قعرها لجف - الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
بحث ومباحثہ بغیر علم کے فضول ہے - قول باری ہے۔ (ھا انتم ھئولاء حاججتم فیمالکم بہ علم فلم تحاجون فیمالیس لکم بہ علم، تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کرچکے ہو اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہوں جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں) حق کی خاطر بحث ومباحثہ کرنے اور دلائل پیش کرنے کی صحت کی یہ آیت سب سے واضح دلیل ہے۔ اس لیئے کہ اگر ہر قسم کے بحث ومباحثہ کی ممانعت ہوتی تو علم کی بنیادپر اور علم کے بغیر بحث ومباحثہ کے درمیان فرق نہ کیا جاتا۔ قول باری (حاججتم فیمالکم بہ علم کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے مراد باتیں ہیں جو انہیں اپنی کتابوں سے ملی تھی۔ جس بات کا انہیں علم نہیں تھا تو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ان کا یہ کہنا کہ آپ یہودی یا نصرافی تھے
آیت ٦٦ (ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ) - (فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ ط) - ان چیزوں کے بارے میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ‘ کوئی علمی بنیاد نہیں۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :58 یعنی تمہاری یہ یہودیت اور یہ نصرانیت بہرحال تورات اور انجیل کے نزول کے بعد پیدا ہوئی ہیں ، اور ابراہیم علیہ السلام جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت یا نصرانیت تو نہ تھا ۔ پھر اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام راہ راست پر تھے اور نجات یافتہ تھے تو لامحالہ اس سے لازم آتا ہے کہ آدمی کا راہ راست پر ہونا اور نجات پانا یہودیت و نصرانیت کی پیروی پر موقوف نہیں ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ١۳۵ و ١٤١ )
26: یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، توحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بے بنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم (علیہ السلام) تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے؟