Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

351یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ جن کو اللہ کا شریک گردانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، یہ بلا دلیل ہے، اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ بھلا اللہ تعالیٰ شرک کے اثبات و جواز کے لئے کس طرح کوئی دلیل اتار سکتا تھا۔ جب کہ اس نے سارے پیغمبر بھیجے ہی اس لئے تھے کہ وہ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات کریں۔ چناچہ ہر پیغمبر نے آکر سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید ہی کا وعظ کیا۔ اور آج اہل توحید مسلمانوں کو بھی نام نہاد مسلمانوں میں توحید و سنت کا وعظ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مسلمان عوام کی اکثریت شرک و بدعت میں مبتلا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] کیا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ فلاں مصیبت سے اللہ نے نہیں بلکہ فلاں حضرت نے نجات دی تھی۔ یا یہ خوشحالی کے دن اللہ کی مہربانی سے نہیں بلکہ فلاں حضرت کی نظر کرم کی وجہ سے میسر آئے ہیں۔ کیا کسی آسمانی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اللہ نے اپنے فلاں فلاں کے اختیارات و تصرفات فلاں فلاں حضرت کو یا فلاں دیوتا کو یابت کو تفویض کردیئے ہیں اور ان کاموں کے لئے تم ان کی طرف رجوع کرسکتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا ۔۔ : ” اَم “ کلام کے درمیان آتا ہے، اس سے پہلے ہمزہ استفہام والا جملہ ہوتا ہے، یہاں وہ جملہ کیا ہے ؟ رازی نے فرمایا : ” تو کیا وہ بلا دلیل محض خواہش نفس کی پیروی میں شریک کر رہے ہیں، یا ہم نے ان پر کوئی دلیل نازل کی ہے۔۔ ؟ “ ہمارے استاذ محمد عبدہ لکھتے ہیں : ” یعنی آخر شرک کی دلیل کیا ہے ؟ کیا ان کی عقل یہ کہتی ہے یا (ہم نے ان پر کوئی دلیل نازل کی ہے اور) ہماری کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ تمہارے فلاں بزرگ کو ہم نے اپنے اختیارات میں شریک کرلیا ہے، لہٰذا تم انھیں بھی اپنی حاجت روائی کے لیے پکار سکتے ہو ؟ “ مزید دیکھیے سورة احقاف (٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَيَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِہٖ يُشْرِكُوْنَ۝ ٣٥- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا ہم نے ان مکہ والوں پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کی ہے کہ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کو کہہ رہی ہے اور کیا اس میں اس چیز کی سند اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرک کا حکم دیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ ) ” - اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے بارے میں کیا ان لوگوں کے پاس کسی آسمانی کتاب میں کوئی دلیل موجود ہے جو اس شرک کی صداقت پر شہادت دیتی ہو جو یہ کر رہے ہیں ؟ کیا ان پر ایسی کوئی ہدایت نازل ہوئی ہے کہ فلاں شخصیت بھی اللہ کے برابر ہوسکتی ہے اور فلاں ہستی بھی اس کے اختیارات میں حصہ دار بن سکتی ہے ؟ یہاں پر آسمانی سند یعنی الہامی کتاب کے بارے میں لفظ یَتَکَلَّم آیا ہے ‘ یعنی کیا اللہ کی نازل کردہ کتاب ان سے اس بارے میں گفتگو کرتی ہے ؟ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں قرآن کے لیے جو لفظ ” گویا “ (گفتگو کرنے والا) استعمال کیا ہے شاید اس کا تصور انہوں نے یہیں سے لیا ہو : - مثل حق پنہاں وہم پیدا ست ایں - زندہ و پائندہ و گویا ست ایں - یعنی حق تعالیٰ کی مانند یہ کلام پوشیدہ بھی ہے ‘ ظاہر بھی ہے اور زندہ و پائندہ بھی۔ دوسری بہت سی صفات کے علاوہ اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اپنے پڑھنے والے کے ساتھ ہم کلام ہوتی ہے اور اس سے گفتگو کرتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 54 یعنی آخر کس دلیل سے ان لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ بلائیں خدا نہیں ٹالتا بلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں؟ کیا عقل اس کی شہادت دیتی ہے؟ یا کوئی کتاب الہی ایسی ہے جس میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہو کہ میں اپنے خدائی کے اختیارات فلاں فلاں حضرتوں کو دے چکا ہوں اور اب وہ تم لوگوں کے کام بنایا کریں گے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani