Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] علم میں پختہ کار لوگوں کا شیوہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے۔ بلکہ اللہ سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ جو فتنہ انگیز لوگ متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کی فکر ہمارے فکر پر کہیں اثر انداز نہ ہوجائے اور اپنی رحمت خاص سے ہمیں ایسے فتنہ پرور لوگوں کے افکار و عقائد سے بچائے رکھ اور صحیح عقل و فکر عطا فرما۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہ وہ دعا ہے جو راسخ فی العلم حضرات اللہ تعالیٰ کے حضور کرتے رہتے ہیں، ہدایت پر ثابت قدمی کی دعا کے ساتھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہونے کا یقین بھی ہر وقت ان کے پیش نگاہ رہتا ہے، ان کی اصل کوشش اور دعا دنیا کے لیے نہیں بلکہ آخرت کے لیے ہوتی ہے۔ ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : ( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ )” اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “ [ ترمذی، الدعوات، باب دعاء یا مقلب القلوب ۔۔ : ٣٥٢٢، وصححہ الألبانی ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - پچھلی آیت میں حق پرستوں کے ایک کمال کا ذکر تھا کہ وہ باوجود علمی کمال رکھنے کے اس پر مغرور نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرتے تھے، اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ ان کے دوسرے کمال کو بیان فرما رہے ہیں۔- خلاصہ تفسیر - اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو کج نہ کیجئے بعد اس کے کہ آپ ہم کو ( حق کی طرف) ہدایت کرچکے ہیں اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت ( خاصہ) عطا فرمایئے ( وہ رحمت یہ ہے کہ راہ مستقیم پر قائم رہیں) بلاشبہ آپ بڑے عطا فرمانے والے ہیں، اے ہمارے پروردگار ( ہم یہ دعا کجی سے بچنے کی اور حق پر قائم رہنے کی کسی دنیاوی غرض سے نہیں مانگتے بلکہ محض آخرت کی نجات کے واسطے، کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ) آپ بلاشبہ تمام آدمیوں کو ( میدان حشر میں) جمع کرنے والے ہیں اس دن میں جس ( کے آنے) میں ذرا شک نہیں ( یعنی قیامت کے دن میں اور شک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے آنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خلاف نہیں کرتے وعدہ کو ( اس لئے قیامت کا آنا ضرور ہے اور اس واسطے ہم کو اس کی فکر ہے) - معارف و مسائل - پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت اور ضلالت اللہ ہی کی جانب سے ہے اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کے دل کو نیکی کی جانب مائل کردیتے ہیں اور جس کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اس کے دل کو سیدھے راستہ سے پھیر لیتے ہیں۔ چناچہ ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، وہ جب تک چاہتے ہیں اس کو حق پر قائم رکھتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں اس کو حق سے پھیر دیتے ہیں۔ وہ قادر مطلق ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اس لئے جن لوگوں کو دین پر قائم رہنے کی فکر ہوتی ہے وہ ہمیشہ اپنے اللہ سے استقامت کی دعا مانگتے ہیں، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ استقامت کی دعا مانگا کرتے تھے چناچہ ایک حدیث میں ہے یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ ( مظہری، ج ٢)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۝ ٠ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۝ ٨- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔- وَهَّابِ- بمعنی: أنه يعطي كلًّا علی استحقاقه،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) اہل ایمان یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہدایت حق عطا کردینے کے بعد ہمارے دلوں کو حق سے دور نہ کیجیے اور اسلام پر ہمیں ثابت قدم رکھیے اور ہم سے پہلے مسلمانوں کو یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ نبوت اور دین اسلام عطا فرمانے والے ہیں اور یہ وہ یہ بھی کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار آپ مرنے کے بعد تمام انسانوں کو بلاشبہ ایسے دن جمع کرنے والے ہیں، جس کے واقع ہونے میں ذرا بھی شک نہیں۔- مرنے کے بعد زندہ ہونا، حساب، پل صراط، جنت، دوزخ، اور میزان عمل ان میں بلاشبہ کوئی وعدہ خلافی نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا) (وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ج) ( اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ) - ہمیں جو بھی ملے گا تیری ہی بارگاہ سے ملے گا۔ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani