Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلٰی اور برتر (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) 42 ۔ الشوری :11)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة النمل کی آیت نمبر ٧٤ اور سورة العنکبوت کی آیت نمبر ١٧ کے حواشی - [ ٢٧] یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی سے اونچی شان اسی کی ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حسن اور خوبی میں اللہ کی شان اور صفات سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتی۔ بلکہ اگر کسی چیز میں کوئی خوبی موجود بھی ہے تو وہ اسی کے کمالات کا ادنیٰ پرتو ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ : اللہ تعالیٰ نے یہ بات بندوں کے کہنے اور کرنے کے لحاظ سے فرمائی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو پہلی دفعہ اور دوسری دفعہ پیدا کرنا برابر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم یہ تو مانتے ہو کہ تمام مخلوقات کو پہلی بار اسی نے پیدا کیا ہے اور یہ بھی سمجھتے ہو کہ جس نے ایک دفعہ کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے اس چیز کو دوبارہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس لیے تمہارے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے لیے، جس نے پہلی بار تمام مخلوقات بنائی ہے، دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللَّہُ کَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلِکَ ، وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ ، أَمَّا تَکْذِیْبُہُ إِیَّايَ أَنْ یَّقُوْلَ إِنِّيْ لَنْ أُعِیْدَہُ کَمَا بَدَأْتُہُ ، وَأَمَّا شَتْمُہُ إِیَّايَ أَنْ یَّقُوْلَ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا، وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِّيْ کُفُوًا أَحَدٌ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( اللہ الصمد ) ٤٩٧٥، ٤٩٧٤ ] ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا، حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ (اللہ) مجھے دوبارہ نہیں بنائے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی دفعہ پیدا کیا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، حالانکہ میں اکیلا ہی ہوں، بےنیاز ہوں، جس نے نہ کسی کو جنا نہ کسی نے اسے جنا اور کوئی بھی اس کا کبھی شریک نہیں۔ “- وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ :” الْمَثَلُ “ سے مراد یہاں صفت اور شان ہے، یعنی زمین ہو یا آسمان، پوری کائنات میں سب سے اعلیٰ صفت اور سب سے اونچی شان صرف اس کی ہے۔ ” لہ “ کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی شان اسی کی ہے۔ “ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول ذکر کیا ہے : ( قَوْلُہُ : ( وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ) یَقُوْلُ : ( ۭ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ) یعنی یہ زیر تفسیر آیت اللہ کے اس فرمان کی طرح ہے : ( ۭ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ) [ الشورٰی : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ “ یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی سے اونچی شان اسی کی ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حسن و خوبی میں اللہ تعالیٰ کی شان اور صفات کے برابر تو کیا اس سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی، کیونکہ کسی چیز میں کوئی خوبی موجود بھی ہے تو اس کی عطا کردہ ہے۔- وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : خبر کے معرف باللاّم آنے کے ساتھ حصر پیدا ہو رہا ہے، یعنی وہی ہے جو سب پر غالب ہے۔ وہ جو چاہے کرے، نہ اس کے لیے کچھ مشکل ہے نہ کوئی اس کے ارادے میں رکاوٹ بن سکتا ہے، مگر غالب ہونے کے ساتھ وہ کمال حکمت والا بھی ہے۔ اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، بلکہ کمال حکمت پر مشتمل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى، لفظ مثل بفتح میم وثاء ہر ایسی چیز کے لئے بولا جاتا ہے جو دوسرے سے کچھ مماثلت اور مناسبت رکھتی ہو بالکل اس جیسی ہونا اس کے مفہوم میں داخل نہیں اسی لئے حق تعالیٰ کے لئے مثل ہونا تو قرآن میں کئی جگہ آیا ہے، ایک یہیں دوسرے فرمایا مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ لیکن مثل اور مثال سے حق تعالیٰ کی ذات پاک اور وراء الوراء ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَيْہِ۝ ٠ ۭ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٢٧ۧ - بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور وہ وہی ہے جو پہلی بار نطفہ سے پیدا کرتا ہے اور پھر وہی قیامت کے دن دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے نزدیک بہ نسبت پہلی بار پیدا کرنے کے زیادہ آسان ہے۔- اور آسمان و زمین والوں میں اس کی شان قدرت سب سے بلند ہے اور وہ اپنی بادشاہت و سلطنت میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔- شان نزول : وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ (الخ)- ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ فرمانے کے بارے میں متعجب ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی وہ وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے اور پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ ط) ” - یہ بعث بعد الموت کے بارے میں عقلی دلیل ہے جو قرآن میں متعدد بار دہرائی گئی ہے۔ معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی اس دلیل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی کام کا پہلی دفعہ کرنا دوسری دفعہ کرنے کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہوتا ہے ‘ اور جب کسی کام کو ایک دفعہ سر انجام دے دیا جائے اور اس سے متعلق تمام مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا جائے تو اسی کام کو دوسری مرتبہ کرنا نسبتاً بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اہل عرب جو قرآن کے مخاطب اول تھے ‘ وہ اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اور اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے ملتا ہے۔ مثلاً : (وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط) (لقمٰن : ٢٥) ” اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے “ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کو خالص منطقی اور عقلی سطح پر یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس اللہ کے بارے میں تم مانتے ہو کہ وہ زمین و آسمان کا خالق ہے اور خود تمہارا بھی خالق ہے اس کے بارے میں تمہارے لیے یہ ماننا کیوں مشکل ہو رہا ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرے گا ؟ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہ آخر دوسری مرتبہ ایسا کیوں نہیں کرسکے گا ؟ جبکہ کسی بھی چیز کو دوسری مرتبہ بنانا پہلے کی نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔- (وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ” - یہاں پر اللہ تعالیٰ کے لیے ” مثل “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن مثل یا مثال کا جو مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے اس کا اللہ کے بارے میں تصور کرنا مناسب اور موزوں نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ” مثل “ کا ترجمہ ” شان “ یا ” صفت “ سے کیا جائے کہ اس کی شان بہت اعلیٰ اور بلند ہے یا اس کی صفت سب سے برتر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 38 یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنا اگر اس کے لیے مشکل نہ تھا ، تو آخر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہوجائے گ؟ پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتے جاگتے موجود ہو ۔ اس لیے اس کا مشکل نہ ہونا تو ظاہر ہے ۔ اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے وہی چیز دوبارہ بنانا نسبۃً زیادہ ہی آسان ہونا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani