ہماری سمجھ سے بلند آیات یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے ۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے ، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی ، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں ، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں ، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں ، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں ، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو ، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں ، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو ، محکم اور متشابہ کے بہت سے معنی اسلاف سے منقول ہیں ، حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جو ناسخ ہوں جن میں حلال حرام احکام حکم ممنوعات حدیں اور اعمال کا بیان ہو ، اسی طرح آپ سے یہ بھی مروی ہے ( آیت قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم الخ ، ) اور اس کے بعد کے احکامات والی اور ( آیت وقضی ربک ان لا تبعدوا الخ ، ) اور اس کے بعد کی تین آیتیں محکمات سے ہیں ، حضرت ابو فاختہ فرماتے ہیں سورتوں کے شروع میں فرائض اور احکام اور روک ٹوک اور حلال و حرام کی آیتیں ہیں ، سعید بن جبیر کہتے ہیں انہیں اصل کتاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام کتابوں میں ہیں ، حضرت مقاتل کہتے ہیں اس لئے کہ تمام مذہب والے انہیں مانتے ہیں ، متشابہات ان آیتوں کو کہتے ہیں جو منسوخ ہیں اور جو پہلے اور بعد کی ہیں اور جن میں مثالیں دی گئیں ہیں اور قسمیں کھائی گئی ہیں اور جن پر صرف ایمان لایا جاتا ہے اور عمل کیلئے وہ احکام نہیں ، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے حضرت مقاتل فرماتے ہیں اس سے مراد سورتوں کے شروع کے حروف مقطعات ہیں ۔ حضرت مجاہد کا قول یہ ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ) 39 ۔ الزمر:23 ) اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل کی چیزوں کا ذِکر ہو جیسے جنت دوزخ کی صفت ، نیکوں اور بدوں کا حال وغیرہ وغیرہ ۔ اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں اس لئے ٹھیک مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا اور حضرت محمد بن اسحاق بن یسار کا یہی فرمان ہے ، فرماتے ہیں یہ رب کی حجت ہے ان میں بندوں کا بچاؤ ہے ، جھگڑوں کا فیصلہ ہے ، باطل کا خاتمہ ہے ، انہیں ان کے صحیح اور اصل مطلب سے کوئی گھما نہیں سکتا نہ ان کے معنی میں ہیرپھیر کر سکتا ہے ۔ متشابہات کی سچائی میں کلام نہیں ان میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہئے ۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے ، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا چاہئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جن کے دِلوں میں کجی ٹیڑھ پن گمراہی اور حق سے باطل کی طرف ہی ہے وہ تو متشابہ آیتوں کو لے کر اپنے بدترین مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور لفظی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی طرف موڑ لیتے ہیں اور جو محکم آیتیں ان میں ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ان کے الفاظ بالکل صاف اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں نہ وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں نہ ان سے اپنے لئے کوئی دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اس سے ان کا مقصد فتنہ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ اپنے ماننے والوں کو بہکائیں ، اپنی بدعتوں کی مدافعت کریں جیسا کہ عیسائیوں نے قرآن کے الفاظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا لڑکا ہونے کی دلیل لی ہے ۔ پس اس متشابہ آیت کو لے کر صاف آیت جس میں یہ لفظ ہیں کہ ( آیت ان ھو الا عبد الخ ، یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کے غلام ہیں ، جن پر اللہ کا انعام ہے ، اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ) 3 ۔ آل عمران:59 ) یعنی حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم کی طرح ہے کہ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ہوجا ، وہ ہو گیا ، چنانچہ اسی طرح کی اور بھی بہت سی صریح آیتیں ہیں ان سب کو چھوڑ دیا اور متشابہ آیتوں سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا بیٹا ہونے پر دلیل لے لی حالانکہ آپ اللہ کی مخلوق ہیں ، اللہ کے بندے ہیں ، اس کے رسول ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کی دوسری غرض آیت کی تحریف ہوتی ہے تاکہ اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر مفہوم بدل لیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں میں جھگڑتے ہیں تو انہیں چھوڑ دو ، ایسے ہی لوگ اس آیت میں مراد لئے گئے ہیں ۔ یہ حدیث مختلف طریق سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے ، صحیح بخاری شریف میں بھی یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے ، ملاحظہ ہو کتاب القدر ، ایک اور حدیث میں ہے یہ لوگ خوارج ہیں ( مسند احمد ) پس اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ موقوف سمجھ لیا جائے تاہم اس کا مضمون صحیح ہے اس لئے کہ پہلے بدعت خوارج نے ہی پھیلائی ہے ، فرقہ محض دنیاوی رنج کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت حنین کی غنیمت کا مال تقسیم کیا اس وقت ان لوگوں نے اسے خلاف عدل سمجھا اور ان میں سے ایک نے جسے ذواخویصرہ کہا جاتا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر صاف کہا کہ حضرت عدل کیجئے ، آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اللہ نے امین بنا کر بھیجا تھا ، اگر میں بھی عدل نہیں کروں تو پھر برباد ہو اور نقصان اٹھائے ، جب وہ پلٹا تو حضرت عمر فاروق نے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے مار ڈالوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑ دو ، اس کے ہم خیال ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم لوگ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنی قرآن خوانی کو ان کی قرآن خوانی کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے لیکن دراصل وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ، تم جہاں انہیں پاؤ گے قتل کرو گے ، انہیں قتل کرنے والے کو بڑا ثواب ملے گا ، حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں ان کا ظہور ہوا اور آپ نے انہیں نہروان میں قتل کیا پھر ان میں پھوٹ پڑی تو ان کے مختلف الخیال فرقے پیدا ہوگئے ، نئی نئی بدعتیں دین میں جاری ہوگئیں اور اللہ کی راہ سے بہت دور چلے گئے ، ان کے بعد قدریہ فرقے کا ظہور ہوا ، پھر معتزلہ پھر جہمیہ وغیرہ پیدا ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی کہ میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوں گے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے ۔ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ( مستدرک حاکم ) ایویعلیٰ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ایک قوم پیدا ہوگی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن اسے اس طرح پھینکے گی جیسے کوئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا ہو ، اس کے غلط مطالب بیان کرے گی ، پھر فرمایا اس کی حقیقی تاویل اور واقعی مطلب اللہ ہی جانتا ہے ، لفظ اللہ پر وقف ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس تو فرماتے ہیں تفسیر چار قسم کی ہے ، ایک وہ جس کے سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں ، ایک وہ جسے عرب اپنے لغت سے سمجھتے ہیں ، ایک وہ جسے جید علماء اور پورے علم والے ہی جانتے ہیں اور ایک وہ جسے بجزذاتِ الہٰی کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے ، حضرت عائشہ کا بھی یہی قول ہے ، معجم کبیر میں حدیث ہے کہ مجھے اپنی امت پر صرف تین باتوں کا ڈر ہے ۔ مال کی کثرت کا جس سے حسد و بغض پیدا ہوگا اور آپس کی لڑائی شروع ہوگی ، دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کی تاویل کا سلسلہ شروع ہو گا حالانکہ اصلی مطلب ان کا اللہ ہی جانتا ہے اور اہل علم والے کہیں گے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے ۔ تیسرے یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے بےپرواہی سے ضائع کر دیں گے ، یہ حدیث بالکل غریب ہے اور حدیث میں ہے کہ قرآن اس لئے نہیں اترا کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالف ہو ، جس کا تمہیں علم ہو اور اس پر عمل کرو اور جو متشابہ ہوں ان پر ایمان لاؤ ( ابن مردویہ ) ابن عباس حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت مالک بن انس سے بھی یہی مروی ہے کہ بڑے سے بڑے عالم بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے ، ہاں اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ پختہ علم والے یہی کہتے ہیں اس کی تاویل کا علم اللہ ہی کو ہے کہ اس پر ہمارا ایمان ہے ۔ ابی بن کعب بھی یہی فرماتے ہیں ، امام ابن جریر بھی اسی سے اتفاق کرتے ہیں ، یہ تو تھی وہ جماعت جو الا اللہ پر وقف کرتی تھی اور بعد کے جملہ کو اس سے الگ کرتی تھی ، کچھ لوگ یہاں نہیں ٹھہرتے اور فی العلم پر وقف کرتے ہیں ، اکثر مفسرین اور اہل اصول بھی یہی کہتے ہیں ، ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو سمجھ میں نہ آئے اس بات کا ٹھیک نہیں ، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے میں ان راسخ علماء میں ہوں جو تاویل جانتے ہیں ، مجاہد فرماتے ہیں راسخ علم والے تفسیر جانتے ہیں ، حضرت محمد بن جعفر بن زبیر فرماتے ہیں کہ اصل تفسیر اور مراد اللہ ہی جانتا ہے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے پھر متشابہات آیتوں کی تفسیر محکمات کی روشنی کرتے ہیں جن میں کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ، قرآن کے مضامین ٹھیک ٹھاک سمجھ میں آتے ہیں دلیل واضح ہوتی ہے ، عذر ظاہر ہو جاتا ہے ، باطل چھٹ جاتا ہے اور کفر دفع ہو جاتا ہے ، حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس کیلئے دعا کی کہ اے اللہ انہیں دین کی سمجھ دے اور تفسیر کا علم تھے ، بعض علماء نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے ، قرآن کریم میں تاویل دو معنی میں آئی ہے ، ایک معنی جن سے مفہوم کی اصلی حقیقت اور اصلیت کی نشاندہی ہوتی ہے ، جیسے قرآن میں ہے ( يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا ) 12 ۔ یوسف:100 ) میرے باپ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے ، اور جگہ ہے آیت ( هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ) 7 ۔ الاعراف:53 ) کافروں کے انتظار کی حد حقیقت کے ظاہر ہونے تک ہے اور یہ دن وہ ہوگا جب حقیقت سچائی کی گواہ بن کر نمودار ہوگی ، پس ان دونوں جگہ پر تاویل سے مراد حقیقت ہے ، اگر اس آیت مبارکہ میں تاویل سے مراد یہی تاویل لی جائے تو الا اللہ پر وقف ضروری ہے اس لئے کہ تمام کاموں کی حقیقت اور اصلیت بجز ذات پاک کے اور کوئی نہیں جانتا تو راسخون فی العلم مبتدا ہوگا اور یقولون امنابہ خبر ہوگی اور یہ جملہ بالکل الگ ہوگا اور تاویل کے دوسرے معنی تفسیر اور بیان اور ہے اور ایک شئی کی تعبیر دوسری شے ہے ، جیسے قرآن میں ہے آیت ( نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ) 12 ۔ یوسف:36 ) ہمیں اس کی تاویل بتاؤ یعنی تفسیر اور بیان ، اگر آیت مذکورہ میں تاویل سے یہ مراد لی جائے تو فی العلم پر وقف کرنا چاہئے ، اس لئے کہ پختہ علم والے علماء جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیونکہ خطاب انہی سے ہے ، گو حقائق کا علم انہیں بھی نہیں ، تو اس بنا پر امنا بہ حال ہوگا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بغیر معطوف علیہ کے معطوف ہو ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ ) 59 ۔ الحشر:8 ) سے ( يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 59 ۔ الحشر:10 ) تک دوسری جگہ ہے آیت ( وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ) 89 ۔ الفجر:22 ) یعنی وجاء الملائکۃ صفوفا صفوفا اور ان کی طرف سے یہ خبر کہ ہم اس پر ایمان لائے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہ پر ایمان لائے ، پھر اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب یعنی محکم اور متشابہ حق اور سچ ہے اور یعنی ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:82 ) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا ، اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ اسے صرف عقلمند ہی سمجھتے ہیں جو اس پر غور و تدبر کریں ، جو صحیح سالم عقل والے ہوں جن کے دماغ درست ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ پختہ علم والے کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی قسم سچی ہو ، جس کی زبان راست گو ہو ، جس کا دِل سلامت ہو ، جس کا پیٹ حرام سے بچا ہو اور جس کی شرم گاہ زناکاری سے محفوظ ہو ، وہ مضبوط علم والے ہیں ( ابن ابی حاتم ) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ قرآن شریف کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو تم سے پہلے لوگ بھی اسی میں ہلاک ہوئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی آیتوں کو ایک دوسرے کیخلاف بتا کر اختلاف کیا حالانکہ کتاب اللہ کی ہر آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے ، تم ان میں اختلاف پیدا کرکے ایک کو دوسری کے متضاد نہ کہو ، جو جانو وہی کہو اور جو نہیں جانو اسے جاننے والوں کو سونپ دو ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ قرآن سات حرفوں پر اترا ، قرآن میں جھگڑنا کفر ہے ، قرآن میں اختلاف اور تضاد پیدا کرنا کفر ہے ، جو جانو اس پر عمل کرو ، جو نہ جانو اسے جاننے والے کی طرف سونپو جل جلالہ ( ایویعلی ) راسخ فی العلم کون؟ نافع بن یزید کہتے ہیں راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو متواضح ہوں جو عاجزی کرنے والے ہوں ، رب کی رضا کے طالب ہوں ، اپنے سے بڑوں سے مرعوب نہ ہوں ، اپنے سے چھوٹے کو حقیر سمجھنے والے نہ ہوں ۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دِلوں کو ہدایت پر جمانے کے بعد انہیں ان لوگوں کے دِلوں کی طرح نہ کر جو متشابہ کے پیچھے پڑ کر برباد ہو جاتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی صراطِ مستقیم پر قائم رکھ اور اپنے مضبوط دین پر دائم رکھ ، ہم پر اپنی رحمت نازل فرما ، ہمارے دِلوں کو قرار دے ، ہم سے گندگی کو دور کر ، ہمارے ایمان و یقین کو بڑھا تو بہت بڑا دینے والا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے تھےحدیث ( یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ) اے دِلوں کے پھیرنے والے میرے دِل کو اپنے دین پر جما ہوا رکھ ، پھر یہ دعا ربنا لاتزغ پڑھتے اور حدیث میں ہے کہ آپ بکثرت یہ دعا پڑتھے تھے حدیث ( اللھم مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک حضرت اسماء نے ایک دن پوچھا کیا دِل الٹ پلٹ ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہر انسان کا دِل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ، اگر چاہے قائم رکھے اگر چاہے پھیر دے ، ہماری دعا ہے ہمارا رب دِلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمتیں عنایت فرمائے ، وہ بہت زیادہ دینے والا ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے کہ میں اپنے لئے مانگا کروں ، آپ نے فرمایا یہ دعا مانگ ( حدیث اللھم رب محمد النبی اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن ) اے اللہ اے محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب میرے گناہ معاف فرما ، میرے دِل کا غصہ اور رنج اور سختی دور کر اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا لے ، حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی آپ کی دعا یامقلب القلوب سن کر حضرت اسماء کی طرح میں نے بھی یہی سوال کیا اور آپ نے وہی جواب دیا اور پھر قرآن کی یہ دعا سنائی ، یہ حدیث غریب ہے لیکن قرآنی آیت کی تلاوت کے بغیر یہی بخاری مسلم میں بھی مروی ہے ، اور نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے ( حدیث لا الہ الا انت سبحانک استغفرک لذنبی واسئلک رحمۃ اللھم زدنی علما ولا تزغ بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب ) اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں ، اللہ میرے علم میں زیادتی فرما اور میرے دِل کو تو نے ہدایت دے دی ہے اسے گمراہ نہ کرنا اور مجھے اپنے پاس کی رحمت بخش تو بہت زیادہ دینے والا ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے مغرب کی نماز پڑھائی ، پہلی دو رکعتوں میں الحمدشریف کے بعد مفصل کی چھوٹی سی دو سورتیں پڑھیں اور تیسری رکعت میں سورۃ الحمد شریف کے بعد یہی آیت پڑھی ۔ ابو عبد اللہ صبالجی فرماتے ہیں میں اس وقت ان کے قریب چلا گیا تھا ، یہاں تک کہ میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے مل گئے تھے اور میں نے خود اپنے کان سے ابو بکر صدیق کو یہ پڑھتے ہوئے سنا ( عبدالرزاق ) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب تک یہ حدیث نہیں سنی تھی آپ اس رکعت میں قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے لیکن یہ حدیث سننے کے بعد امیرالمومنین نے بھی اسی کو پڑھنا شروع کیا اور کبھی ترک نہیں کیا ۔ پھر فرمایا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ تو قیامت کے دن اپنی تمام مخلوق کو جمع کرنے والا ہے اور ان میں فیصلے اور حکم کرنے والا ہے ، ان کے اختلافات کو سمیٹنے والا ہے اور ہر ایک کو بھلے برے عمل کا بدلہ دینے والا ہے اس دن کے آنے میں اور تیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
7۔ 1 محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامر ونواہی، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا اس کے برعکس آیات متشابھات ہیں مثلا اللہ کی ہستی قضا و قدر کے مسائل، جنت و دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماوراء عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے فتنے برپا کرتے ہیں جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عبد اللہ اور نبی کہا یہ واضح اور محکم بات ہے لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جو کہا گیا اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدال کرتے ہیں یہی حال اہل بدعت کا ہے قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں وہ انہیں متشابہات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات محکمات کو بھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے متشابھات بنا دیتے ہیں اعاذنا اللہ منہ۔ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پر عمل کرتا ہے اور متشابھات کے مفہوم کو بھی اگر اس میں اشتباہ ہو محکمت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی اصل کتاب قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد گمراہی سے بھی جعلنا اللہ منہم 7۔ 2 تاویل کے ایک معنی تو ہیں کسی چیز کی اصل حقیقت اس معنی کے اعتبار سے الْا اللّٰہُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طور پر صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاویل کے دوسرے معنی ہیں کسی چیز کی تفسیر و تعبیر اور بیان، اس اعتبار سے الْا اللّہ پر وقف کے بجائے (وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ ) 3 ۔ آل عمران :7) پر بھی وقف کیا جاسکتا ہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر کا علم رکھتے ہیں تاویل کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں (ملخص از ابن کثیر)
[٦] محکم آیات وہ ہیں جن کا مطلب واضح ہو، ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی دوسرا مطلب لیا جاسکتا ہو اور ان سے مراد حلال و حرام سے متعلق احکام اور اوامرو نواہی ہیں، اور یہی چیزیں انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ چونکہ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے اور محکمات سے انسان کو پوری رہنمائی مل جاتی ہے۔ لہذا محکمات کو ہی ام الکتاب کا نام دیا گیا اور یہی وہ آیات ہیں جن کے متعلق قرآن کا دعویٰ ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے۔- [٧] متشابہات ایسی آیات ہیں جن کا مفہوم ذہن انسانی کی دسترس سے بالا ہوتا ہے۔ انسان کی عقل چونکہ محدود ہے اور کائنات اور اس کے حقائق لامحدود ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ جب ایسے حقائق کو بیان فرماتے ہیں تو ایسے الفاظ استعمال فرماتے ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہوں اور انسانی فہم سے بھی۔ ان آیات کا ٹھیک ٹھیک مفہوم چونکہ انسانی ذہن میں نہیں آسکتا اس لیے ان میں اشتباہ کی گنجائش ہوتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس کی تاویل کرنے لگتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ ایسی آیات عموماً ذات وصفات الٰہی سے متعلق ہی ہوتی ہیں جیسے (ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ 59) 25 ۔ الفرقان :59) اور ( اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى ) 20 ۔ طه :5) اب اس بات کے پیچھے پڑنا کہ اللہ کا عرش کیسا ہے، وہ خود کیسا ہے اور کس طرح عرش پر بیٹھا ہے۔ اس قسم کی سوچ سراسر گمراہی ہے۔ کیونکہ اللہ نے خود ہی فرما دیا ہے کہ (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ 11 ) 42 ۔ الشوری:11) - [٨] واضح رہے کہ گمراہ فرقوں کی اکثریت کا ہدف یا محل استدلال ایسی ہی متشابہ آیات ہوا کرتی ہیں مثلاً مذکورہ بالا آیات کی جب جہمیہ اور معتزلہ کو سمجھ نہ آئی اور ازروئے عقل انہوں نے اس کی تاویل کی تو استویٰ کے معنی ہی بدل کر استولیٰ (غالب آنا) کرلیے۔ ان کا نظریہ ہے کہ چونکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے لہذا ایسی آیات کی تاویل لازم ہے۔ اس آیت میں وہ لوگ عرش (اور ایسے ہی بعض مقامات پر کرسی) کا معنی اقتدار اور استویٰ کے معنی استولیٰ (غالب آنا) کرکے ان آیات کو اپنے عقیدہ کے موافق بنا لیتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ ایسی آیات کی تاویل کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم میں) انہی لوگوں کا ذکر کیا ہے، لہذا ان سے بچو (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر آیت مذکور) - متشابہات کی دوسری قسم ذومعنی الفاظ ہیں۔ جیسے عربی زبان اور اسی طرح کئی دوسری زبانوں میں بھی، ابن یا بیٹا صرف اپنے حقیقی بیٹے کو ہی نہیں کہتے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی، غلام اور نوکر کو بھی از راہ شفقت و پیار بیٹا کہہ دیتے ہیں۔ اسی لفظ سے یہود کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ واقعی اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اور نصاریٰ کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) واقعی اللہ کے بیٹے تھے ان لوگوں کے اس باطل خیال کی قرآن کریم میں کئی مقامات پر تردید کی گئی ہے۔- اسی طرح آغاز کائنات اور زمین و آسمان کی تخلیق کے متعلق سوال کرنے والوں کا جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورة حم السجدہ کی آیت نمبر ١٠ میں فرمایا (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10) 41 ۔ فصلت :10) (یعنی سوال کرنے والوں کا جواب پورا ہوا) اب چونکہ سواء اور سائل دونوں الفاظ ذومعنی ہیں لہذا اشتراکی ذہن رکھنے والوں نے ان الفاظ سے اپنا نظریہ کشید کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین سب رزق مانگنے والوں کے لیے یکساں ہے۔ لہذا یہ انفرادی ملکیت میں رہنے کی بجائے حکومت کی تحویل میں ہونی چاہیئے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق قطعاً ایسے نظریہ کی حمایت نہیں کرتا جس کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی کے انکار پر اٹھتی ہے۔ تاہم ایسے کج ذہن لوگوں نے مسلمانوں کو اشتراکیت کی طرف مائل کرنے کے لیے ان الفاظ سے اپنے نظریہ کی تائید کی ہے یہ بحث ذرا تفصیل سے اپنے مقام پر ملے گی۔- [٩] متشابہات کا تعلق چونکہ ایسے حقائق سے ہوتا ہے جو انسانی عقل کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اور انسان کی ہدایت سے بھی ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ لہذا عقل صحیح اور قلب سلیم رکھنے والے لوگ ان کے درپے نہیں ہوا کرتے۔ ان کا انداز فکر یہ ہوتا ہے کہ چونکہ دونوں قسم کی آیات کا منبع ایک ہی ہے اس لیے دونوں منزل من اللہ، درست اور صحیح ہیں۔ وہ متشابہات پر ایمان اس لحاظ سے رکھتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ارشادات ہیں اور اس کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک تو ایسی آیات کا انسانی ہدایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرے اس کی کنہ کے پیچھے پڑنے میں گمراہی کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔- مندرجہ بالا تفسیر ان لوگوں کے مطابق ہے جو الا اللہ پر وقف کو لازم قرار دیتے ہیں اور یہی تفسیر راجح اور انسب ہے۔ کہ علامت وقف سے بھی ظاہر ہے۔ تاہم بعض حضرات یہاں وقف کو ضروری نہیں سمجھتے اور اس کے بعد کی واو کو عاطفہ قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے معنی یوں بنتا ہے کہ متشابہات کی حقیقت کو اللہ ہی جانتا ہے۔ نیز علم میں رسوخ رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں لیکن یہ تفسیر اس لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی کہ بیشمار متشابہات ایسے ہیں جن کی حقیقت اللہ کے علاوہ کسی راسخ فی العلم کو بھی معلوم نہیں ہوسکتی۔ جن میں سرفہرست تو حروف مقطعات ہیں۔ علاوہ ازیں اور بھی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں جو بالخصوص اللہ کی ذات وصفات سے تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ ذومعنی الفاظ والی آیات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ (رَاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ ) اس کی حقیقت کو پاسکیں۔
ایک جگہ قرآن مجید کی تمام آیات کو محکم کہا گیا ہے، چناچہ فرمایا : (الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ) [ ھود : ١ ] ’ الۗرٰ ، ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں۔ “ اور دوسری جگہ تمام آیات کو متشابہ، چناچہ فرمایا : (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ ) [ الزمر : ٢٣ ] ” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے۔ “ اور یہاں بعض آیات کو متشابہ قرار دیا ہے، بعض کو محکم، مگر اس میں کوئی تعارض نہیں۔ تمام آیات کے محکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورے قرآن میں کوئی کمی یا خرابی نہیں، نہایت مضبوط اور محکم ہے اور متشابہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام آیات فصاحت و بلاغت اور مضامین و معانی میں ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ اس جگہ جو فرمایا کہ بعض محکم ہیں اور بعض متشابہ، تو محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح اور صریح ہے، ان میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ان کو ” اُمُّ الْكِتٰبِ “ قرار دیا ہے، یعنی اصل اور بنیاد۔ انھی آیات میں لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی گئی ہے اور انھی میں دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور نصیحتیں اور عبرتیں بھی ان میں شامل ہیں، انسانی گمراہیوں کی نشاندہی بھی ان آیات میں کی گئی ہے۔ جبکہ متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جو ملتے جلتے کئی معانی کا احتمال رکھتی ہیں، اس لیے ان کا اصل مرادی معنی سمجھنے میں لوگوں کو اشتباہ ہوجاتا ہے، یا ان میں تاویل کی گنجائش نکل سکتی ہے، یا جن میں ایسے حقائق کا بیان ہے جن پر مجمل طور پر ایمان لانا تو ضروری ہے لیکن ان کی تفصیلات کو جاننا نہ انسان کے لیے ضروری ہے اور نہ عقلی استعداد کے ساتھ ممکن ہے۔ تفسیر وحیدی میں لکھا ہے : ” صفاتِ الٰہیہ کے منکرین تو اللہ تعالیٰ کے استواء (عرش پر ہونے کو) اور اس کے ید (ہاتھ) اور اس کے نزول (ہر رات آسمان دنیا پر اور قیامت کے دن زمین پر اترنے) کو متشابہات قرار دے کر ان کے معنی سمجھنے ہی کو ناممکن قرار دیتے ہیں، مگر اہل حدیث انھیں محکم مانتے ہیں، ان کے معانی کو واضح سمجھتے ہیں، البتہ کیفیت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ “ - اس آیت میں نصاریٰ کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق ” کلمتہ “ اور ” روح منہ “ وغیرہ آیات سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے الٰہ ہونے اور اللہ کا بیٹا ہونے پر تو استدلال کرتے ہیں مگر دوسری آیات : (اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ ) [ الزخرف : ٥٩ ] ” نہیں ہے وہ مگر ایک بندہ جس پر ہم نے انعام کیا۔ “ اور (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ) [ آل عمران : ٥٩ ] ” بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے “ ان پر اور ان جیسی دیگر آیات پر دھیان نہیں دیتے۔ ( ابن کثیر)- فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ: یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اور جن کا مشغلہ ہی محض فتنہ جوئی ہوتا ہے، وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور چونکہ وہ کئی معانی کا احتمال رکھتی ہیں، اس لیے وہ ان سے وہ معنی نکالتے ہیں جو قرآن کی صریح اور محکم آیات کے خلاف ہوتے ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور اپنے خیال میں اس کی اصل مراد تلاش کرنے کے لیے۔ ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو ” اُولُوا الْاَلْبَابِ “ تک پڑھا اور پھر فرمایا : ” جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے، سو تم ان سے بچو۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( منہ آیات محکمات ) : ٤٥٤٧ ] - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب النہی عن الجدال : ٤٦٠٣، عن أبی ہریرۃ (رض) ، صحیح ] پس ضروری ہے کہ قرآن کا جو حصہ محکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور جو متشابہ ہے اس پر جوں کا توں ایمان رکھا جائے اور تفصیلات سے بحث نہ کی جائے۔ (فتح البیان، ابن کثیر) - وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ : اکثر ائمہ لفظ ” اللہ “ پر وقف کر کے ” وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ “ سے نیا کلام شروع سمجھتے ہیں، یعنی متشابہات کی اصل مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخ فی العلم لوگ کہتے ہیں کہ محکم و متشابہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں، ہم متشابہات کی اصل مراد نہ جانتے ہوئے بھی ان کے من عند اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ - اور کچھ ائمہ کا کہنا ہے : ” وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ “ کا لفظ ” اللہ “ پر عطف ہے، یعنی اہل زیغ متشابہ آیات کا پیچھا فتنے کی تلاش کے لیے اور ان سے فاسد معنی مراد لینے کے لیے کرتے ہیں اور ایسے معنی نکالتے ہیں جو قرآن و حدیث کی نصوص کے خلاف ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا اصل معنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے، یا پختہ علم والے جو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اس لیے ان کا ایسا معنی مراد ہو ہی نہیں سکتا جو دوسری آیات و احادیث کے خلاف ہو۔- وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ” لُبٌّ“ کی جمع ہے، جس کا معنی خالص عقل ہے۔ (راغب) جس عقل میں خواہش پرستی، بدعت یا شرک کی آمیزش ہو وہ ” لُبٌّ“ نہیں کہلاتی۔ مقصد یہ ہے کہ متشابہ کے اصل معنی تک رسائی کی توفیق اہل علم کو بھی ہوتی ہے مگر صرف ان اہل علم کو جن کی عقل ہر قسم کی خواہش پرستی، بدعت اور شرک سے پاک ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عباس (رض) کے لیے دعا فرمائی : ( اَللَّھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَ عَلِّمْہُ التَّأْوِیْلَ )” اے اللہ اسے دین میں سمجھ عطا فرما اور اسے تاویل کا علم عطا فرما۔ “ [ مستدرک حاکم : ٣؍٥٣٤، ح : ٦٢٨٠ مسند أحمد، ١ ٢٦٦، ح ٢٤٠١، صحیح ] معلوم ہوا تاویل کا علم راسخ فی العلم لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ - احسن البیان میں ہے، تاویل کے ایک معنی تو ہیں کسی چیز کی اصل حقیقت، اس معنی کے لحاظ سے ” اِلَّا اللّٰهُ “ پر وقف ضروری ہے، کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طور پر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاویل کے دوسرے معنی ہیں، کسی چیز کی تفسیر اور بیان و توضیح، اس اعتبار سے ” اِلَّا اللّٰهُ “ پر وقف کے بجائے ” وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ “ پر بھی وقف کیا جاسکتا ہے، کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر و توضیح کا علم رکھتے ہیں۔ تاویل کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں۔ (ملخص از ابن کثیر)
ربط آیات - پچھلی چار آیتوں میں توحید باری تعالیٰ کا اثبات تھا، اس آیت میں توحید کے خلاف بعض شبہات کا جواب ہے، واقعہ اس کا یہ ہے کہ ایک دفعہ نجران کے کچھ نصاری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور مذہبی گفتگو شروع کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاری کے عقیدہ تثلیث کی تردید بڑی تفصیل سے فرما کر توحید باری تعالیٰ کو ثابت کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دعوے پر اللہ تعالیٰ کی صفات حیات دائمہ، قدرت کاملہ، علم محیط اور قدرت تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے یکتا اور منفرد ہونے سے استدلال کیا، اور یہ سب مقدمات نصاری کو تسلیم کرنا پڑے، جب توحید ثابت ہوگئی تو اسی سے تثلیث کے عقیدہ کا بطلان بھی ثابت ہوگیا، ان لوگوں نے قرآن کے ان الفاظ پر اپنے کچھ شبہات پیش کئے جن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کا روح اللہ یا کلمة اللہ ہونا مذکور ہے کہ ان الفاظ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شرکت الہیت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان شبہات کو ختم کردیا کہ یہ کلمات متشابہات ہیں، ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوتے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان ایک راز ہیں، جن کی حقیقت پر عوام مطلع نہیں ہوسکتے، عوام کے لئے ان الفاظ کی تحقیق میں پڑنا بھی روا نہیں، ان پر اس طرح ایمان لانا ضروری ہے کہ جو کچھ ان سے اللہ تعالیٰ کی مراد ہے وہ حق ہے، مزید تفتیش اور کھود کرید کرنے کی اجازت نہیں ہے۔- خلاصہ تفسیر - وہ ( اللہ تعالی) ایسا ہے جس نے نازل کیا تم پر کتاب کو، جس کا ایک حصہ وہ آیتیں ہیں جو کہ اشتباہ مراد سے محفوظ ہیں، ( یعنی ان کا مطلب ظاہر ہے) اور یہی آیتیں اصلی مدار ہیں ( اس) کتاب (یعنی قرآن) کا (یعنی جن کے معنی ظاہر نہ ہوں ان کو بھی ظاہر المعنی کے موافق بنایا جاتا ہے) اور دوسری آیتیں ایسی ہیں جو کہ مشتبہ المراد ہیں ( یعنی ان کا مطلب خفی ہے، خواہ مجمل ہونے کی وجہ سے خواہ کسی نص ظاہر المراد کے ساتھ معارض ہونے کی وجہ سے) سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کے اسی حصہ کے پیچھے ہو لیتے ہیں جو مشتبہ المراد ہے ( دین میں) شورش ڈھونڈنے کی غرض سے اور اس ( مشتبہ المراد) کے (غلط) مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے ( تاکہ اپنے غلط عقیدہ میں اس سے مطلب حاصل کریں) حالانکہ اس کا ( صحیح) مطلب بجز حق تعالیٰ کے کوئی اور نہیں جانتا ( یا اگر وہ خود قرآن یا حدیث کے ذریعہ سے صراحة یا اشارة بتلادیں، جیسے لفظ صلوٰة کی مراد صراحة معلوم ہوگئی، اور استواء علی العرش وغیرہ کی تاویل بعض کی رائے پر قواعد کلیہ سے معلوم ہوگئی، تو بس اسی قدر دوسروں کو بھی خبر ہوسکتی ہے، زیادہ معلوم نہیں ہوسکتا، جیسے مقطعات قرآنیہ کے الف لام میم وغیرہ کے معنی کسی کو معلوم نہیں ہوئے، اور بعض کی رائے پر استواء علی العرش کے معنی بھی معلوم نہیں ہوئے) اور ( اسی واسطے) جو لوگ علم ( دین) میں پختہ کار ( اور فہیم) ہیں وہ ( ایسی آیتوں کے متعلق) یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر ( اجمالا) یقین رکھتے ہیں سب ( آیتیں ظاہر المعنی بھی خفی المعنی بھی) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں ( پس ان کے جو کچھ معنی اور مراد واقع میں ہوں وہ حق ہیں) اور نصیحت ( کی بات کو) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو کہ اہل عقل ہیں ( یعنی عقل کا مقتضا بھی یہی ہے کہ مفید اور ضروری بات میں مشغول ہو مضر اور فضول قصہ میں نہ لگے ) ۔- معارف و مسائل - پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آیات محکمات اور متشابہات کا ذکر فرماکر ایک عام اصول اور ظابطے کی طرف اشارہ کردیا ہے، جس کے سمجھ لینے کے بعد بہت سے شبہات اور نزاعات ختم ہوسکتے ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں دو قسم کی آیات پائی جاتی ہیں، ایک قسم کو محکمات کہتے ہیں اور دوسری کو متشابہات۔ محکمات ان آیات کو کہتے ہیں جن کی مراد ایسے شخص پر بالکل ظاہر اور بین ہو جو قواعد عربیہ کو اچھی طرح جاننے والا ہو، اور جن آیات کی تفسیر اور معانی ایسی شخص پر ظاہر نہ ہوں ان کو متشابہات کہتے ہیں ، ( مظہری ج ٢) - پہلی قسم کی آیات کو اللہ تعالیٰ نے ام الکتاب کہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ساری تعلیمات کا اصل اصول یہی آیات ہوتی ہیں جن کے معانی اور مفاہیم اشتباہ و التباس سے پاک ہوتے ہیں۔- اور دوسری قسم کی آیات میں چونکہ متکلم کی مراد مبہم اور غیر متعین ہوتی ہے اس لئے ان آیات کے بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو پہلی قسم کی طرف راجع کر کے دیکھنا چاہئے، جو معنی اس کے خلاف پڑیں ان کی قطعا نفی کی جائے، اور متکلم کی مراد وہ سمجھی جائے جو آیات محکمات کے مخالف نہ ہو، اور کوئی ایسی تاویل اور توجیہہ صحیح نہ سمجھی جائے گی جو اصول مسلمہ اور آیات محکمہ کے خلاف ہو، مثلا قرآن حکیم نے مسیح (علیہ السلام) کی نسبت تصریح کردی کہ ( ان ھو الا عبد انعمنا علیہ۔ ٣٤: ٩٥) ایسے ہی دوسری جگہ ارشاد ہے ( ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل ادم خلقہ من تراب۔ ٣: ٩٥) - ان آیات اور انہی کی مثل دوسری بہت سی آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور اس کی مخلوق ہیں، لہذا نصاری کا ان کے بارے میں الوہیت اور ابنیت کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں۔- اب اگر کوئی شخص ان سب محکمات سے آنکھیں بند کر کے صرف کلمة اللہ اور روح منہ وغیرہ متشابہات کو لے دوڑے اور اس کے وہ معنی لینے لگے جو محکمات قرآنیہ اور متواتر بیانات کے منافی ہوں تو یہ اس کی کجروی اور ہٹ دھرمی ہوجائے گی۔- کیونکہ متشابہات کی صحیح مراد صرف اللہ ہی کو معلوم ہے وہی اپنے کرم و احسان سے جس کو جس قدر حصہ پر آگاہ کرنا چاہتا ہے کردیتا ہے، لہذا ایسے متشابہات سے اپنی رائے کے مطابق کھینچ تان کر کوئی معنی نکالنا صحیح نہیں ہے۔- (فاما الذین فی قلوبھم زیغ) اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ جو لوگ سلیم الفطرت ہوتے ہیں، وہ متشابہات کے بارے میں زیادہ تحقیق و تفتیش نہیں کرتے، بلکہ اجمالا ایسی آیات پر ایمان لے آتے ہیں کہ یہ بھی اللہ کا بر حق کلام ہے، اگرچہ اس نے کسی مصلحت کیوجہ سے ہم کو ان کے معانی پر مطلع نہیں فرمایا، در حقیقت یہی طریقہ سلامتی اور احتیاط کا ہے، اس کے برخلاف بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں کجی ہے، وہ محکمات سے آنکھیں بند کر کے متشابہات کی کھوج کرنے میں لگے رہتے ہیں، ان اور ان سے اپنی خواہش کے مطابق معانی نکال کر لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جب آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں جو متشابہات کی تفتیش میں لگے ہوئے ہیں تو آپ ان سے دور بھاگیں، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ( قرآن) میں کیا ہے۔ (بخاری ج ٢) ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر تین باتوں کا خوف ہے، اول یہ کہ مال بہت مل جائے جس کی وجہ سے باہمی حسد میں مبتلا ہوجائیں اور کشت و خون کرنے لگیں، دوسری یہ کہ کتاب اللہ سامنے کھل جائے ( یعنی ترجمہ کے ذریعہ ہر عامی اور جاہل بھی اس کے سمجھنے کا مدعی ہوجائے) اور اس میں جو باتیں سمجھنے کی نہیں ہیں یعنی متشابہات ان کے معنی سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں، حالانکہ ان کا مطلب اللہ ہی جانتا ہے، تیسری یہ کہ ان کا علم بڑھ جائے تو اسے ضائع کردیں اور علم کو بڑھانے کی جستجو چھوڑ دیں۔ (ابن کثیر بحوالہ طبرانی) - (والراسخون فی العلم یقولون امنا بہ) راسخون فی العلم سے کون لوگ مراد ہیں ؟ اس میں علماء کے اقوال مختلف ہیں، راجح قول یہ ہے کہ ان سے مراد اہل السنة والجماعة ہیں جو قرآن وسنت کی اسی تعبیر و تشریح کو صحیح سمجھتے ہیں جو صحابہ کرام سلف صالحین اور اجماع امت سے منقول ہو، اور قرآنی تعلیمات کا محور اور مرکز محکومات کو مانتے ہیں، اور متشابہات کے جو معانی ان کے فہم و ادراک سے باہر میں کوتاہ نظری اور قصور علمی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو خدا کے سپرد کرتے ہیں، وہ اپنے کمال علمی اور قوت ایمانی پر مغرور نہیں ہوتے، بلکہ ہمیشہ حق تعالیٰ سے استقامت اور مزید فضل و عنایت کے طلبگار رہتے ہیں ان کی طبعیتیں فتنہ پسند نہیں ہوتیں کہ متشابہات ہی کے پیچھے لگی رہیں، وہ محکمات اور متشابہات سب کو حق سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ دونوں قسم کی آیات ایک ہی سرچشمہ سے آئی ہیں، البتہ ایک قسم یعنی محکمات کے معانی ہمارے لئے معلوم کرنے مفید اور ضروری تھے تو اللہ تعالیٰ نے وہ پوشیدہ نہیں رکھے بلکہ کھول کھول کر بیان کردیئے اور دوسری قسم یعنی متشابہات کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے بیان نہیں فرمائے۔ لہذا ان کا معلوم کرنا بھی ہمارے لئے ضروری نہیں، ایسی آیات پر ایمان اجمالا لے آنا ہی کافی ہے۔- (طبرانی ملخصا)
ھُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ٠ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ زَيْـغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ ٠ ۚ۬ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ ٠ ۘؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ٠ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ٠ ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ٧- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- محكم - : ما لا يعرض فيه شبهة من حيث اللفظ، ولا من حيث المعنی. والمتشابه علی أضرب تذکر في بابه إن شاء اللہ . وفي الحدیث : «إنّ الجنّة للمُحَكِّمِين» قيل : هم قوم خيّروا بين أن يقتلوا مسلمین وبین أن يرتدّوا فاختاروا القتل . وقیل : عنی المتخصّصين بالحکمة .- آیت کریمہ : ۔ آياتٌ مُحْكَماتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتابِ وَأُخَرُ مُتَشابِهاتٌ [ آل عمران 7] جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب میں اور بعض متشابہ ہیں ۔ میں محکمات سے وہ آیات مراد ہیں جن میں لفظی اور معنوی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ نہ پایا جاتا ہو اور متشابہ کی چند قسمیں ہیں جنہیں ان کے باب ( ش ب ہ ) میں بیان کیا جائیگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حدیث میں ہے کہ جنت محکمین کے لئے ہے بعض نے کہا ہے کہ محکمین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں کہا جائے کہ یا تو مرتد ۔ ہوجاؤ ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے تو وہ قتل ہونا پسند کرین اور بعض نے کہا ہے کہ محکمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حکمت کے ساتھ متخصص ہیں ۔- شبه - الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، - ( ش ب ہ )- الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - تأويل - من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر :- وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة .- والأَوْلُ : السیاسة التي تراعي مآلها، يقال : أُلْنَا وإِيلَ علینا - التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ (35) ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔ الاول ( ن) کے معنی ہیں مآل اور نتیجہ پر نظر رکھتے ہوئے سیاست اور انتظام کرنا ۔ اسی سے کہا جاتا ہے قد النا وبل علینا ۔ ہم نے حکومت کی اور ہم پر حکومت کی گئی - رسخ - رُسُوخُ الشیء : ثباته ثباتا متمکّنا، ورَسَخَ الغدیر : نضب ماؤه، ورَسَخَ تحت الأرض، والرَّاسِخُ في العلم : المتحقّق به الذي لا يعرضه شبهة . فَالرَّاسِخُونَ في العلم هم الموصوفون بقوله تعالی: الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا [ الحجرات 15] ، وکذا قوله تعالی:- لكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ [ النساء 162] .- ( ر س خ ) رسوخ الشیئ ۔ کسی چیز کا محکم اور جائے گیر ہوجانا ۔ رسخ الغدیر ۔ جوہڑ کا پانی خشک ہو کر زمین میں جذب ہوگیا ۔ الراسخ فی العلم وہ محقق جسے کوئی اشکال اور شبہ پیش نہ آئے ۔ گویا یہ راسخ فی العلم لوگ وہی ہیں ۔ جو آیت :۔ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا [ الحجرات 15] پس سچے مسلمان تو وہ ہیں ) جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر ( کسی طرح کا ) شک وشبہ نہیں کیا میں مذکورہ صفات کیساتھ متصف ہیں اور اسیطرح سورة نساء میں فرمایا :۔ لكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ [ النساء 162] لیکن ( اے پیغمبر ) ان میں سے جو علم میں بڑی پائے گاہ رکھتے ہیں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم - محکمات اور متشابہات کا بیان - قول باری ہے (ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات ھن امرالکتب واخرمتشابھات) وہی خدا ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے اس میں دوطرح کی آیتیں ہیں ایک حکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات تاآخر آیت ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی اس تفسیر کے آغاز میں محکم اور متشابہ کے معانی بیان کردیئے ہیں اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی دوقسمیں ہیں، ایک کے لحاظ سے پورے قرآن کو اس کے ساتھ موصوف کرنا ورست ہے اور دوسرے کے لحاظ سے قرآن کے بعض حصوں کو اس کے ساتھ مختص کرنا صحیح ہے قول باری ہے (الرکتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر) ، الریہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات محکم ہیں اور پھر ان کی تفصیل ایک حکیم وخبیرذات کی طرف سے بیان کردی گئی ہے) نیز فرمایا (الرتلک آیات الکتاب الحکیم ، الر، یہ حکمت والی کتاب کی آیات ہیں) اللہ تعالیٰ نے ان آیات ہیں پورے قرآن کو صفت محکم کے ساتھ موصوف کردیا ہے۔- ایک جگہ ارشاد فرمایا (اللہ نزل احسن الحدیث کتا بامتشابھامثانی ما اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل کیا ہے، ایک کتاب باہم ملتی جلتی ہے اور بار باردہرائی ہوئی) یہاں اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن کو صفت متشابہ کے ساتھ موصوف کردیا۔ پھر دوسری جگہ فرمایا (ھو) الذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات ھن امر الکتاب واخرمتشابھات) اس آیت میں یہ بیان کیا کہ قرآن کے بعض حصے محکم ہیں اور بعض حصے متشابہ ، محکمیت کی صفت جو پورے قرآن میں پائی جاتی ہے اس سے مراد وہ درستی صداقت اور اتقان اور پختگی جن کی بناپر قرآن کو ہر کلام پر فضیلت حاصل ہے رہ گئے قرآن مجید کے وہ مخصوص مقامات جن کے متعلق ارشاد ہوا (منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب) تو اس سے مرادہروہ لفظ سے جس کے معنی میں کوئی اشتراک نہ ہو اور سامع کے نزدیک اس میں ایک کے سوا اور کسی معنی کا احتمال ہی نہ ہو۔- ہم نے اس بارے میں اہل علم کے اختلاف کا ذکر کردیا ہے تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس آیت میں مذکورلفظ احکام ہمارے بیان کردہ مفہوم کو لازما اپنے ضمن میں لیئے ہوئے ہے۔ یعنی وہ آیات جو کتاب کی اصل بنیاد قراردی گئی ہیں اور جنکی طرف متشابہات کو لوٹایاجاتا ہے۔ یعنی متشابہات کے معانی کی تقین کے لیئے ان آیات کو معیار اورکسوٹی بنایاجاتا ہے تشابہ کی صفت جو پورے قرآن میں پائی جاتی ہے اور جس کا ذکرباری تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا، (کتابامتشابھا) تو اس سے مراد وہ ماثلت ہے جو آیات میں پائی جاتی ہے۔ نیز اس سے اس بات کی بھی نفی کرنا مقصود ہے کہ قرآنی آیات اختلاف بیان اور تضادات کے نقائص سے پاک ہیں۔ رہ گئے وہ متشابہات جو قرآن کے بعض حصوں کے ساتھ مختص ہیں تو ہم نے ان کے متعلق سلف کے اقوال کا تذکرہ کردیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ محکم سے مرادناسخ اور متشابہ سے مراد منسوخ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ محکم اور متشابہ کی ایک قسم ہے اس لیئے کہ حضرت ابن عباس نے اس بات کی نفی نہیں کی نفی نہیں کی کہ محکم اور متشابہ کی ان کے علاوہ اور صورتیں نہیں ہیں۔ اسی بات کی گنجائش ہے کہ ناسخ کو محکم کا نام دیاجائے اس لیئے کہ اس کا حکم اپنی جگہ باقی رہتا ہے اور عرب کے لوگ مضبوط اور پائیدار عمارت کو محکم کے نام سے پکارتے ہیں اسی طرح مضبوط لڑی والے ہارکو بھی محکم کا نام دیاجاتا ہے ۔ جسے کھولنا ممکن نہ ہو اس لیئے ناسخ کو بھی محکم کانا م دینا درست ہے اس لیئے کہ ناسخ کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ثبات اور بقار کی صفت پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف منسوخ کو متشابہ کہنا بھی درست ہے کیونکہ وہ تلاوت میں محکم کے مماثل ہوتا ہے۔ اس بناپر تلاوت کرنے والے کے لیئے اس کا حکم ثابت اور نسخ کے لحاظ سے مشتبہ ہوجاتا ہے۔ اس حیثیت سے منسوخ کو متشابہ کہنا درست ہے۔- جس شخص نے یہ کہا ہے کہ محکم وہ ہے جس کے الفاظ میں تکرارنہ ہو اور متشابہ وہ ہے جس کے الفاظ میں تکرارہو، چونکہ سامع کے نزدیک الفاظ کی تکرار کی حکمت کی وجہ میں اشتباہ ہوتا ہے، اس جہت سے آیت متشابہ بن جاتی ہے۔ اس سبب کا اطلاق ان تمام مقامات پر ہوسکتا ہے جہاں سامع پر حکمت کی وجہ میں اشتباہ پیدا ہوجائے۔ یہاں تک کہ وہ خود اس وجہ سے آگاہ ہوجائے اور اس کی حکمت کا مفہوم اس کے ذہن میں واض ہوجائے۔ اس وقت تک ایسی آیت پر متشابہ کے اسم کا اطلاق جائز ہے۔ دوسری طرف جن آیات میں سامع کے لیئے وجہ حکمت میں اشتباہ نہ ہو تو وہ اس قائل کے قول کے مطابق محکم ہوں گی جن میں کسی تشابہ کی گنجائش نہیں۔ اس قائل کے قول میں بیان کردہ مفہوم بھی محکم اور متشابہ کی ایک صورت ہے اور اسپران اسمابہ کا ا طلاق جائز ہے۔ حضرت جابربن عبداللہ سے ایک روایت ہے کہ محکم وہ ہے جس کی تاویل اور تفسیر کی تعیین کا علم ہوجائے اور متشابہ وہ ہے جس کی تاویل وتفسیر کی تعیین کا علم نہ ہوسکے مثلاقول باری ہے (یسئلونک عن الساعۃ ایان مرساھا۔ یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا) یا اس قسم کی اور آیات ایسی پر محکم اور متشابہ کے اسم کا اطلاق درست ہے۔ اس لیئے کہ جس چیز کے وقت اور مفہوم کا علم ہوجائے اس میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا اور اس کا بیان محکم ہوتاہی اور جس چیز کے وقت معنی اور تاویل کا علم نہ ہوسامع کے نزدیک وہ اشتباہ کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیئے اس پر متشابہ کے اسم کا اطلاق جائزہوتا ہے۔ آیت میں واردالفاظ میں روایت شدہ ان تمام وجوہ کا احتمال موجود ہے۔ اگر یہ احتملات موجودنہ ہوتے توسلف سے مروی تاویلات کا ذکرنہ ہوتا۔- ہم نے اہل علم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ محکم وہ لفظ ہے جس میں صرف ایک معنی کا احتمال ہو اورمتشابہ وہ لفظ ہے۔ جس میں ایک سے زائدمعانی کا احتمال ہوتویہ ان وجوہ میں سے ایک ہے جوان الفاظ میں بطور احتمال موجود ہیں۔ اس لیئے کہ اس قسم کے محکم کو اس کی دلالت کی مضبوطی اور اس کے معنی کے وضوح اور ظہور کی بناپرمحکم کہاجاتا ہے جبکہ متشابہ کو اس بناپرمتشابہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک لحاظ سے محکم کے مشابہ ہوتا ہے۔ اور اس محکم کے معنی کا احتمال ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے لحاظ سے وہ ایسی چیز کے مشابہ ہوتا ہے جس کا معانی محکم کے معنی کے خلاف ہوتا ہے۔ اس بناپر اس کا نام متشابہ رکھاگیا ہے۔ جب محکم اور متشابہ پر ان تمام معانی کا پے درپے ورددہوتا ہے جن کا ہم نے ابھی ذکرکیا ہے تو اب ہمیں قول باری (منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشابھات فاماالذین فی قلوبھم زیع فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ۔ اس کتاب میں دوطرح کی آیات ہیں۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں) کے معنی ومرادجاننے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اگرچہ ہمیں اس آیت کے مضمون اور مفہوم میں موجودبات کا علم ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا نا اور اس سے محکم کے معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ نہ کہ اس کے مخالف معنی پر محمول کرنا۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے محکم آیات کی صفت یہ بیان کی کہ (ھن ام الکتاب) اور، ام، وہ ہے جس سے ایک چیز کی ابتداہو اور وہ چیز اسی کی طرف لوٹ کرآئے۔ اس لیئے اس کا نام، ام، رکھا گیا، اس لیے اس لفظ کا اقتضابہ یہ ہوگیا کہ متشابہ کی بنیادمحکم پر رکھی جائے اور اسے محکم کیطرف ہی لوٹایاجائے۔- پھر اللہ تعالیٰ نے اس مفہوم کی تاکید اپنے اس قول سے کردی کہ (فاماالذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ) اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے متعلق یہ حکم لگادیاجومتشابہ کو محکم پر محمول کیئے بغیر اس کے پیچھے پڑجاتا ہے کہ اس کے دل میں کجی اور ٹیڑھ ہے یہ بتادیا کہ ایساشخص قتنے کا متلاشی ہوتا ہے جس سے یہاں کفر اور گمراہی مراد ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے۔ (والفتنۃ اشدمن اقتل، اور فتنہ یعنی کفرقتل سے بھی بڑھ کر جرم ہے) یعنی فتنہ سے مرادکف رہے۔ واللہ اعلم۔- اللہ نے یہ خبردی ہے کہ متشابہ کے درپے ہونے والا اور اسے محکم کے مخالف معنی پر محمول کرنے والا دراصل اپنے دل میں زیغ لیئے ہوئے ہے۔ یعنی راہ حق سے ہٹ کر دوسروں کو متشابہ کے واسطے سے کفروضلال کی طرف دعوت دینے والا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں مذکورمتشابہ سے مراد وہ لفظ ہے جو کئی معانی کا احتمال رکھتا ہو اورج سے محکم کی طرف لوٹا نا اور اس کے معنی پر محمول کرنا واجب ہو۔ پھر ہم نے ان معانی پر غور کیا جو متشابہ پر آگے پیچھے واردہوتے ہیں اور جن کا ہم نے متشابہ کی اقسام بیان کرتے وقت ان حضرات کے اقوال کی صورت میں ذکر کیا ہے۔ جوان معانی کے قائلین ہیں جن اگرچہ اختلاف ہے لیکن الفاظ میں ان سب کا احتمالموجود ہے۔- اس غور و فکر سے ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ جو اہل علم محکم اور متشابہ کے ناسخ اور منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کا قول اس حدتک درست ہے کہ اگر ان دونوں کے نزول کی تاریخیں معلوم ہوں قوان کی تاریخوں کا علم رکھنے والے کے لیئے کوئی اشتباہ نہیں ہوگا اور اسے یقینی طورپر یہ معلوم ہوجائے گا کہ منسوخ کا حکم متردک اور ناسخ کا حکم ثابت اور قائم ہے۔ اس طرح ان کی تاریخوں کا علم رکھنے والے سامع پر ان کے حکموں کے متعلق کوئی اشتباہ نہیں ہوگا۔ جن میں نسخ کے علاوہ اور کسی چیز کا احتمال نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر ان کی تاریخوں کا علم نہ ہونے کی بناپرسامع کے لیئے اشتباہ پیدا ہوجائے۔ جس کے نتیجے میں ایک لفظ کا دوسرے کی بہ نسبت محکم یامتشابہ ہونا اس وجہ سے اولی قرارنہ دیاجاسکے کہ دونوں لفظوں میں سے ہر ایک کے اندرناسخ اور منسوخ بننے کا احتمال ہے تو اس صورت میں درج بالاقول کو اس قول باری (فیہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرامتشابھات) کی تفسیر و تاویل میں کوئی دخل نہیں ہوگا بلکہ یہ قول بےمعنی ہوجائے گا۔- جواہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ محکم وہ ہے جس کے لفظ میں تکرارنہ ہو اورمتشابہ وہ ہے جس کے لفظ میں تکرارہوتو اس قول کا بھی زیربحث آیت کی تفسیر و تاویل میں کوئی دخل نہیں ہے اس لیئے کہ تکرار کی صورت میں اسے محکم کی طرف لوٹا نے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ اس پر غفلی طورپرغوروفکر کی ضرورت ہوگی اور یہ کہ لغوی طورپر اسے اس معنی پر محمول کرنے کا کہاں تک جواز ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہ قول بھی زیربحث آیت کی تفسیر و تاویل کے حکم سے خارج ہے کہ محکم وہ ہے جس کے وقت اور اس کی تعیین کا علم ہو اورمتشابہ وہ ہے جس کی تاویل کی تعیین کا علم نہ ہومثلا قیامت کا معاملہ یاصغیرہ گناہوں کی بات جن کے متعلق ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاف جواب ہے کہ اس دنیامیں ہمیں ان کا علم نہیں ہوسکتا۔- اس طرح یہ قول بھی اس آیت کی تفسیر و تاویل کے حکم سے خارج ہے۔ اس لیئے کہ ہم اس صورت میں بھی متشابہ کو محکم کی طرف لوٹاکر اس کے معنی کا علم حاصل نہیں کرسکتے۔ اس لیئے محکم اور متشابہ کی اقسام کے سلسلے میں ایک کی بنیاددوسرے پر رکھنے اور اس کے معنی پر محمول کرنے کے وجوب کے متعلق ہمارے بیان کردہ وجوہ میں سے صرف آخری وجہ باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ متشابہ وہ لفظ ہے جس میں کئی معانی کا احتمال ہو اس لیئے اسے محکم پر محمول کرنا واجب ہے جس میں ایسا احتمال نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لفظ میں کوئی اشتراک ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی نظائرہم نے اس کتاب کی ابتدا میں بیان کردیئے ہیں اور یہ واضح کردیا ہے کہ اس کی آگے دوقسمیں ہیں عقلیات اور سمعیات۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم نے محکم اور متشابہ کے سلسلے میں سلف سے جو اقوال نقل کیئے ہیں الفاظ میں ان کا احتمال ممتنع ہے۔ ہم نے الفاظ میں ان معانی کے احتمال کی وجوہات بیان کردی ہیں۔ نیز متشابہ کو محکم پر محمول کرنے کے وجوب کی آخری وجہ جو بیان کی گئی ہے۔ اس کے درست ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ متشابہ کو محکم پر محمول کرنے کے باقی ماندہ تمام وجوہ ہمارے بیان کی روشنی میں ممکن نہیں رہے بلکہ ان کا امکان ممتنع ہوچکا ہے۔ پھر قول باری (ومایعلم تاویلہ الا اللہ حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) کے معنی یہ ہیں کہ تمام متشابہات کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں یعنی کوئی بھی اس کے سواتمام متشابہات کے علم کا احاطہ کرسکتا ہے۔ لیکن اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوئی کہ ہمیں بعض آیات متشابہات کے معانی کا اس بناپرعلم ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان معانی پر دلالت قائم کردی گئی ہے۔- جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے (ولایحیطون بشیء من علمہ الاب ماشاء اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیزان کو گرفت اور اک میں نہیں آسکتی الایہ کہ کسی چیز کا علم وہ خودہی ان کو دینا چاہے) اس لیئے کہ آیت زیربحث کے مفہوم میں یہ دلالت موجود ہے کہ ہم بعض آیات متشابہات کے معانی کا علم انہیں محکمات کی طرف لوٹاکر اور ان پر محمول کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ بات محال ہے متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کے وجوب پر آیت کی دلالت ہورہی ہو۔ نیز یہ کہ ہم متشابہ کے علم اور اس کی معرفت تک پہنچ نہیں سکتے اس لیئے مناسب ہے کہ قول یاری (ومایعلم تاویلا الا اللہ) کو بعض متشابہات کے متعلق وقوع علم کی نفی کرنے والا قرارنہ دیاجائے۔ جن متشابہات کے متعلق ہمارے علم کی رسائی کا کوئی جو از نہیں ان میں سے ایک قیامت آنے کا وقت ہے اور دوسراصغیرہ گناہوں کا معاملہ ہے۔ بعض اہل علم اس بات کے جو از کے قائل ہیں کہ شریعت میں ایک ایسامجمل لفظ واردہوجائے جو تفصیل وبیان کا متقاضی ہومیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بالکل ہی بیان نہ کیا جائے، اس صورت میں یہ مجمل لفظ اس متشابہ کے حکم میں ہوگا جس کے حقیقی معنی تک ہمارے علم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔- راسخون فی العلم کی تفسیر میں اختلاف رائے۔- اہل علم کا، قول باری (ومایعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم) کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کے نزدیک فقرہ (الرسخون فی اعلم) پر مکمل ہوتا ہے۔ اور اس میں واقعہ حرف واؤجمع کے لیئے ہے مثلا آپ کہیں کہ لقیت زیدا وعمرا۔ (میں نے زید اور عمرکودیکھا) یا اس قسم کے دوسرے فقرات۔ بعض کے نزدیک فقرہ (ومایعلم تاویلہ الا اللہ) پر ختم ہوجاتا ہے اور بعد میں آنے والا حرف واؤاگلے خطاب کی ابتدا کے لیئے ہے اور اس کا ماقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلے قول کے قائلین کے نزدیک راسخین فی العلم بعض متشابہات کا علم رکھتے ہیں تمام کا نہیں۔ حضرت عائشہ اور حسن بصری سے اس قسم کی روایت ہے۔- ابن ابی تجیح کی روایت کے مطابق قول باری (واماالذین فی قلوبھم زیغ) کی تفسیر میں مجاہدنے کہا ہے کہ زیغ سے مراد شک ہے۔ (وابتغاء الفتنۃ) یعنی شبہات کی تلاش میں جن کا تعلق ان کی ہلاکت سے ہے۔ لیکن علم میں رسوخ اور گہرائی کر رکھنے والے اس کے معنی سے واقف ہیں اور اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جملے کے الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے۔ ، ویقول الراسخون العلم، حضرت عمربن عبدالعزیز سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ آیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے۔ ومایعلم تاویلہ الا اللہ ولراسخون فی العلم یعلمونہ قائلین آمنابہ، (متشابہ کی تاویل یعنی حقیقی معنی کا علم صرف اللہ کو ہے اور علم میں رسوخ اور گہرائی رکھنے والے بھی فی الجملہ اس کا علم رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے) ربیع بن انس سے بھی یہی تضیر منقول ہے۔ لفظ جس احتمال کا متقاضی ہے اس کی بناپر عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہونی چاہیئے کہ تمام متشابہات کے معانی کا علم تو صرف اللہ کو ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔- تاہم علم میں رسوخ رکھنے والے بعض متشابہات کا علم رکھتے ہیں۔ اور اپنی زبان سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ یعنی ایسے متشابہات جن کے معانی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلالت قائم کردی گئی ہے۔ کہ ان کی بنیادمحکمات پر رکھ کر انہیں ان کی طرف لوٹاؤ۔ اور وہ متشابہات بھی جن کے معانی تک ہمارے علم کی رسائی کا کوئی وسیلہ نہیں بنایا گیا۔ مثلا وہ باتیں جن کی ہم پچھلے سطور میں اشارے کر آئے ہیں جب راسخین فی العلم کو بعض متشابہ کا علم ہوجاتا ہے اور بعض کا نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں ہم سب پر ایمان لاتے ہیں یہ تمام کے تمام ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کا علم اس وجہ سے نہیں دیا اور ہم سے انہیں مخفی رکھا کہ اسے معلوم تھا کہ اس میں ہماری بھلائی اور ہمارے دین اور دنیا کی بھلائی مضم رہے۔ دوسری طرف جن متشابہات کا اس نے ہمیں علم دے دیاوہ بھی اس بناپردیا کہ اسے معلوم تھا کہ اس میں ہماری مصلحت پوشیدہ ہے۔ اس طرح راسخین فی العلم تمام کی تمام آیات متشابہات کی صحت کا اعتراف کرتے اور سب کی تعریف کرتے ہیں۔ خواہ ان میں سے بعض کا انہیں علم ہوگیا ہو یا بعض کانہ ہواہو۔- بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صرف ایک ہی صورت درست ہے وہ یہ کہ کلاس کی انتہار قول باری (ومایعلم تاویللہ الا اللہ) پر ہوجائے، اور واؤکواستقبال کے معنی میں لیا جائے جمع کے معنی میں نہ لیاجائے، اس لیئے کہ اگر واؤجمع کے لیئے ہوتا تو کلام باری یوں ہوتا، ویقولون امنابہ، واؤکا ازسرنوذکرخیر نے اسرنوذکر کی بناپرہوتا۔ جو لوگ پہلے قول کے قائل ہیں یعنی فقرے کی انتہاء (والراسخون فی العلم) پر کرتے اور واؤکوجمع کے معنی میں لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لغت میں ایسا استعمال جائز ہے۔- قرآن مجید میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ تقسیم فی (زکواۃ کے سوابیت المال کی آمدنی کے دیگر ذرائع مثلا مال غنیمت خراج اور جزیہ وغیرہ) کے سلسلے میں قول میں باری ہے (ماافاء اللہ علی رسولہ من اھل القوی فلللہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمساکین وابن السبیل جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطورفی ولوادے، سو وہ اللہ ہی کا حق ہے۔ اور رسول کا اور رسول کے عزیزوں کا اور تیمیوں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا) تاقول باری (ان اللہ شدیدالعقاب، بیشک اللہ سزادینے میں بڑاسخت ہے) پھر اس کے بعد تفصیل آئی اور ان لوگوں کا نام لیا گیا جو اس فئی کے مستحق تھے فرمایا (للفقرآء المھاجرین الذین اخرجوامن دیارھم واموالھم یبتغون فضلامن اللہ ورضوانا۔ ان حاجت مندمہاجروں کا خاص طورپریہ حق ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے جدا کردیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کے طلب گار ہیں) تاقول باری (والذین جاؤ امن یعدھم، اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جوان کے بعدائے) یہ لوگ بھی لامحالہ پہلوں کی طرح فئی کے استحقاق میں داخل ہیں اور اس میں مذکورہ حرف واؤجمع کے معنی دیتا ہے۔- پھر ارشاد ہو (یقولون ربنا اغفرلنا والاخواننا الذین سبقونا بالایمان، اور وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو بھی جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت کرگئے ہیں) معنی کے لحاظ سے یہ فقرہ یوں ہوگا، قائلین ربنااغفرلنا۔۔۔۔ (یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے پروردگار ۔۔۔۔ ) ٹھیک اسی طرح قول باری (والرسخون فی العلم یقولون) بھی ہے اور فقرے کے معنی یہ ہوں گے، علم میں رسوخ رکھنے والے ایسی آیات متشابہات کی تفسیر و تاویل کا علم رکھتے ہیں جن کے معانی تک رسائی کے لیئے دلالت قائم کردی گئی ہے، ساتھ ساتھ وہ بھی کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم ان سب پر ایمان لے آئے، اس بناپران کا ماقبل پر عطف ہوگا اور وہ ماقبل کے حکم میں شامل اور داخل ہوں گے۔- عربی شعر میں بھی اس کی مثال موجود ہے یزیدبن مفرغ حمیرکاشع رہے - ؎ وشریت بردالیتنی من بعد بردکنت ھامہ - فافریح تبکی شجوہ والبرق یلمع فی الغمامہ - میں نے ایک دھاری دارچادرخریدی کاش کہ سردی گذرجانے کے بعد میں اس کے استعمال کا ارادہ کرسکتا، سردی گذرگئی اور اب موسم بہار کی ہوا اس کی یاد میں غم کے آنسوبہاتی ہے اور بجلی بادلوں میں چمکتی ہے۔ (موسم سرماکے بعد بہار کی آمد آمد ہے) معنی یہ ہیں کہ بادل میں چمک کر اپنے غم کے آنسوبہارہی ہے۔ جب لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے توپھریہ ضروری ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کے سلسلے میں آیت کی دلالت کی موافقت میں اسے محمول کیا جائے اور اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ راسخین فی العلم متشابہ کو محکم کی طرف لوٹاکر اور اس کے معنی پر محکم کے ذریعے استدلال کرکے اس کی تاویل وتفسیر کا علم حاصل کرلیتے ہیں، ایک اور جہت سے دیکھاجائے تو واؤ کے حقیقی معنی جمع کے ہیں اس لیئے اسے اسی معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ یہی اس کا متقضی ہے۔ ابتداء کے معنی پر کسی دلالت کے بغیریہ محمول نہیں ہوسکتا اور ہمارے پاس کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جوا سے اس کے حقیقی معنی سے پھیردینا ضروری قراردے۔ اس لیئے اسے جمع کے معنی میں استعمال کرنا واجب ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ جب محکم کے استعمال کو عقلی طورپرسمجھ میں آنے دالے معنی کے ساتھ مقید کردیاگیا جس کی بناپریہ گنجائش پیدا ہوگئی کہ ہر باطل پرست عقل کے استعمال کا دعویداربن سکتا ہے تو ایسی صورت میں محکم سے استدلال کا فائدہ باطل ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ محکم کا استعمال اس معنی کے ساتھ مقید ہے۔ جو اہل عقول کے درمیان متعارف ہو۔ اس صورت میں لفظ اس معنی کے مطابق ہوگا ۔ جس سے اہل لغت کے عقلاء متعارف ہوں اور اس میں عقل سے کام لینے میں مقدمات وقضایا کی ضرورت نہ پڑے بلکہ سننے والے کو اس کے معنی مراد کا علم اس طریقے پر ہوجائے جو عقلا کے عقول میں ثابت اور درست ہے نہ کہ اس طریقے پر جو لوگوں کی فاسدعادتوں میں پایاجاتا ہے جن پر یہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جب یہ باتیں پائی جائیں گے توپھریہ محکم ہوگا جس کے معنی میں اس کے لفظ کے ساتھ مقتضی اور حقیقت کے سوا اور کسی بات کا احتمال نہیں ہوگا۔ رہ گئیں فاسدعادتیں تومحکم کے معنی کے سلسلے میں ان کا کوئی اعتبار نہیں۔- اگریہ کہاجائے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ محکمات کو چھوڑکرمتشابہات کی کس طرح پیروی کرتے ہیں کیا اس کی کوئی مثال موجود ہے تو جواب میں کہاجائے گا اس کی مثال ربیع بن انس کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ اس آیت کا نزول وفدنجران کے متعلق تھا۔ جب عیسائیوں کا یہ وفد مدینے آکرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بحث ومباحثہ کرنے لگاتو دوران بحث انہوں نے پوچھا کہ آیاعلیہ السلام اللہ کے کلمہ اور اس کی روح نہیں ہیں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا کیوں نہیں ؟ اس پر انہوں نے کہا بس ہمارے لیئے اتناہی کافی ہے۔ (یعنی آپ ہماری بات مان گئے۔ ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ) - پھریہ آیت نازل ہوئی) ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون۔ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال کی طرح ہے۔ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا پھر اس سے کہا ہوجاوہ ہوگیا) یہاں نجرانی عیسائیوں نے کلمہ اللہ، کے قول کو اس مفہوم کی طرف موڑدیاجوان کے عقیدے اور قول کے مطابق تھا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات (نعوذ باللہ) اللہ کی ذات کی طرح قدیم ہے اور اس کی روح ہے۔ انہوں نے اس لفظ، کلمتنہ اللہ، سے یہ مراد لیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (نعو ذ باللہ) اللہ تعالیٰ کا جز ہیں اور کی ذات کے ساتھ ان کی ذات بھی روح انسان کی طرح قدیم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے لفظ کلمۃ اللہ، سے یہ مراد لیا تھا کہ انبیائے متقدمین نے ان کی بشارت دی تھی۔ بشارت کی قدامت کی بناپرا نہیں کلمتنہ اللہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔- اللہ نے انہیں، اپنی روح، کانا اس لیئے دیا کہ انہیں مذکرکے بغیر یعنی بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ حضرت جبریل کو حکم ملاتھاجس کے تحت انہوں نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماردی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف عطا کرنے کے لیئے ان کی نسبت اپنی ذات کی طرف کردی جس طرح، بیت اللہ، سماء اللہ ، اور، ارض اللہ، میں اللہ کی طرف نسبتیں ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ، روح اللہ، اسی طرح کہا گیا ہے جس طرح قرآن کو روح کا نام دیا گیا ہے۔ چناچہ قول باری سے (وکذلک اوحینا الیک روحامن امرنا۔ اور اس طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی یعنی اپناحکم بھیجا ہے) قرآن مجید کو اس وجہ سے روح کے نام سے موسوم کیا کہ اس میں لوگوں کے دینی امور میں ان کی زندگی کا سامان مہیا کردیا گیا ہے۔ لیکن اہل زیغ اور کج روانسانوں نے اپنے فاسدمذاہب اور کفروضلال کے عقائد کے اثبات کے لیئے اسے استعمال کیا۔ قتادہ کا قول ہے کہ اہل زیغ جو متشابہات کے پیروکار ہیں ان کا تعلق خوارج کے فرقہ حروریہ اور سبائیہ (ابن سبا کے پیروکار) سے ہے۔
(٧) اسی ذات نے جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے تم پر قرآن کریم کو نازل کیا، جس میں اکثر حصہ ہر طرح کے شک وشبہ سے محفوظ ہے یعنی حلال و حرام، جائز ناجائز غرضیکہ تمام اصولی وبنیادی چیزوں کو بیان فرمانے والا ہے، اس میں سے کوئی چیز بھی منسوخ نہیں ہوئی، یہ آیات ہی کتاب اللہ کی جڑ اور بنیاد ہیں اور ہر ایک کتاب آسمانی پر عمل کرنے کے لیے اصل اصول ہیں جیسا کہ فرمان الہی (آیت) ”۔ قل تعالوا اتل ما حرم ربکم “۔ اور دوسری آیات ایسی ہیں جو یہودیوں کے لیے مشتبہ المراد (یعنی جن کے مفہوم میں قطعیت نہیں ہے) جیسا کہ اس کی ایک مثال حروف مقطعات ہیں اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے کہ ان متشابہ آیات پر عمل منسوخ کردیا گیا اور جن لوگوں کے دلوں میں شک اور حق سے روگردانی ہے، جیسا کہ یہودیوں میں سے کعب بن اشرف، حی بن اخطب، جدی بن اخطب، وغیرہ ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کی آڑ میں اپنی بدنیتی کے سبب کفر وشرک اور گمراہی پر قائم رہنے کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس امت کا انجام دیکھنے کی غرض سے کہ مسلمان کس طرح ناکام ہوتے ہیں تاکہ مدینہ کی بادشاہت انہیں کے لیے رہے اور انجام کار اور صحیح مطلب سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے یہ بات ختم کرکے اب اللہ تعالیٰ از سر نو پھر کلام کو شروع فرماتے ہیں اور جو حضرات مثلا توریت کے علم میں پختہ کار ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھی وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر یقین رکھتے ہیں کہ محکم و متشابہ سب آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور احکام قرآنیہ سے علقمند حضرات ہی نصیحت قبول کرتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔
آیت ٧ (ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ ) - کسی کسی جگہ نَزَّلَ کے بجائے اَنْزَلَ کا لفظ بھی آجاتا ہے ‘ اور یہ آہنگ ( ) کے اعتبار سے ہوتا ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید کا اپنا ایک ملکوتی غنا ( ) ہے ‘ اس میں اگر آہنگ کے حوالے سے ضرورت ہو تو یہ الفاظ ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں۔- (مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ ) - محکم اور پختہ آیات وہ ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح ہو اور جنہیں ادھر سے ادھر کرنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس کتاب کی جڑ ‘ بنیاد اور اساس وہی ہیں۔ - (وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ط) - جن کا حقیقی اور صحیح صحیح مفہوم معین کرنا بہت مشکل بلکہ عام حالات میں ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل تعارف قرآن کے ضمن میں عرض کی جا چکی ہے۔ آیات الاحکام جتنی بھی ہیں وہ سب محکم ہیں ‘ کہ یہ کرو یہ نہ کرو ‘ یہ حلال ہے یہ حرام جیسا کہ ہم نے سورة البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار کُتِبَ عَلَیْکُمْکے الفاظ آتے رہے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کتاب درحقیقت ہے ہی مجموعۂ احکام۔ لیکن جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی بحث ہے ان کا فہم آسان نہیں ہے۔ اللہ کی ذات وصفات کا ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ اللہ کا ہاتھ ‘ اللہ کا چہرہ ‘ اللہ کی کرسی ‘ اللہ کا عرش ‘ ان کا ہم کیا تصور کریں گے ؟ اسی طرح فرشتے عالم غیب کی شے ہیں۔ عالم برزخ کی کیا کیفیت ہے ؟ قبر میں کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ عالم آخرت ‘ جنت اور دوزخ کی اصل حقیقتیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ چناچہ ہماری ذہنی سطح کے قریب لا کر کچھ باتیں ہمیں بتادی گئی ہیں کہ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ ۔ چناچہ ان کا ایک اجمالی تصور قائم ہوجانا چاہیے ‘ اس کے بغیر آدمی کا راستہ سیدھا نہیں رہے گا۔ لیکن ان کی تفاصیل میں نہیں جانا چاہیے۔ دوسرے درجے میں میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کچھ طبیعیاتی مظاہر ( ) بھی ایک وقت تک آیات متشابہات میں سے رہے ہیں ‘ لیکن جیسے جیسے سائنس کا علم بڑھتا چلا جا رہا ہے ‘ رفتہ رفتہ ان کی حقیقت سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے اور اب بہت سی چیزیں محکم ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ تاہم اب بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت سے ہم بیخبر ہیں۔ جیسے ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ سات آسمان سے مراد کیا ہے ؟ ہمارا یقین ہے کہ ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ انسان سمجھ لے گا کہ ہاں یہی بات صحیح تھی اور یہی تعبیر صحیح تھی جو قرآن نے بیان کی تھی۔ - (فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ) (ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ ) - وہ چاہتے ہیں کہ کوئی خاص نئی بات نکالی جائے تاکہ اپنی ذہانت اور فطانت کا ڈنکا بجایا جاسکے یا کوئی فتنہ اٹھایا جائے ‘ کوئی فساد پیدا کیا جائے۔ جن کا اپنا ذہن ٹیڑھا ہوچکا ہے وہ اس ٹیڑھے ذہن کے لیے قرآن سے کوئی دلیل چاہتے ہیں۔ چناچہ اب وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے مفہوم کو اپنے من پسند مفہوم کی طرف موڑ سکیں۔ یہ اس سے فتنہ اٹھانا چاہتے ہیں۔- (وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِہٖ ج ) - وہ تلاش کرتے ہیں کہ ان آیات کی اصل حقیقت ‘ اصل منشا اور اصل مراد کیا ہے۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کا علمی ذوق ہی ایسا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کی فطرت میں کجی ہو۔- (وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ الاَّ اللّٰہُ ٧ ) ۔- (وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖلا کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج) ۔- جن لوگوں کو رسوخ فی العلم حاصل ہوگیا ہے ‘ جن کی جڑیں علم میں گہری ہوچکی ہیں ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جو بات صاف سمجھ میں آگئی ہے اس پر عمل کریں گے اور جو بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی ہے اس کے لیے انتظار کریں گے ‘ لیکن یہ اجمالی یقین رکھیں گے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔- (وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاََلْبَابِ ) - اور سب سے بڑی ہوش مندی یہ ہے کہ انسان اپنی عقل کی حدود ( ) کو جان لے کہ میری عقل کہاں تک جاسکتی ہے۔ اگر انسان یہ نہیں جانتا تو پھر وہ اولوالالباب میں سے نہیں ہے۔ بلاشبہ عقل بڑی شے ہے لیکن اس کی اپنی حدود ہیں۔ ایک حد سے آگے عقل تجاوز نہیں کرسکتی : - گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور - چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے - یعنی منزل تک پہنچانے والی شے عقل نہیں ‘ بلکہ قلب ہے۔ لیکن عقل بہرحال ایک روشنی دیتی ہے ‘ حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :5 محکم پکی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں ۔ ”آیات محکمات“ سے مراد وہ آیات ہیں ، جن کی زبان بالکل صاف ہے ، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے ، جن کے الفاظ معنی و مدعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں ، جنہیں تاویلات کا تختہ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مل سکتا ہے ۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“ ، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے ، اس غرض کو یہی آیتیں پورا کرتی ہیں ۔ انہی میں اسلام کی طرف دنیا کی دعوت دی گئی ہے ، انہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں ، انہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہ راست کی توضیح کی گئی ہے ۔ انہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ انہی میں عقائد ، عبادات ، اخلاق ، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں ۔ پس جو شخص طالب حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے ، اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر انہی سے فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے گا ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :6 متشابہات ، یعنی وہ آیات جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا ، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں ، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں ، نہ آسکتی ہیں ، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا ، نہ چھوا ، نہ چکھا ، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان مل سکتے ہیں ، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھنچ جائے ۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیب بیان وہ استعمال کیے جائیں ، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں ، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے ۔ لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کردے ۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی ، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا ، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا ۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوق فضول نہیں رکھتے ، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اس دھندلے تصور پر قناعت کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں ، مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :7 یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں ، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے ، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے ۔ اور جب آیات محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے ، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے ۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے ، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے ، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے ۔
3: اس آیت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس حقیقت کا احساس ضروری ہے کہ اس کائنات کی بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی وحدانیت توایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان اپنی عقل سے معلوم کرسکتا ہے، لیکن اس کی ذات اور صفات کی تفصیلات انسان کی محدود عقل سے ماورا ہیں، قرآن کریم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ ظاہر کی گئی ہے، لیکن کوئی شخص ان صفات کی حقیقت اور کنہ کی فلسفیانہ کھوج میں پڑجائے توحیرانی یا گمراہی کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، کیونکہ وہ اپنی محدود عقل سے اللہ تعالیٰ کی ان لامحدود صفات کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جو اس کے ادراک سے باہر ہیں، مثلاً قرآن کریم نے کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک عرش ہے اور یہ کہ وہ اس عرش پر مستوی ہوا، اب یہ بات کہ وہ عرش کیسا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کہ مستوی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب انسان کی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی عملی مسئلہ اس پر موقوف بھی نہیں، ایسی آیات جن میں اس قسم کے حقائق بیان کئے گئے ہیں متشابہات کہلاتی ہیں، اسی طرح مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف الگ الگ نازل کئے گئے ہیں (مثلاً اسی صورت کے شروع میں الف لام میم) اور جنہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے وہ بھی متشابہات میں داخل ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں یہ ہدایت دی ہے کہ ان کی کھو دکرید میں پڑنے کے بجائے ان پر اجمالی طور سے ایمان رکھ کر ان کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا چاہئے اس کے برعکس قرآن کریم کی دوسری آیتیں ایسی ہیں جن کا مطلب واضح ہے اور درحقیقت وہی آیات ہیں جو انسان کے لئے عملی ہدایات فراہم کرتی ہیں انہی آیات کو محکم آیتیں کہا گیا ہے، ایک مومن کو انہی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ متشابہات کے بارے میں صحیح طرز عمل بتلانا یوں بھی ضروری تھا، لیکن اس سورت میں اس وضاحت کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ نجران کے عیسائیوں کا جو وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اور جس کا ذکر اوپر کے حاشیہ میں گزرا ہے، اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر ایک دلیل یہ بھی پیش کی تھی کہ خود قرآن نے انہیں کلمۃ اللہ (اللہ کا کلمہ) اور روح من اللہ فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی صفت کلام اور اللہ کی روح تھے اس آیت نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ قرآن کریم ہی نے جگہ جگہ صاف لفظوں میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہوسکتی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا یا خدا قراردینا شرک اور کفر ہے، ان واضح آیتوں کو چھوڑکر کلمۃ اللہ کے لفظ کو پکڑ بیٹھنا اور اس کی بنیاد پر ایسی تاویلیں کرنا جو قرآن کریم کی محکم آیات کے بالکل برخلاف ہیں، دل کے ٹیڑھ کی علامت ہے، حقیقت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ باپ کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، جیسا کہ قرآن کریم نے اسی سورت کی آیت : ٥٩ میں بیان فرمایا ہے، اور انہیں روح من اللہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی روح براہ راست اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی تھی، اب یہ بات انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کن سے پیدا کرنے کی کیفیت کیا تھی اور براہ راست ان کی روح کس طرح پیدا کی گئی ؟ یہ امور متشابہات میں سے ہیں، اس لئے ان کی کھود کرید بھی منع ہے (کیونکہ یہ باتیں انسان کی سمجھ میں آہی نہیں سکتیں) اور ان کی من مانی تاویل کرکے ان سے خدا کے بیٹے کا تصور برآمد کرنا بھی کج فہمی ہے۔